برصغیر کی برطانوی تقسیم کا قصہ اور لاہور کی سیاسی اہمیت

  • February 28, 2018 12:13 pm PST
taleemizavia single page

ہارون خالد

لاہور کے لیے شہ رگ کی حیثیت رکھنے والے فیروزپور روڈ سے بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔ اندرونِ شہر سے شروع ہوتے ہوئے کئی قدیم دیہی علاقوں بشمول اچھرہ، مزنگ، امر سدھو اور قصور کو ملاتے ہوئے یہ ہندوستان میں فیروزپور کی جانب بڑھتا ہے۔ یا بڑھا کرتا تھا۔

اس کے راستے میں ایک جگہ خاردار تاروں سے ایک سرحد تعمیر کی گئی ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی افواج میں سے دو کیل کانٹے سے لیس ہو کر اس کے دونوں جانب اپنے اپنے ملک کی حفاظت کے لیے کھڑی ہوتی ہیں۔

لاہور اور فیروزپور کے شہر ایک ایسے قدیم بندھن میں بندھے ہیں جسے تاریخ کے بے رحم دور — منگول اور افغان حملے اور برٹش راج — بھی توڑ نہیں سکے۔ مگر بالآخر یہ بندھن 1947 میں ہندوستان کی آزادی اور پاکستان کی تشکیل کے ساتھ ٹوٹ گیا۔

یہ سڑک اب لاہور شہر سے ہوتی ہوئی اپنی پرانی منزل فیروزپور کی جانب بڑھتی ہے، مگر مسلح سپاہیوں کو دیکھتے ہی اپنا سفر ادھورا چھوڑ کر مسافروں کو دھوکہ دے دیتی ہے۔

پرانا لاہور

اس سڑک پر ایک جدید کثیر المنزلہ عمارت کے سامنے گلاب دیوی ہسپتال قائم ہے، جو 40 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اتنا رقبہ اس تیزی سے تنگ ہوتے ہوئے شہر میں کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔

کوئی بھی نوجوان شہری جس نے صرف پاکستان کو ہی دیکھا اور جانا ہے، اسے یہ نام ضرور تھوڑا منفرد محسوس ہوگا۔ یہ نام بھی دیگر ہزاروں غیر مسلم ناموں کی طرح اس وقت مٹ جاتا جب تقسیمِ ہند کے بعد لاہور نے کثیر المذہبی شناخت چھوڑ کر یک رنگی صورت اختیار کرنی شروع کی۔

پرانے ناموں کو نئے قومی منصوبے کی تکمیل کے لیے راتوں رات بدل دیا گیا۔ گلاب دیوی اس لیے بچ گئیں کیوں کہ یہ ہسپتال ایک ٹرسٹ کے زیرِ انتظام چلتا ہے، اور ٹرسٹ کی شرائط میں سے ایک یہ ہے کہ اس کا نام تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔

اس ہسپتال کا نام کانگریس کے مشہور رہنما لالہ لجپت رائے کی والدہ گلاب دیوی کے نام پر ہے۔ اس کی تعمیر 1934 میں ہوئی اور اس کا افتتاح گاندھی جی نے کیا تھا۔

گلاب دیوی کا انتقال لاہور میں ٹی بی کے باعث ہوا تھا۔ لالہ لجپت رائے نے 1927 میں ٹرسٹ قائم کیا اور اپنی والدہ کی یاد میں ایک ہسپتال قائم کرنے کا ارادہ کیا۔ بدقسمتی سے اسی سال وہ اپنا خواب پورا ہونے سے قبل ہی لاہور ریلوے اسٹیشن پر، جہاں وہ سائمن کمیشن کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے، سر پر چوٹ لگنے کے سبب ہلاک ہوگئے۔

سائمن کمیشن کے خلاف مظاہروں اور لالہ لجپت رائے کی موت کے بعد کانگریس نے ایک کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا جس نے ہندوستان کے لیے آئینی اصلاحات تجویز کرنی تھیں۔ 1928 میں کانگریس کے صدر موتی لال نہرو نے نہرو رپورٹ تحریر کی، جو ہندوستان کی مکمل آزادی یا ‘پورنا سوراج’ کے لیے کانگریس کے مطالبے کی جانب ایک قدم تھا۔ رپورٹ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ہندوستان کو برطانوی سلطنت کا حصہ رکھتے ہوئے اس کے لوگوں کو اپنے ملک پر حکومت کا حق دیا جائے۔

نہرو رپورٹ گاندھی جی کی عدم تعاون تحریک کے باعث ممکن ہو پائی تھی، جو انہوں نے 1920 میں ساؤتھ افریقا سے واپسی پر شروع کی تھی۔ اس تحریک کے سلسلے میں لالہ لجپت رائے نے لاہور میں ان نوجوانوں کے لیے نیشنل کالج کی بنیاد رکھی جو برطانوی کالونیل اداروں کا بائیکاٹ کر رہے تھے۔

سوراج کا راستہ

پولیس سپرنٹنڈنٹ کا وہ دفتر جہاں تحریکِ آزادی کے رکن بھگت سنگھ اور ان کے دوستوں نے اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس جان سانڈرز کو لالہ لجپت رائے کی موت کا بدلہ لینے کے لیے قتل کیا تھا، وہاں سے کچھ گلیوں کے فاصلے پر بریڈلا ہال ہے۔

سرخ اینٹوں کی یہ عمارت کالونیل اور مقامی طرزِ تعمیر کا ایک خوبصورت امتزاج ہے، مگر اب یہ مرمت کی شدت سے منتظر ہے۔ یہ وہی عمارت ہے جو کبھی لالہ لجپت رائے کا قائم کردہ نیشنل کالج ہوا کرتی تھی۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں بھگت سنگھ اور ان کے دوستوں کی قوم پرستی سے پہلی بار آشنائی ہوئی۔ لاہور میں بھگت سنگھ کے ٹرائل کے دوران ان کے والدین اس ہال کے باہر ہی ملاقاتیوں اور ہمدردوں سے ملا کرتے تھے۔

بھلے ہی بھگت سنگھ کانگریس کی غیر متحرک قوم پرستی سے نالاں ہو کر اپنے راستے جدا کر چکے تھے، مگر انقلاب کے لیے ان کی جدوجہد نے کانگریس کے نوجوانوں کو خوب گرمایا، جو خود بھی ایسے ہی خیالات رکھتے تھے۔

جواہر لال نہرو کو دسمبر 1929 میں کانگریس کے سالانہ جلسے کے دوران ان کے والد موتی لال نہرو کی جگہ کانگریس کی صدارت کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ سفید گھوڑے پر لاہور کی گلیوں میں گھومتے ہوئے چند دن قبل 40 سال کے ہونے والے جواہر لال نہرو کانگریس کے تاریخی جلسے میں خطاب کرنے آئے، اور ‘پورنا سوراج’، یا مکمل آزادی کا مطالبہ کرتے ہوئے اپنے والد کے پیش کردہ تجویز، یعنی ہندوستان کے برطانوی فرماں روائی میں رہتے ہوئے آزاد آئین و حکومت، کو مسترد کر دیا۔

آل انڈیا ہوم رول لیگ اور آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی برطانوی فرماں روائی کی حمایت کی تھی مگر بال گنگادھر تلک، اوروبندو، اور بپن چندرا پال نے برطانوی حکمرانی سے مکمل طور پر آزادی کا مطالبہ کیا۔ جواہر لال نہرو اور سبھاش چندرا بوس نے بھی مذکورہ رہنماؤں سے اتفاق کیا۔ 1929 میں لاہور میں یہی جلسہ تھا جب کانگریس نے مکمل آزادی کی حمایت، اور برطانوی فرماں روائی کے خلاف ووٹ دیتے ہوئے قرارداد منظور کی۔

جس میں جنوری 1930 کے آخری اتوار – جو 26 جنوری کا دن تھا — کو ‘مکمل آزادی کا دن’ قرار دیا گیا تھا۔ 31 دسمبر 1929 کو دریائے راوی کے مشرقی کنارے پر بادشاہی مسجد، گردوارہ ڈیرا صاحب اور قلعہءِ لاہور کے سائے تلے جواہر لال نہرو نے “سوراج” کا پرچم بلند کیا، جسے بعد میں ہندوستان کے قومی پرچم کے طور پر اپنایا گیا۔

تقسیمِ ہند اور آزادی کے بعد جواہر لال نہرو نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ہندوستان کا نیا آئین 26 جنوری 1950 کو ہی نافذ العمل ہو، تاکہ وہ تاریخ صرف ایک تاریخ نہیں بلکہ تاریخ کا حصہ بن جائے۔

کانگریس کی جلسہ گاہ سے تھوڑا ہی دور راوی کے دوسرے کنارے پر اقبال پارک ہے، جسے اس سے قبل مِنٹو پارک کہا جاتا تھا۔ اس تاریخی پارک کے عین بیچ میں مینارِ پاکستان موجود ہے۔ یہ صوبائی خودمختاری کا مطالبہ کرتی قراردادِ لاہور کی یاد میں تعمیر کیا گیا تھا، جسے مسلم لیگ نے 23 مارچ 1940 کو منظور کیا تھا۔

پاکستان کی تشکیل کے بعد اس قرارداد کو بتدریج مطالبہءِ پاکستان قرار دیا جانے لگا، اور بعد میں اس کا نام قراردادِ لاہور سے بدل کر قراردادِ پاکستان کر دیا گیا۔ قوم ہر سال 23 مارچ کو یومِ پاکستان مناتی ہے۔

ہر روز ہزاروں افراد مینارِ پاکستان آتے ہیں اور بانیانِ پاکستان کے لیے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ جدید سیاسی بیانیے میں سیاستدان 23 مارچ کے واقعات کو پاکستان کی تاریخ میں فیصلہ کن اہمیت کا حامل قرار دیتے ہیں۔

شاید جانتے بوجھتے ہوئے یا لاعلمی کی وجہ سے سائمن کمیشن کے خلاف لالہ لجپت رائے کا احتجاج، نہرو کا اعلانِ آزادی اور بھگت سنگھ کی قربانیوں کو اس شہر میں بھلا دیا گیا ہے جہاں کبھی انہیں گرمجوشی سے ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔


ہارون خالد لمز سے اینتھروپولوجی میں فارغ التحصیل ہیں۔ وہ پاکستان بھر میں سفر کرتے ہیں اور تاریخی اور ثقافتی ورثے کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ وہ دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *