لارڈ میکالے کا اصل تعلیمی مقالہ آخری قسط

  • April 9, 2017 11:11 am PST
taleemizavia single page

اکمل سومرو

عربی اور سنسکرت کی اہمیت کے سلسلے میں ایک اور دلیل بھی دی جاتی ہے جو اس سے بھی کمزور اور غیر مستحکم ہے بیان کیا جاتا ہے کہ عربی اور سنسکرت وہ زبانیں ہیں جن میں کروڑوں انسانوں کی مقدس کتابیں محفوظ ہیں اور اس لیے یہ زبانیں خصوصی حوصلہ افزائی کی مستحق ہیں۔

یقینا یہ حکومت برطانیہ کا فرض ہے کہ وہ ہندستان کے تمام مذہبی مسائل میں روا دار اور غیر جانبدار رہے۔ لیکن ایک ایسے ادب کی تحصیل کی حوصلہ افزائی کرتے چلے جانا جو مسلمہ طور پر معمولی قدر وقیمت کا حامل ہے۔ اور محض اس لیے کہ وہ ادب اہم ترین موضوعات پر غلط ترین معلومات ذہن نشین کراتا ہے۔

ایک ایسا رویہ ہے جس کی موافقت نہ تو عقل کرتی ہے اور اخلاق اور نہ وہ غیر جانبداری جسے احترام و اکرام کے ساتھ برقرار رکھنے پر ہم سب متفق ہیں۔ ایک ایسی زبان جس کے بارے میں سب متفق ہیں کہ وہ علوم سے تہی دامن ہے۔ کیا ہم اسے اس لیے پڑھائیں کہ وہ بھیانک ادہام کو جنم دیتی ہے۔ کیا ہمیں غیر مستند تاریخ ، غلط علم فلکیات اور غیر صحیح طبابت کی اس لیے تعلیم دینا ہے کہ وہ ایک غلط مذہب کے موید ہیں۔

جو لوگ ہندستانیوں کو حلقہ بگوش مسیحیت کرنے کے کام میں مصروف ہیں ہم ان کی سرکاری طور پر ہمت افزائی سے اجتناب کرتے رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ اس سے آئندہ بھی مجتنب رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں؛ لارڈ میکالے کا اصل تعلیمی مقالہ حصہ اول

جب عیسائیت کے بارے میں ہمارا یہ رویہ ہے تو کیا مناسب اور درست ہوگا کہ ہم سرکاری خزانے سے رشوت دیکر لوگوں کو اس امر پر مستعد کریں کہ وہ اپنی جوان نسل کی زندگیاں یہ جاننے میں برباد کر دیں کہ گدھے کو چھونے کے بعد وہ اپنے آپکو کسطرح پاک کرسکتے ہیں یا وید کے کن اشلوکوں کے پڑھنے سے ایک بکرا مار دینے کے گناہ کا کفارہ ادا ہوجاتا ہے۔

مشرقی علوم کے وکلاءاس بات کو ایک مسلمہ حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں کہ اس ملک کا کوئی باشندہ انگریزی زبان کی ابتدائی شُد بُد سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ وہ اس مفروضے کو ثابت تو نہیں کرسکے ہیں لیکن انہیں اسکی صحت پر غیر معمولی اصرار ہے۔ یہ حضرات از راہ حقارت انگریزی تعلیم کو محض حروف تہجی کی تعلیم سے موسوم کرتے ہیں۔

وہ اس امر کو ناقابل تردید سمجھتے ہیں کہ اصل مسئلہ اعلیٰ درجے کے ہندو اور عربی ادب اور انگریزی سطحی اور ابتدائی معلومات میں رد و قبول کا ہے۔ لیکن یہ محض ایک مفروضہ ہی ہے جس کی تائید نہ عقل کرتی ہے اور نہ ہی تجربہ۔ ہم اس امر سے باخبر ہیں کہ تمام قوموں کے لوگ انگریزی زبان میں اتنا درک ضرور حاصل کر لیتے ہیں جس اُنہیں اس زبان کے ان پیچیدہ اور دقیق مسائل تک رسائی ہوسکے۔

یہ بھی پڑھیں؛ لارڈ میکالے کا اصل تعلیمی مقالہ؛ دوسرا حصہ

جن سے ان کا دامن مالا مال ہے اور اسطرح سے وہ ان لسانی اور ادبی لطافتوں سے بہر ہ اندوز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں جو ہمارے چوٹی کے انشاءپردازوں کی تحریروں میں جابجا بکھری پڑی ہیں۔ اسی شہر میں ایسے ہندستانی دستیاب ہیں جو پوری سلامت بیانی اور جامعیت کے ساتھ سیاسی اور سائنسی مسائل پر اپنے خیالات کا اظہار کرسکتے ہیں۔

میں نے اس مسئلے پر جسے میں قلمبند کر رہا ہوں ملکی شرکاءکو وسعت ذہنی اور کمال فراست سے گفتگو کرتے سنا ہے اور یہ بات مجلس تعلیمات عامہ کے ارکان کے لیے باعث فخر و مباہات ہوسکتی ہے مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ براعظم یورپ کے ادبی حلقوں میں بھی وکئی غیر ملکی شاید ہی مسیر آسکے جو انگریزی زبان میں اپنے خیالات کا اظہار اتنی سہولت اور صحت سے کرسکے جس قدر ہمارے ہاں بعض ہندو ادا کرسکنے پر قادر ہیں۔

میرا خیال ہے کہ کوئی بھی شخص اس امر سے اختلاف نہیں کرے گاکہ انگریزی زبان ایک ہندو کے لیے اتنی ہی مشکل ہے جس قدر کہ یونانی زبان ایک انگریز کے لیے ہوسکتی ہے۔ بایں ہمہ ایک ذہین انگریز نوجوان ہمارے اس بدقسمت سنسکرت کالج کے طلباءکے مقابلے میں بہت کم مدت میں اس قابل ہوسکتا ہے کہ وہ بہترین یونانی مصنفین کے ثمرات فکر سے آگاہی حاصل کرسکے۔ ان سے لطف اندوز ہوسکے اور ایک حد تک ان کے انداز تحریر کی پیروی کر سکے۔

جتنی مدت میں ایک انگریز نوجوان ہیروڈوٹس اور سوفوکلینر کا مطالعہ کرتا ہے اس سے نصف عرصے میں ایک ہندو نوجوان ہیوم، ملٹن کا مطالعہ کرسکتا ہے۔ جو کچھ میں اب تک کہا ہے اس کا ملخص یہ ہے کہ؛

میرا خیال ہے کہ یہ ایک واضع بات ہے کہ ہم پارلیمنٹ ایکٹ 1813ءکے پاپند نہیں ہیں نہ ہی کسی ایسے معائدے کے جو ہم نے اس خصوص میں صراحتا کیا ہو یا کنایتہ، اور یہ کہ ہم زیر بحث رقوم کو اپنی صوابدید کے مطابق استعمال کرنے میں آزاد ہیں اور یہ کہ ہمیں اس فنڈ کو اس علم کے حصول میں صرف کرنا چاہیے جو بہترین طور پر شایان شان مطالعہ ہو۔

جانیئے؛ انگریزوں نے ہندوستان کو کیسے ذہنی غلام بنایا؟

اور یہ کہ انگریزی زبان، عربی اور سنسکرت کے مقابلے میں مطالعہ کے لیے موزوں تر ہے اور یہ کہ خود ہندستانی لوگ انگریزی زبان سیکھنے کے خواہشمند ہیں اور انہیں عربی یا سنسکرت سیکھنے کی کوئی دلچسپی نہیں اور یہ کہ نہ تو قانونی زبان کی حیثیت سے اور نہ ہی مذہبی زبان کے لحاظ سے سنسکرت یا عربی زبان کوہماری خصوصی ہمت افزائی کا کوئی استحقاق ہے۔

اور پھر یہ کہ عین ممکن ہے کہ اس ملک کے باشندوں کو اچھے انگریزی سکالرز نہیں بنایا جاسکے اور اس مقصد کے
حصول کے لیے ہمیں اپنی پوری مساعی بروئے کار لانی چاہیں۔البتہ ایک نقطے پر میرا اُن حضرات سے پورا پورا اتفاق ہے جن سے میں نے اس مسئلے میں مخالفت کی ہے۔ اس احساس میں میں ان کے ساتھ برابر کا شریک ہوں کہ ہمارے لیے فی الحال اپنے محدود وسائل کے سبب سب لوگوں کی تعلیم کے لیے کوشش کرنا ممکن نہیں ہے۔

فی الوقت ہماری بہترین کوششیں ایک ایسا طبقہ معرض وجود میں لانے کے لیے وقف ہونی چاہئیں جو ہم میں اور ان کروڑوں انسانوں کے مابین جن پر ہم حکومت کر رہے ہیں ترجمانی کا فریضہ سرانجام دے۔

یہ طبقہ ایسے افراد پر مشتمل ہو جو رنگ و نسل کے لحاظ سے تو ہندستانی ہو لیکن ذوق، ذہن، اخلاق اور فہم و فراست کے اعتبار سے انگریز ہو۔

اور پھر اس طبقے کے کاندھوں پر یہ ذمہ داری ڈالی جائے کہ وہ ملکی دیسی زبانوں کی اصلاح کرے مغربی ممالک میں مروجہ سائنسی اصطلاحات میں اضافہ کرے اور پھر بتدریج انہیں ا س قابل بنا دے کہ وہ ملک کی عظیم آبادی پر علوم و فنون کے خزانوں کے دروازے کھول دیں۔

پڑھیں؛ سر سید کا تعلیمی فلسفہ اور برطانوی سامراج

میں موجودہ میسر مفادات کا احترام کروں گا میں ان تمام افراد کے ساتھ فیاضانہ برتاؤ کروں گا جو جائز طور پر مالی اعانت کے مستحق ہیں۔ لیکن میں ان نظام ناکارہ کو جڑ سے اُکھاڑ دینا چاہوں گا جسے ہم نے ابھی تک سینے سے چمٹا رکھا ہے میں فی الفور عربی اور سنسکرت کی کتابوں کی طباعت روک دوں گا۔

میں کلکتہ کے مدرسے اور سنسکرت کالج کو ختم کردوں گا۔ بنارس برہمنی تعلیم کا بڑا مرکز ہے اور دہلی عربی تعلیم کا اگر ہم ان دونوں کو جاری رکھیں تو السنہءشرقیہ کے فروغ کے لیے کافی ہے بلکہ خیال میں کافی سے زیادہ ہے۔

اگر بنارس اور دہلی کے کالجوں کو برقرار رکھنا ہوتو میری کم سے کم یہ سفارش ہوگی کہ ان میں داخلہ لینے والے کسی بھی طالبعلم کو وظیفہ نہ دیا جائے بلکہ لوگوں کو دو حریف نظام ہائے تعلیم میں سے کسی ایک کے انتخاب کی پوری آزادی ہو۔

ہم کسی طالبعلم کو بھی رشوت دیکر اس علم کی تحصیل پر آمادہ نہ کریں جس کے حاصل کرنے کا وہ خود خواہشمند نہ ہو۔ اس طریق کار سے جو رقم ہمیں دستیاب ہوگی اس کی مدد سے ہم اس حیثیت میں ہوں گے کہ ہندو کالج کلکتہ کی وسیع تر اعانت کرسکیں اور فورٹ ولیم اور آگرہ کی پریذیڈنسیوں کے بڑے بڑے شہروں میں ایسے مدارس قائم کرسکیں، جہاں انگریزی زبان کی تدریس کا اچھا اور مکمل انتظام ہو۔

پڑھیں؛ پاکستان کا تعلیمی ڈھانچہ نوآبادیات کا تسلسل

اگر ہز لارڈ شپ ان کونسل کا فیصلہ وہی ہو جس کی میں پیش بینی کر رہا ہوں تو میں اپنے فرائض کی ادائیگی میں کمال انہماک اور بڑی مستعدی سے سرگرم ہوجاؤں گا۔

برخلاف ازاں اگر حکومت کی رائے موجودہ نظام کو بلا رد و بدل جوں کا توں رکھنے کے حق میں ہو تو میں درخواست کروں گا کہ مجھے کمیٹی کی صدارت سے سبکدوش ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی جائے۔ میرا مخلصانہ احساس ہے کہ اس صورت میں کمیٹی میں میری کوئی افادیت نہیں ہوگی۔

میرا یہ احساس بھی ہے کہ اس صورت میں اس نظام کی حمایت کر رہاہوں گا جس کے بارے میں میرا یقین محکم ہے کہ وہ محض ایک فریب نظر ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ موجودہ نظام کے جاری رہنے سے حق و صداقت کی رفتار ترقی میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ عالم جان کنی میں سلگتی ہوئی خرابیوں کی طبعی موت میں کچھ اور تاخیر ہو رہی ہے۔

میرا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال میں ہم کمیٹی کے اراکین کا کوئی حق نہیں رکھتے کہ ہمیں بورڈ آف پبلک انسٹرکشن کے نام سے موسوم کیا جائے۔ ہم ایک ایسا بورد ہیں جو قومی سرمائے کے ضیاع کا ذمہ دار ہے جو ایسی کتابیں چھاپ رہا ہے جن کے کاغذ کی قیمت چھپنے کے بعد اتنی بھی نہیں رہتی جتنی ان کے چھیننے سے پہلے تھی۔

ہم ایک ایسا بورڈ ہیں جو لغو تاریخ، بعید ازقیاس مابعد الطبیعات، خلاف عقل طبیعات اور بے سروپا دینیات کی منافقانہ ہمت افزائی کر رہا ہے اور اہل علم کا ایسا طبقہ تیار کر رہا ہے جو اپنی فضیلت علمی کو اپنے لیے باعث ابتلا اور موجب عار سمجھتا ہے جو دوران تعلیم عوامی امداد پر گزر بسر کرتا ہے اور اس کی تعلیم اس درجہ بیکار ہے کہ جب وہ اسکی تکمیل کر لیتا ہے تو یا تو فاتہ کشی اس کا مقد ہے یا عمر بھر کے لیے عوام کی ٹکڑ گدائی اس کی تقدیر ہے۔

ان خیالات و احساسات کے پیش نظر یہ قدرتی امر ہے کہ میں اس کمیٹی کے ذمہ داریوں میں شریک ہونے کے لیے اس وقت تک مستعد نہیں ہوں جب تک کہ یہ ادارہ اپنا مجموعی اسلوب کار تبدیل نہیں کر لیتا۔ اس وقت تک میرے نزدیک یہ ایک ازکار رفتہ ادارہ ہے بلکہ ایجابی طور پر مضرت بخش اور ضرر رساں بھی۔

نوٹ: دو فروری 1835ءکو لکھے گئے اس مقالہ کو لارڈ بینٹنک کو پیش کیا گیا جس پر 7مارچ کو دستخط کر دیے گئے اور اس کے بعد ان سفارشات کی روشنی میں ہی ہندستان کا نظام تعلیم تشکیل دیا گیا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *