اقبال کی مشرقیت اور سر سید کی مغربیت

  • January 12, 2019 12:02 am PST
taleemizavia single page

سلیم احمد

جس طرح پرانے زمانے کے بعض لوگوں پر جن آتے تھے اسی طرح ہمارے زمانے کے اکثر لوگوں پر الفاظ آتے ہیں۔ بالکل جنوں ہی کی طرح، وہ ہمارے سروں پر مسلط ہو جاتے ہیں اور ان کے اثر میں ہم نہ جانے کیا کچھ کہتے رہتے ہیں جس کی ہمیں کُچھ خبر نہیں ہوتی۔

تہذیب کا لفظ بھی اسی قسم کا ایک جن ہے جو ہمارے سروں پر مسلط ہو گیا ہے۔ اس لفظ کے پہلے معمول سر سید تھے پھر جوں جوں علی گڑھ کی تعلیم اور ریل کی پٹریاں دور دور پھیلتی گئیں یہ لفظ بھی عام ہوتا گیا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ جسے دیکھیں، آنکھیں لال کیے جھوم جھوم کر، تہذیب تہذیب کہتا نظر آتا ہے۔

تہذیب نہ کہے گا تو ثقافت کہے گا، ثقافت نہ کہے گا تو کلچر کہے گا۔ میرے لیے تو یہ سب آسیبوں کے نام ہیں۔ کون کیا ہے، میری تو سمجھ میں نہیں آتا۔ ایک بات البتہ مجھے معلوم ہے جب کوئی لفظ ہمارے ذہنوں پر اس طرح سوار ہوجائے کہ ہم اس کے معنی کو سمجھے بغیر جا و بے جا طور پر اسے استعمال کرنے لگیں تو وہ لفظ نہیں رہتا نفسیاتی علامت بن جاتا ہے۔

تہذیب اور اسی قسم کے دوسرے تمام الفاظ ہماری اس نفسیات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ان الفاظ اور ان کے متعلقات کے بارے میں ہمارے اندر کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ضرور ہے۔ ایک گڑ بڑ تو اسی سے ظہار ہے کہ تہذیب یا ثقافت یا کلچر کا دورہ سب سے زیادہ انہی لوگوں کو پڑتا ہے جو کسی نہ کسی طرح اپنی روایت سے کٹ گئے ہیں۔

دور کیوں جائیں، ان لوگوں کے لباس، زبان اور رہن سہن پر ہی ایک نظر ڈال لیجیئے جو اس قسم کی بحثوں میں بحثیت طبقہ پیش پیش رہتے ہیں۔ آپ دیکھیں گے یہ وہی لوگ ہیں جن کی پرورش مغربی انداز میں ہوئی ہے اور اپنی اصلی زندگی میں اپنی تہذیب سے الگ ہوکر مغربی رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ اپنی تہذیب ، ثقافت یا کلچر کا اتنا چرچا کرنا بھی خود مغربیت کا نتیجہ ہے؟

تو گویا جنوں سے بات کرنے سے پہلے ہم وظیفہ پڑھ لیتے ہیں اور آیتہ الکرسی بہترین نجات ہے۔ تہذیب کا لفظ اٹھارویں صدی کے نصف آخر میں دو اور لفظوں کے ساتھ پھیلٹا شروع ہوا۔ ان میں ایک لفظ، ترقی تھا اور دوسرا مادیت۔

جانیے: اصل علامہ اقبال کون تھے؟

باپ، بیٹا، روح القدس کی تثلیث کی طرح تہذیب، ترقی اور مادیت کی تثلیث بھی تین میں ایک اور ایک میں تین کے فارمولے پر قائم تھی۔ مغرب میں تثلیث کے معنی یہ تھے کہ تہذیب اگر کوئی ہے تو وہ مغربی تہذیب ہے جو اب تک کی انسانی ترقی کا حاصل ہے اور دوسری تہذیبوں سے اس بناء پر مختلف ہے کہ خالص سائنس کی ٹھوس بنیادوں پر قائم ہے۔

یہی وہ تہذیب تھی جسے پھیلانے کے لیے اہل مغرب بندوقیں اور توپیں لے کر ساری دُنیا پر دوڑ چڑھے۔ چنانچہ برصغیر میں سر سید اور ان کے معاصرین ، تہذیب کا لفظ مغربی تہذیب ہی کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں۔

سر سید اور اقبال میں فرق یہ ہے کہ سر سید اہل مغرب کے اس دعوے کو تسلیم کر لیتے ہیں کہ مغربی تہذیب ہی اصل تہذیب ہے۔ اس لیے سر سید کو برصغیر کی قومیں غیر مہذب نظر آنے لگتی ہیں اور وہ انہیں بالخصوص مسلمانوں کو مغربی بنانے کی فکر میں پڑ جاتے ہیں۔

سر سید کے نزدیک مغربی ہونا، مہذب اور ترقی یافتہ ہونے کی علامت ہے اس حد تک کہ انہیں انگریزوں کے کُتے بھی ہندوؤں اور مسلمانوں سے بہتر معلوم ہوتے ہیں۔ رہی مادیت تو سر سید اس کے ابتدائی سبق، عقلیت کو قبول کر لیتے ہیں۔ اس کے مقابلے پر اقبال مغرب کے رد عمل کی دوسری منزل کی نشان دہی کرتے ہیں۔

یعنی وہ مغربی تہذیب کے مقابلے پر اسلامی تہذیب کو اس دعوے کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ مغربی تہذیب دراصل خود مسلمانوں کے اثر سے پیدا ہوئی ہے۔ مغرب کی سائنس، جو ان کی ترقی کا سبب ہے، خود مسلمانوں ہی کی ایجاد تھی، اور اگر وہ خراجات اور روایات میں مبتلا ہوکر سو نہ جاتے تو مغرب کی طرح خود ترقی کی اس منزل پر پہنچ جاتے۔

پڑھیں؛ تاریخ کی کتب سے جناح کی تلاش

مادیت کو البتہ اقبال شدت کے ساتھ رد کرتے نظر آتے ہیں۔ مادیت کو بھی اور عقلیت پرستی کو بھی۔ مگر اقبال پر تھیوسانی کا جو بڑا اثر پڑا ہے اس گہرا مطالعہ ہمیں بتا سکتا ہے کہ اقبال کا یہ رد عمل مغربیت ہی کی ایک شکل ہے۔

سر سید نے مسلمانوں کو مغربی بنانے کی جو مہم شروع کی تھی، اقبال اس کی اگلی منزل ہیں۔ اقبال پر نٹشے اور برگساں کو جو اثر ہے ہمیں اسے بھی اس روشنی میں دیکھنا چاہیے۔ ممکن ہے کہ بعض لوگوں کو میرا یہ خیال خلاف واقعہ معلوم ہو۔ کیونکہ اقبال شدت سے مغرب کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ مگر ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ مغرب کا رد عمل بھی مغربیت کی ہی ایک شکل ہے۔

مثلا قوم پرستی کی تحریک مغربی استعمار کے خلاف تحریک آزادی بنتی ہے مگر قوم پرستی خود مغربیت ہی کا ایک شاخسانہ ہے۔ اقبال کی مغربیت یہ ہے کہ وہ مغرب کی سائنس کو قبول کر لیتے ہیں جن کی بنیاد مادیت ہے البتہ وہ اسلامی اخلاق کو قائم رکھنا چاہتے ہیں بہت زیادہ گہرائی میں جا کر دیکھا جائے تو اخلاق، وجدان اور جذبہ پر اتنا زور جو اقبال کے ہاں نظر آتا ہے وہ خالص مغربی تصورات کا نتیجہ ہے۔

بظاہر یہ متضاد بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ نئی مشرقیت یعنی اسلامیت جو ہمیں اقبال اور ان کے ساتھ دوسرے بہت سے لوگوں میں ملتی ہے خود مغربیت ہی کی ایک قسم ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ قوم پرستی کی تحریک کی طرح مغرب کے تمام اثرات اپنی روح کو برقرار رکھتے ہوئے مظاہر میں مغرب کی ضد پیدا کرتے ہیں۔

اس طرح مغرب کی ظاہری مخالفت بھی مغربیت سے پیدا ہوتی ہے۔ ہم برصغیر میں پچھلے سو برس میں پیدا ہونے والے سیاسی، اخلاقی اور تہذیبی اثرات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مغرب کے خلاف یہ تمام رد عمل مغربی اثرات کا پیدا کیا ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں؛ علی گڑھ تحریک کا تہذیبی مطالعہ

علامہ اقبال مغربیت کی جس دوسری منزل کی نشان دہی کرتے ہیں وہاں پہنچ کر تہذیب کا جن مشرقی زبان بولنے لگتا ہے۔ یعنی مغربی روح اور مشرقی پیکر میں حلول کر جاتی ہے اور وہ چیز جو اپنی اصل کے اعتبار سے قطعی بیرونی اور اجنبی تھی ہمارے اندر سرایت کر کے یہ دھوکہ دینے لگتی ہے کہ وہ ہماری اپنی ہے۔ اقبال کی نو اسلامیت اور نو مشرقیت مغرب کے اسی عمل تناسخ سے پیدا ہوئی ہے۔

اقبال کی زندگی ہی میں مغربیت کا اثر اپنی تیسری منزل میں داخل ہوجاتا ہے۔ ترقی پسند تحریک اسی منزل پر پیدا ہوتی ہے۔ اب تہذیب ، ترقی اور مادیت سر سید کی عقلیت اور اقبال کی وجدانیت سے گزر کر اپنے سیدھے سادے رُوپ میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ تحریک اس بات کی علامت ہے کہ اب مغرب کا اثر ہمارے اندر گہرا اثر کر گیا ہے کہ ہم اپنی مکمل نفی کرنے کے باوجود اس دھوکے میں مبتلا رہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو ترقی دے رہے ہیں۔

سر سید کے یہاں تہذیب اور ترقی کے معنی مغربی معاشرت اور مغربی تعلیم کے تھے، اقبال کے یہاں تہذیب و ترقی کے معنی اسلامی اخلاق کو برقرار رکھتے ہوئے سائنس کو قبول کر لینا ہے۔ ترقی پسندوں کے یہاں تہذیب و ترقی کے معنی اپنے تمدن کے سب سے رسمی اور ظاہری حصہ کو قائم رکھتے ہوئے مادیت کو مان لینا ہے۔

مغربی اثر کی ان تینوں منزلوں کو اگر نظر میں رکھا جائے تو سر سید ک رد و قبول کی وہ تمام صورتیں جو شبلی، اکبر، اقبال اور ترقی پسندوں کے یہاں ملتی ہیں ان کے معنی روشن ہونے لگتے ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ مغرب کی روح کس طرح چولے بدل بدل کر ہمیں دھوکہ دیتی رہی ہے کہ ہم ترقی کی منزلوں میں مغرب کا ساتھ دینے کے باوجود مشرقیت کی طرف لوٹ رہے ہیں۔

چنانچہ ہم اپنی جس تہذیب کو اپنی زندگی میں رد کر چکے ہیں اسے کھیل تماشہ اور نمائش کے طور پر قائم رکھنا چاہتے ہیں یہ اپنی تہذیب سے محبت نہیں اس سے ایک ایسا سفاکانہ مذاق ہے جو ہماری قاتلانہ ذہنیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ چنانچہ تہذیب، ثقافت اور کلچر کا شور بڑھتا جارہا ہے کہ ہم اپنی تہذیب، ثقافت اور کلچر سے اُتنے ہی دور جا چکے ہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *