سابق وزیر اعظم نواز شریف کے اُستاد

  • November 19, 2017 2:14 pm PST
taleemizavia single page

مجیب الرحمن شامی

پروفیسر مشکور حسین یاد اگرچہ 93 برس کے ہو چکے تھے، لیکن ان میں زندہ رہنے کی امنگ ختم نہیں ہوئی تھی۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ گھر سے نکلتے، احباب سے ملتے اور ان میں مسکراہٹیں تقسیم کرتے چلے جاتے۔ اُن کی ایک عمر گورنمنٹ کالج لاہور میں اُردو پڑھاتے گزری تھی، سینکڑوں کیا ہزاروں شاگرد اُن کے ”اکائونٹ‘‘ میں جمع تھے۔

سچ پوچھئے تو ایک ہی لاکھوں پر بھاری ہیں، اور وہ ہیں میاں نواز شریف۔ وہ پہلی بار وزیر اعظم بنے، تو مشکور صاحب کی مسرت دیدنی تھی۔ پائوں زمین پر نہیں ٹکتے تھے۔ شاگرد نے بھی اُن کو یاد رکھا۔ جوں جوں سیاست آگے بڑھتی گئی، رشتہ نگاہوں سے اُوجھل ہوتا گیا… لیکن وہ اپنے شاگرد سے غافل نہیں تھے۔ جب بھی ملتے اچھے الفاظ میں یاد کرتے، اور دُعائیں ان کے دِل سے لبوں پر آ جاتیں… اب کہ مشکور صاحب نے دُنیا چھوڑی، تو نہ جاتی امرا سے کوئی بیان جاری ہوا، اور نہ ہی وہاں سے (تادمِ تحریر) کوئی تعزیت کے لیے اُن کے گھر پہنچا۔ یہ درست ہے کہ قیامت کی گھڑی ہے، لیکن میاں صاحب کے اعصاب اور حواس ماشاء اللہ قابو میں ہیں۔ اس لیے شکوہ کیا جا سکتا ہے۔ خدا معلوم ان کے سٹاف نے ان تک یہ خبر پہنچائی بھی یا نہیں کہ اس کے نزدیک… اک سانحہ سہی مگر اتنا اہم نہیں۔

برسوں پہلے مَیں نے لاہور آ کر ہفت روزہ ”زندگی‘‘ میں الطاف حسن قریشی صاحب کے ساتھ مدیر معاون کے طور پر اپنے صحافتی سفر کا ایک نیا آغاز کیا تو مشکور صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ قریشی برادران کے ذاتی دوست تھے، الطاف صاحب کے بڑے بھائی حافظ فروغ حسن کے کلاس فیلو۔ ان سب کا تعلق مشرقی پنجاب کے قصبے سرسہ سے تھا۔ ان میں کمال کی بے تکلفی تھی۔ مشکور صاحب شعبۂ ادارت کا حصہ ہی سمجھے جاتے، اور زبان و بیان کے بارے میں رہنمائی کرنے سے نہ چوکتے۔ وہ بَلا کے نثر نگار تھے۔

انشائیہ ان کا مخصوص فن تھا، نظم پر بھی قدرت رکھتے تھے۔ ارتجالاً شعر کہتے، عجیب عجیب قافیوں کا انتخاب کرتے، اور انہیں نباہ گزرتے۔ کہتے ہیں مولانا ظفر علی خان حقہ پیتے اور شعر کہتے چلے جاتے تھے۔ مشکور صاحب حقہ پیتے تھے نہ سگریٹ‘ لیکن پانی پی پی کر مشقِ سخن کر سکتے تھے۔ ان کی کئی دلچسپ نظمیں ”زندگی‘‘ کے صفحات پر محفوظ ہیں۔ غزل بھی خوب کہتے تھے۔ الطاف حسن قریشی صاحب نے ان کا وہ شعر یاد دِلا دیا، جسے ہم ایک زمانے میں روزانہ سنا، یا سنایا کرتے تھے ؎

وہ میرے پاس بیٹھا مجھے دیکھتا رہا
اس بار اُس سے پھر میری تصویر کھو گئی

مشکور صاحب نے روزنامے کے لیے قطعہ بھی لکھنا شروع کیا، اور بہت دِن تک ٹیلی فون پر مسلسل لکھواتے رہے۔ ان میں ایک خاص طرح کی سیمابیت تھی۔ موڈ بدلتا تو رنگ ڈھنگ بھی بدل جاتا۔ حکومت نے تمغۂ حسنِ کارکردگی بھی ان کی خدمت میں پیش کیا، لیکن وہ بے نیاز تھے… دستِ طلب دراز کیا، نہ ہی کسی ستارے پہ کمند ڈالنے کے لیے کسی کی معاونت کے طالب ہوئے۔ جو کچھ حاصل کیا، اپنی محنت اور ہمت ہی سے حاصل کیا اور ظاہر ہے یہ توفیقِ خداوندی کے بغیر ممکن نہیں۔ ان کا اصل کارنامہ ان کے وہ مضامین ہیں‘ جو پہلے ”اُردو ڈائجسٹ‘‘ میں سلسلہ وار اور پھر کتابی صورت میں ”آزادی کے چراغ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔

پاکستان بنا تو وہ مشرقی پنجاب میں تھے۔ اُن کے خاندان نے ہجرت کے سفر کا آغاز کیا، تو سب کے سب کو خون کا نذرانہ پیش کرنا پڑا۔ والدہ، بھائی، بیوی، بیٹی اور دوسرے عزیز و اقارب کے لاشے انہوں نے اپنے سامنے تڑپتے دیکھے۔ حملہ آور تو ان کو بھی مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے تھے، لیکن وہ زخموں سے جانبر ہو گئے، تاکہ ہمیں آپ بیتی سُنا سکیں… وہ خود آزادی کا ایک ایسا چراغ بن گئے تھے، جس نے اپنے ہی لہو سے جلا پائی تھی… ان کی یہ کتاب ایک گھرانے کی نہیں، ایک عہد اور ایک ملک کی کہانی ہے، جو ہمیں رلاتی، جھنجھوڑتی، جگاتی اور یاد کراتی ہے کہ پاکستان کیسے حاصل کیا گیا تھا۔ اس کتاب کو نصاب میں شامل ہونا چاہیے، اور ہر ہر پاکستانی کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے۔ اس کے اوّلین صفحات سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

”میرے ساتھ ہر سال اگست کے مہینے میں صرف یہی نہیں ہوتا کہ 47ء کے دردناک واقعات کی یاد تازہ ہو جاتی ہے، بلکہ یہ مہینہ امتحان کا مہینہ بن کر گزرتا ہے۔ اس مہینے میں نام نہاد امن پسند ہندو دھرم کے ظلم و ستم کا شکار ہونے والا میرا ایک ایک عزیز میرے روبرو ہو کر مجھ سے سوال کرتا ہے۔ کبھی میرا کڑیل جوان بھائی میرے سامنے ٹکڑے ٹکڑے پڑا پوچھ رہا ہوتا ہے: ”کیوں بھائی جان، آپ نے ظلم و ستم کے خلاف کیا آواز اٹھائی؟ اپنے عزیز وطن پاکستان کے لئے کیا کچھ کیا؟ اے بھائی جان، ہم تو پاک سرزمین تک پہنچ نہ سکے۔ ہمیں اُس کی مٹی آنکھوں سے لگانے کی سعادت نصیب نہ ہوئی، لیکن آپ کو وہاں پہنچے ایک عرصہ گزر چکا ہے۔

ذرا بتائیے تو سہی آپ نے اُس کی عزت و حُرمت اور شان و شوکت کو فروغ دینے کے لیے کیا کیا فرائض سرانجام دیے؟‘‘ ابھی میرے کانوں میں بھائی کی یہ آواز گونج رہی ہوتی ہے کہ اتنے میں میری والدہ اپنے زخمی کلیجے کو سنبھالے ہوئے میرے سامنے آ جاتی ہیں اور پوچھنے لگتی ہیں: ”کیوں بیٹا، تم نے مجھ کوکھ جلی کا نام روشن کرنے کے لیے کون کون سے کام کئے ہیں؟ دیکھنا بیٹا، بے عمل زندگی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ ایسا نہ ہو قیامت کے دن میں خدا اور رسولؐؐ کو اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں۔ اگر تمہارا چھوٹا بھائی زندہ رہتا، تب کوئی بات نہ تھی۔ اب تو ساری ذمہ داری تمہی پر عائد ہوتی ہے۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں اپنی نیک آرزوئوں اور خوابوں کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لئے پاک سرزمین عطا فرمائی ہے۔ اگر تم اس کے باشندے بن کر بھی کوئی کام نہیں کر سکتے، تو بیٹا، معاف کرنا بڑے افسوس اور حیرت کا مقام ہے۔ ہم لوگ تو غلامی کی زندگی بسر کرتے تھے، لیکن پھر بھی اللہ کا نام لینے سے باز نہ آتے تھے۔ تمہیں ایک اچھا انسان بننے اور غیور قوم کا ایک فرد ہونے میں کون سی مشکل پیش آ سکتی ہے؟‘‘

ابھی مَیں اپنی ماں کی آوازیں سُن رہا ہوتا ہوں کہ میرے سامنے میری معصوم بچی اپنا زخمی حلق لیے آ جاتی ہے۔ ڈیڑھ پونے دو سال کی بچی… مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس بے زبان کو بھی زبان مل گئی ہے اور وہ مجھ سے سوال کر رہی ہے: ”کیوں بابا جان، آپ نے میرے معصوم خون کی قربانی سے کیا سبق حاصل کیا؟ یقینا میرا خون رائیگاں نہ گیا ہو گا؟ لیکن بابا جان، میرے اس سیدھے سادے سوال پر آپ کی نظریں جھک کیوں گئی ہیں؟ آپ اپنی ننھی منی شہید بیٹی کی طرف سر اُٹھا کر کیوں نہیں دیکھتے؟ اچھے ابو، مَیں تو اُس وقت بھی مسکرا رہی تھی جب ایک ظالم نے میرے ننھے حلقوم پر وار کیا تھا۔

میرے معصوم لبوں پر تو اس وقت بھی مسکراہٹ کھیل رہی تھی، جب آپ اگلی صبح گھبراہٹ میں میری ننھی سی لاش کو روندتے ہوئے گزر گئے تھے۔ میرے پیارے ابا جان، میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مَیں نے تو نہایت بہادری سے جان دی تھی، پھر آپ کی نظریں کیوں جھکی ہوئی ہیں؟‘‘ غرض اسی طرح باری باری میری آنکھوں کے سامنے میرا ہر ایک مرحوم عزیز آتا ہے اور مجھ سے اپنی نوعیت کا سوال کرتا ہے‘‘۔

اب اے معزز قارئین، ذرا اپنے اپنے دِل پر ہاتھ رکھیے، اور دیکھئے کہ شہیدانِ وطن یہ سوال ہم سب سے، ہم میں سے ایک ایک سے نہیں کر رہے؟ جواب، اور حساب، ہم سب کے ذمے نہیں ہے؟… ان کے ذمے بھی جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو رہے ہیں، ان کے ذمے بھی جو اِس مُلک کو اپنی جاگیر سمجھ رہے ہیں، اور ان کے ذمے بھی جو ترازو سنبھال کر بیٹھے ہوئے ہیں؟؟


بشکریہ روزنامہ پاکستان

  1. اللہ مرحوم کے درجات بلند کرے اور ان کے شاگردوں کے دل میں اساتذہ کا وقار بڑھانے اور ان کے حقوق دینے کی ہمت پیدا کرے. آمین

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *