اسٹیفن ہاکنگ اکیسویں صدی کا آئن سٹائن

  • March 16, 2018 12:21 pm PST
taleemizavia single page

شہباز احمد علوی

یوں تو سائنسی میدان میں ہر وقت ہزاروں سائنسدان مصروفِ عمل رہتے ہیں اور اپنی مسلسل تحقیق و تجربے سے انسانی زندگی آسان بنانے اور انسانی معلومات میں اضافے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، مگر پھر بھی ہر صدی میں ایسا کوئی نہ کوئی سائنس دان ضرور پیدا ہوتا ہے جس سے اس صدی کی سائنسی ترقی منسوب کی جاتی ہے۔

بیسویں ویں صدی کی شروعات میں یہ درجہ صرف البرٹ آئن اسٹائن کو حاصل تھا جن کی تھیوری آف ریلیٹیویٹی نے پچھلی صدیوں کے سائنسی نظریات کو نامعقول ثابت کرکے ریلیٹیویٹی کے نئے نظریات کی بنیاد رکھی۔ انہی نظریات کی آنے والی سالوں میں بے شمار تجربوں کے ذریعے تصدیق کی جاتی رہی، اور اب بھی کی جا رہی ہے۔

مگر آئن اسٹائن کی وفات کے بعد اگر کسی سائنسدان نے ان کے ورثے کو آگے بڑھا کر ان کے نظریات کو مزید تحقیق کے ذریعے راسخ کیا ہے تو ان میں سب سے بلند اور روشن نام پروفیسر اسٹیفن ہاکنگ کا ہے۔

برطانیہ کے شہر آکسفورڈ شائر سے تعلق رکھنے والے تھیوریٹیکل فزکس کے اس ماہر کی پیدائش 8 جنوری 1942ء کو ہوئی۔ فزکس کے وسیع میدان میں ہاکنگ کا تعلق علمِ کونیات یعنی کاسمولوجی سے تھا۔ یہ سائنس کی وہ شاخ ہے جس میں کائنات کو وسیع تر پیمانے پر دیکھا جاتا ہے کہ اس کی تخلیق کس طرح ہوئی اور اس کے پھیلاؤ میں کون کون سے عوامل کارفرما ہیں۔

ہاکنگ کو نظریاتی کونیات یعنی تھیوریٹیکل کاسمولوجی میں خصوصی دلچسپی تھی۔ اس شعبے میں سائنسدان ریاضی کا استعمال کرتے ہوئے کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مختلف ریاضیاتی ماڈلز کے ذریعے کائنات کی موجودہ شکل کو جانچ کر یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ ماضی میں کیسی رہی ہوگی یا مستقبل میں اس کی صورت کیا ہوگی۔

ابتدائی تعلیمی زمانے میں انہوں نے اپنے ریاضی کے استاد کے ساتھ مل کر گھڑی، ٹیلیفون اور ری سائکل شدہ پرزوں سے ایک سنگل بورڈ کمپیوٹر بنایا۔ ہاکنگ کے والد کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا انہی کی طرح طب کی تعلیم حاصل کرے، مگر ہاکنگ کا اپنا رجحان ہمیشہ سے فزکس اور ریاضی کی جانب رہا۔

انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ تعلیم کی شروعات 1959ء میں یونیورسٹی کالج آکسفورڈ سے کی۔ یونیورسٹی کالج سے فرسٹ کلاس بی اے آنرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ کیمبرج یونیورسٹی کے ٹرینیٹی ہال چلے گئے۔ کیمبرج میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے انہوں نے راجر پینروز کے اسپیس ٹائم سنگیولرٹی، یعنی ایسا مقام جس کے اندر کسی بھی جسم کا تمام مادہ ایک جگہ محدود ہو، کے تصور کے بارے میں سنا جو کہ راجر پینروز کے مطابق ہر بلیک ہول کے وسط میں ہوتا ہے۔

کونیات میں بلیک ہول ایک ایسی چیز ہے جو کہ ایک جسیم ستارے کی زندگی کے ختم ہونے کے بعد رہ جاتی ہے۔ فزکس کا اصول ہے کہ جس چیز کی کثافت جتنی زیادہ ہوگی، اس کی کششِ ثقل بھی اتنی ہی زیادہ ہوگی، اور اس کی کشش سے آزاد ہونے کے لیے آپ کو اتنی ہی زیادہ رفتار کی ضرورت ہوگی۔ بلیک ہولز کی کششِ ثقل اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس کے اندر سے روشنی بھی نہیں باہر نکل پاتی، حالاں کہ یہ کائنات کی تیز ترین شے ہے۔

کیمبرج میں اپنے سپروائزر ڈینس شیاما کے ساتھ کام کرتے ہوئے ہاکنگ نے اس تصور پر تحقیق کی کہ اگر بلیک ہول کے وسط میں وزنی ستارے کی وجہ سے ایک سنگیولرٹی بن سکتی ہے تو اگر ہم کائنات کی گھڑی کو الٹا چلائیں تو نہ صرف کائنات کی سرحدیں ہم سے دور چلی جائیں بلکہ سُکڑ کر چھوٹی بھی ہو رہی ہوں گی اور کائنات کا سارا مادہ ایک جگہ جمع ہوکر ایک سنگیولرٹی بنا دے گا۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس طرح بلیک ہول کے وسط میں ایک سنگیولرٹی ہوتی ہے اسی طرح کائنات کی شروعات بھی ایک سنگلیورٹی سے ہی ہوئی ہوگی۔ اسٹیفن ہاکنگ کی اسی تحقیق کی بنیاد پر ان کو کیمبرج یونیورسٹی نے پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کی۔

پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ہاکنگ کی تحقیق کا مرکز بلیک ہول رہے۔ بلیک ہول کونیات کے شعبے میں سب سے سادہ لیکن ساتھ ساتھ سب سے پیچیدہ چیز ہے۔ سادہ اس وجہ سے کیوں کہ آئن اسٹائن کی جنرل ریلیٹیوٹی تھیوری میں جب آپ کسی چیز کی کثافت کو بہت زیادہ کردیں تو وہ سنگیولرٹی بن جاتی ہے اور اس کے آس پاس کے رقبے کو بلیک ہول کہتے ہیں۔

لیکن یہ پیچیدہ اس وجہ سے ہے کیوں کہ کونیات اور طبعیات کے شعبے میں کوئی ایسا تصدیق شدہ نظریہ نہیں ہے جو کشش یعنی گریویٹی کو سمجھ سکے جو ایک سنگیولرٹی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔

اسی وجہ سے ایک بلیک ہول کو سمجھنا اور سمجھانا بہت پیچیدہ معاملہ بن جاتا ہے۔ ہاکنگ نے اپنے ساتھیوں مثلاً کِپ تھورن، راجر پینروز اور جان وہیلر وغیرہ کے ساتھ مل کر بلیک ہول کی تحقیق کے اس شعبے میں بے لوث خدمات انجام دیں۔ اس خدمت کی وجہ سے آج ہماری علم و آگاہی میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔

بلیک ہول کے بارے میں پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ جو بھی چیز بلیک ہول کے اندر جاتی ہے اس سے متعلق انفارمیشن مکمل طور پر ضائع ہوجاتی ہے، اور آپ صرف یہ بتا سکتے ہیں کہ بلیک ہول کے ماس میں کتنا اضافہ ہوا، اس کے برقی بار یعنی الیکٹرک چارج میں کتنا اضافہ ہوا اور اس کی گردش یعنی روٹیشن میں کتنی تبدیلی آئی۔

اس کے علاوہ باقی ساری انفارمیشن جیسے کہ اس چیز کا حجم، اس کی شکل و صورت، اس سب تفصیل کا کچھ پتہ نہیں چلایا جاسکتا۔ اس معاملے کو بلیک ہول انفارمیشن پیراڈوکس یعنی بلیک ہولز کا اطلاعاتی تضاد کہتے ہیں۔

ہاکنگ کی بے شمار سائنسی خدمات میں سے سب سے منفرد وہ ہے جس کو ہاکنگ ریڈی ایشن کہا جاتا ہے۔ ہاکنگ ریڈی ایشن کے بارے میں عام طور پر غلط سمجھا جاتا ہے کہ یہ بلیک ہول کے اندر سے باہر آتی ہے۔ بلیک ہول کی شدید کشش کی وجہ سے کوئی بھی چیز، حتیٰ کہ روشنی بھی باہر نہیں آسکتی۔ اس لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ہاکنگ ریڈی ایشن بلیک ہول کی سطح، یعنی ایونٹ ہورائزن سے خارج ہوتی ہے۔

ہاکنگ کے اس تصور کی بنیاد تھرموڈائنامکس کے قوانین ہیں جن کی وجہ سے بلیک ہول ہاکنگ ریڈی ایشن خارج کرتا ہے۔ ہاکنگ ریڈی ایشن کے تجربے پر مبنی کوئی شواہد نہیں ملے ہیں لیکن تھرموڈائنامکس کے جن قوانین پر اس خیال کی بنیاد ہے، انہیں قوانین کے استعمال سے زمین پر بہت سی ایجادات ہوچکی ہیں، مثلاً انجن، راکٹ اور بہت ساری مشینیں یہاں تک کہ ریفریجریٹر بھی۔

اس لیے مجموعی طور پر سائنس دان ہاکنگ ریڈی ایشن کے وجود پر یقین رکھتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ اگلی نسلوں کے تجربے ہاکنگ ریڈی ایشن کی تصدیق کرلیں گے۔ ہاکنگ کی تحقیق سے ہمیں یہ بھی سمجھ آتا ہے کہ ہاکنگ ریڈی ایشن کا بلیک ہول انفارمیشن پیراڈوکس سے کافی گہرا تعلق ہوسکتا ہے۔ ہاکنگ اور ان کے ہم منصبوں کے کام سے ہمیں پتہ چلا کہ جو بھی چیز بلیک ہول میں جاتی ہے، ہوسکتا ہے کہ اس کی ہیئت کے بارے میں معلومات ضائع نہیں ہوجاتیں جیسا کہ سمجھا جاتا تھا، بلکہ اس کی معلومات ہاکنگ ریڈی ایشن کے ذریعے بلیک ہول سے باہر آجاتی ہیں۔ لیکن یہ ترکیب اور تحقیق ابھی تک متفقہ طور پر منوائی نہیں جاسکی ہے اور خود ہاکنگ کے خیالات بھی بدل گئے تھے۔

بلیک ہولز کے علاوہ ہاکنگ کی تحقیق طبعیات اور کونیات کے بہت سارے شعبوں میں رہی ہے جس میں انہوں نے اپنے کئی ہم منصب لوگوں کے ساتھ کام کیا۔ اس کے علاوہ ہاکنگ اپنی عمر کے آخری حصے میں عوام تک سائنس کی تعلیمات اور علم پہنچانے کے لیے بھی منفرد کردار ادا کرتے رہے۔

50 سال سے زیادہ کی زندگی انہوں نے ایک وہیل چیئر پر گزاری۔ لگ بھگ 20 سال کی عمر میں ڈاکٹروں نے ان میں اعصابی بیماری ‘موٹر نیوران ڈزیز’ کی تشخیص کی تھی جس کی وجہ سے وہ ساری زندگی چلنے پھرنے اور بولنے سے قاصر رہے۔

1970ء سے لے کر 2018ء میں اپنی موت تک ہاکنگ اپنی بیماری کی وجہ سے بات نہیں کر پاتے تھے۔ 1986ء میں ہاکنگ کے لیے ایک کمپیوٹرائزڈ وہیل چیئر کا انتظام کیا گیا اور اپنی زندگی کے آخر تک وہ اسی کمپیوٹرائزڈ وہیل چیئر کے سہارے سے لوگوں سے مخاطب ہوا کرتے تھے۔

ان ساری جسمانی معذوریوں کے باوجود انہوں نے سائنس کی تحقیق اور سائنس کی تعلیمات کے فروغ کے لیے ایک منفرد کردار ادا کیا۔ ان کی مسلسل تحقیق اور جدوجہد کی وجہ سے انسانیت بلیک ہولز اور کائنات کے بارے میں بہت کچھ جانتی ہے جو کہ ممکن ہے کہ ہاکنگ کے بغیر تاخیر کا شکار ہوجاتی۔

ہاکنگ صرف ایک سائنسدان نہیں تھے، بلکہ ایک مفکر اور دانشور بھی تھے جو ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتے رہے کہ ٹیکنالوجی کی اندھادھند ترقی ایک دن مشینوں کو انسانوں کے مدِمقابل لا کھڑا کرے گی جس سے نوعِ انسانی کی بقاء کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

ہاکنگ کا ماننا تھا کہ مصنوعی ذہانت انسانی زندگیاں آسان کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی ذات کے لیے مسائل بھی کھڑے کرسکتی ہے، اور انہیں یقین تھا کہ مستقبل قریب میں ہم اس مقام تک پہنچ جائیں گے۔

انہوں نے اس خدشے کا اظہار اپنے اخباری مضامین اور عالمی رہنماؤں کے نام اپنے خطوط میں بار بار کیا کہ میدانِ جنگ میں مصنوعی ذہانت کا استعمال انسان ذات کے لیے فیصلہ کن طور پر ہلاکت خیز ثابت ہوسکتا ہے چنانچہ اس سے گریز کیا جائے۔

14 مارچ کی صبح کو سائنس کی دنیا کا یہ ستارہ یوں تو غروب ہوگیا، لیکن یہ بات طے ہے کہ اسٹیفن ہاکنگ نے اپنی جسمانی معذوری کو اپنی کمزوری کبھی بھی نہیں بننے دیا۔ وہ سائنسدانوں، عام انسانوں، معذورین، سبھی کے لیے ایک ایسی مثال قائم کرگئے ہیں جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔


shahbaz alvi

پیشے اور تعلیم کے اعتبار سے شہباز احمد علوی ماہرِ تھیوریٹیکل فزکس ہیں۔ وہ کراچی کی حبیب یونیورسٹی میں لیکچرار ہیں۔ ان کی سائنسی تحقیق کا مقصد کونیات اور خلا میں گردش کرنے والی اشیاء کی کششِ ثقل کو سمجھنا ہے۔ بشکریہ ڈان نیوز

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *