طلباء سیاست کے گاڈ فادر

  • March 29, 2017 3:07 pm PST
taleemizavia single page

ثمینہ رشید

جو کچھ پنجاب یونیورسٹی میں ہوا اور اسلامی جمیعت کے کارکنان نے جس طرح پختون کلچرل ڈے کے طلبہ پہ دھاوا بولا اور ہنگامہ آرائی کی، کیا یہ کوئی نئی بات ہے؟

اگر ہم صرف گزشتہ دہائی کے چیدہ چیدہ واقعات پہ نظر ڈالیں تو نومبر 2007ء کا وہ دن یاد آتا ہے۔ جب عمران خان سے اسلامی جمیعت کے طلباء نے جامعہ پنجاب میں انتہائی ناروا سلوک کیا تھا۔ لاہور کی سڑکوں پہ کئی دن عمران خان سے بدسلوکی کے خلاف طلباء نے مظاہرے کئے تھے اور جماعت اسلامی کے دفتر کو بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ لیکن عمران خان نے اس وقت طلبہ کے غصے کا ساتھ نہ دیا اور مصالحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی معذرت کو قبول کر لیا تھا۔

یکم اپریل 2010 جامعہ پنجاب کا سیاہ ترین دن تھا۔ جب شعبہ ارتھ اینڈ انوائرنمنٹل سائنسز کے پروفیسر اور چئیرمین ڈسپلن کمیٹی افتخار بلوچ پہ قاتلانہ حملے کیا گیا تھا۔ اسلامی جمیعت کے تیس سے زائد کارکنان نے ان پہ حملہ کیا تھا اور ان کو اس وقت تک مارا گیا جب تک کہ اپنے طور پر یقین نہ آگیا کہ وہ مر چکے ہیں۔ لیکن اس قاتلانہ حملے میں افتخار بلوچ صاحب بچ گئے تھے۔ اُن کا قصور یہ تھا کہ انہوں نے جماعت کے لیڈروں کو یونیورسٹی سے نکالنے کی جرات کی تھی۔

ستمبر 2011 میں القائدہ کے ایک سرغنہ کی گرفتاری جامعہ پنجاب سے عمل میں آئی تھی جن کو جمعیت کے طلبہ سہولت فراہم کیا کرتے تھے۔

دو ہزار بارہ وہ سال تھا جب بی بی سی نے ایک رپورٹ میں لسانی اور صوبائی تعصب کے آغاز کا خدشہ ظاہر کیا تھا اس زمانے اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک کارکن کے قتل کے بعد ہنگامہ شروع ہوا جس کا الزام جمعیت کے طلباء نے انتظامیہ پہ لگایا اور انتظامیہ نے اس کو باہمی چپقلش کا شاخسانہ کہا۔ اس واقعے کو لے کر جمعیت کے ارکان نے شہر میں ہنگامہ کیا اور اساتذہ کو مارا پیٹا گیا تھا۔ حتی کہ ایس پی رینک کے افسر کو کمرے میں بند کر کے تشدد کیا گیا۔

ایک اور جھگڑا جمعیت، بلوچ اور پشتون طلباء کے بیچ ہوا۔ جب ایک ٹی پارٹی کا انتظام پشتون پارٹی کی طرف سے خصوصی کوٹے پہ آنے والے نئے بلوچ طلبہ کے لئے کیا گیا تھا۔ جمعیت کے طلباء نے اس پارٹی کو روکنے کی کوشش کی اور ہاسٹل کو بند کر دیا گیا تھا۔ اور اس کے بعد ہمیشہ کی طرح الزام دوسروں پہ رکھنے کے لئے کہا گیا کہ صوبائیت کا نعرہ لگایا جا رہا ہے اور لسانیت کی بنیاد پہ یونیورسٹی کے ماحول کو خراب کیا جا رہا ہے۔ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔

اس واقعے کے بعد پشتون اور بلوچ طلبہ نے سڑک بند کر کے احتجاج کیا۔ اُس وقت جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے صلح کرانے کی کوشش کی۔ لیکن پشتون اور بلوچ طلبا کے نمائندے محمد زکریا کے مطابق جب وہ مذاکرات کر کے لیاقت بلوچ کے گھر سے واپس آئے تو ہوسٹل میں ان کے کمرے کو آگ لگی ہوئی تھی۔

یونیورسٹی کی انتظامیہ کے مطابق یونیورسٹی کے محدود اختیارات کے باعث صوبائی حکومت کو اطلاع دے دی گئ تھی جس کا کوئی خاطر خواہ جواب موصول نہ ہوا تھا۔

اس کے کچھ عرصے بعد ہی جمعیت کے طلبا سے یونیورسٹی کے ہاسٹل گراؤنڈ سے اسلحہ اور ہینڈ گرینیڈ بھی برآمد کئے گئے تھے۔

ستمبر 2013ء ہی میں خفیہ اداروں نے جامعہ پنجاب کے ہاسٹل کے ایک کمرے سے ایک دہشت گرد کو گرفتار کیا تھا۔ اور جمعیت ہی کے ایک ناظم شہزاد کی گرفتاری بھی اس ضمن میں عمل میں آئی تھی۔ اس پہ الزام تھا کہ اس نے تین دن تک ایک دہشت گرد ہاسٹل میں چھپا کر رکھا تھا۔

دو دسمبر 2013 جمعیت کے کارکنان کی ایک نئی پہچان دے گیا تھا۔ سابق وی سی کے حکم پہ ہاسٹل نمبر 16 کو خالی کرانے کے لئے پولیس کی مدد طلب کی گئی تھی۔ جمعیت کے اس وقت کے ناظم نے کچھ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ مل کر نہ صرف ہاسٹل پہ ناجائز قبضہ کر رکھا تھا بلکہ غیر اخلاقی سرگرمیوں کا مرکز بھی بنا رکھا تھا۔ اس ناجائز قبضہ کے خلاف کارروائی میں شراب کی بوتلیں، بھنگ، چرس کے سگریٹ اور اسلحہ برآمد کیا گیا تھا۔ اس دوران جمعیت کے کارکنان نے پولیس پہ پتھراؤ بھی کیا تھا۔

اس وقت کے امیر جماعتِ اسلامی پنجاب ڈاکٹر وسیم اختر کا بیان بھی قابلِ ذکر ہے جب انہوں نے فرمایا تھا کہ وی سی صاحب کو ہاسٹل خالی کرانے سے پہلے ہمیں اعتماد میں لینا چاہئیے تھا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے طلباء کی فوری رہائی نہ ہونے کے صورت میں احتجاج کا اعلان بھی کیا تھا۔

پچھلے سال بھی جمعیت کے درجنوں کارکنوں نے جو کہ طالبان یا داعش جیسی تنظیموں کی طرح کا رویہ رکھنے کے حوالے سے بدنام ہوتے جا رہے ہیں اکتوبر میں ایک طالبہ اور اس کے ساتھ کھڑے کلاس فیلو کو شعبہ ابلاغیات کے باہر نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ ڈپارٹمنٹ کا دروازہ اور شیشے بھی توڑ ڈالے تھے۔ حتیٰ کہ پولیس کو طلب کر لیا گیا لیکن ان کے آنے تک جمعیت کے طلباء ڈپارٹمنٹ کے بیرونی گیٹ کو توڑنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس تمام واقعے کے خلاف دوسرے طلبا نے احتجاج کیا اور موثر کارروائی کی درخواست کی۔

اور بات اتنی ہی نہیں بلکہ بلوچ اور پختون طلبا و طالبات یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اسلامی جمعیت برسوں سے ان کے ساتھ زیادتی کرتی چلی آ رہی ہے۔ ماضی میں اسلامی جمعیت کے ایک ناظم نے ایک معذور بلوچ طالب علم کو اس وقت تھپڑ مار دیا تھا جب وہ ایک گانا گنگناتا آ رہا تھا۔ اس کے علاوہ بھی ہاسٹل نمبر چار میں اُس وقت مقیم ایک اسٹوڈنٹ کو ہاسٹل ناظم نے تشدد کا نشانہ بنایا جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اس طالب علم کے کمرے میں گانے لگے ہوئے تھے۔ اس وقت کے سپرنٹنڈنٹ ہاسٹل ڈاکٹر محبوب حسین کا بیان ریکارڈ پہ ہے کہ جو جمعیت کا بیج لگا لیتا ہے وہ طالب علموں کے لئے گاڈ فادر بن جاتا ہے۔

سابق وائس چانسلر کے دور میں جماعت کا موقف یہی رہا تھا کہ بلوچ طلباء سے تصادم ہونے کے پیچھے ڈاکٹر کامران مجاہد کی سازش ہوتی ہے۔ لیکن ان سے سوال کیا جائے کہ وہ بلوچ طلباء کو کیسے جمعیت کے ساتھ لڑنے پہ مجبور کر سکتے ہیں تو اس کا کوئی منطقی جواب کبھی نہ مل سکا۔

اس بات کو صرف اس حد تک درست تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ سابق وی سی نے اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر جمعیت کے اثر و رسوخ کو کسی حد تک کم کر دیا تھا۔ ماضی میں حافظ سلمان بٹ کی طرف سے یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ ڈاکٹر مجاہد کامران کو جمعیت نے رکن نہیں بنایا اور ٹکٹ نہیں دیا اس لئے وہ جمعیت سے انتقام لے رہے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر مجاہد کامران نے واضح طور پر اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ وہ کبھی جمعیت یا جماعت اسلامی کا حصہ نہیں رہے۔

جامعہ پنجاب کے طلبہ میں اس امر پہ قطعی دو رائے نہیں کہ اسلامی جمعیت ہر ممکن طریقے سے اپنا کنٹرول برقرار رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ ماضی میں پنجاب یونیورسٹی میں انہوں نے تدریسی اور نان تدریسی عملہ بھرتی کرایا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ جماعت کے ہمدرد سنڈیکیٹ میں بھی موجود ہوتے تھے۔ شریف برادران کا جماعت اسلامی اور جمعیت کی طرف ماضی میں سوفٹ کارنر رکھنا بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔

اگر بات جامعہ پنجاب سے باہر نکل کر کی جائے تو مقتول صحافی سلیم شہزاد کی کتاب بھی وہ ناقابل فراموش حقیقت ہے جس میں انہوں نے جماعت کے القاعدہ اور طالبان سے روابط کا انکشاف کیا تھا۔

دو ہزار تین میں القاعدہ کے رہنما خالد شیخ محمد کو جماعت اسلامی کی ایک خاتون رہنما کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔ 2009 میں سری لنکن ٹیم پہ حملے اور جی ایچ کیو پر حملے میں ملوث ماسٹر مائنڈ زبیر عرف نیک محمد اور عقیل عرف ڈاکٹر عثمان دونوں نے اپنی پناہ گاہوں کے منصورہ میں ہونے کا انکشاف کیا۔

منور حسن کے اس بیان کو کون بھول سکتا ہے جس میں انہوں نے اسامہ بن لادن اور ان کے حامی دہشت گردوں کی موت کو شہادت قرار دیا تھا ۔

یہ بات بھی ریکارڈ کا حصہ ہے کہ سابق وائس چانسلر جامعہ پنجاب ڈاکٹر مجاہد کامران کے زمانے میں جمعیت کے غیر قانونی عناصر کے خلاف کارروائی کے لئے شکایت پہ انتظامیہ سرگرمی نہیں دکھاتی تھی۔ جمعیت کے کارکنوں کو اوّل تو پکڑا نہیں جاتا تھا یا پکڑ کو چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اس بات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ باقاعدہ ان عناصر کی پشت پناہی کی جاتی رہی ہے۔

دو ماہ قبل جنوری 2017 میں طلباء کی طرف سے باقاعدہ الزام عائد کیا گیا کہ عبوری وائس چانسلر نے جامعہ کو دہشت گردوں کے حوالے کر دیا ہے۔ اس الزام کی وجہ اسلامی جمعیت کے طلبا کی جانب سے یونیورسٹی اور ہاسٹل نمبر ایک میں کی جانے والی ہنگامہ آرائی تھی۔ جس میں جمعیت کے طلباء نے کئی اسٹوڈنٹس کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا تھا۔

پولیس کی طرف سے ایک باقاعدہ چارج شیٹ اور رپورٹ بنا کر وی سی صاحب کو بھیجی گئ تھی جس میں اسلامی جمعیت کے سترہ طلبا کی نشاندہی اور ان کے خلاف ایکشن لینے کی درخواست کی تھی۔ پولیس نے واضح الفاظ میں مطالبہ کیا تھا کہ اگر یونیورسٹی میں امن قائم کرنا ہے تو ان سترہ طالب علموں کا داخلہ منسوخ کر کے یونیورسٹی سے نکال دیا جائے۔

لیکن توقع کے قطعی برخلاف وی سی صاحب نے رجسٹرار کے ذریعے نوٹیفیکیشن جاری کیا جس میں ہاسٹل وارڈنز اور سپرنٹنڈنٹ کو جمعیت کے طلباء کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی ہدایت کی گی تھی۔ اور انہیں معافی کے ساتھ ساتھ مکمل سرگرمیوں کی اجازت بھی دے دی تھی۔

ابھی صرف چند روز پہلے پشاور یونیورسٹی میں ہونے والے کتب میلے میں غامدی صاحب کی کتابوں کو جماعتِ اسلامی والوں نے رکھنے کی اجازت نہ دی۔ جب بات مظرِ عام پہ آئی تو کہا گیا یونیورسٹی انتظامیہ نے کہا تھا ایسا کرنے کو۔ اور جب یونیورسٹی انتظامیہ سے پوچھا گیا تو انہوں بالکل واضح الفاظ میں اس کی تردید کی۔ لیکن جماعت والوں نے اس کے باوجود آخر تک تسلیم نہ کیا کہ غامدی صاحب کی کتابیں رکھنے پہ یونیورسٹی کو نہیں، انہیں اعتراض تھا۔ بلکہ وہی روایتی بیان کہ یہ جماعت کو بدنام کرنے کی سازش ہے۔

اتنے سنہرے ماضی کے بعد آج کی جماعت اسلامی ایک قدم اور آگے بڑھ چکی ہے اب اس نے داعش کے فلسفے کو ماننے اور منوانے کی طرف قدم بڑھانا شروع کردیا ہے۔ جس کے مطابق اب کلچرل یا ثقافتی شوز کو بھی غیر اسلامی قرار دے کر اس پہ دھاوا بولنا اور سبوتاژ کرنے کو جائز قرار دینا بھی شامل ہو گیا ہے۔

آج “رقص ہوگا تو تصادم ہوگا” کا جملہ سنا ہے۔ قبل اس کے کہ بات کی ہے تو تصادم ہو گا، فلاں صوبے کا ہے تو تصادم ہو گا اور فلاں فرقے کا ہے تو تصادم ہو گا کی آگ اس طرح پھیل جائے کہ اس کا سدّباب بھی ممکن نہ رہے حکومت کو اسلامی جمیعت طلباء سے متعلق ٹھوس مںصوبہ بندی کرنا ہوگی اور ان کے ارادوں پر بند باندھنا چاہیے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *