حفیظ جالندھری تو قومی مجرم ہیں؟

  • December 21, 2016 10:07 pm PST
taleemizavia single page

اکمل سومرو

ادب میں حفیظ جالندھری کا جو مقام و مرتبہ ہے پھر قومی شاعری اور بالخصوص قومی ترانہ کے خالق کے طور پر ان کو جو فوقیت حاصل ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم نے اس طرح سے حفیظ جالندھری کا کبھی حق ادا نہیں کیا۔

حفیظ جالندھری کو اپنے ہم عصروں پر صرف یہ برتری ہی حاصل نہیں کہ جب سات سو کے قریب شاعر پاکستان کے شایان شان کوئی قومی ترانہ تخلیق کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو اس وقت حفیظ جالندھری کا تخلیق کیا ہُوا ترانہ پاکستان کی قومی ترانہ کمیٹی نے منتخب کیا بلکہ حفیظ جالندھری گیت‘ نظم اور غزل میں بھی کمال کے شاعر تسلیم کئے گئے۔

ابوالاثر حفیظ جالندھری چودہ جنوری اُنیس سو میں مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے ۔ ان کا نام محمد حفیظ رکھا گیا۔ قلمی نام حفیظ جالندھری تھا اور ابوالاثر حفیظ جالندھری کا نام مولانا غلام قادرگرامی نے دیا،وہ ایک ایسے مسلم راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جن کے جد اعلیٰ پرتھوی راج کی نسل سے تھے لیکن جنہوں نے مغل دور حکومت میں اسلام قبول کرلیا تھا۔

انھوں نے طبیعت قلندرانہ پائی تھی، ابتدائی تعلیم محلے کی جامع مسجد میں حاصل کی۔ اس کے بعد اسکول میں داخل ہوگئے جہاں انھوں نے ساتویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد رسمی تعلیم کے حوالے سے وہ آگے نہ بڑھ سکے۔

ساتویں جماعت کا امتحان دینے کے بعد دہلی، میرٹھ اور بمبئی وغیرہ گھومتے گھامتے انھوں نے نہ صرف سیلانی زندگی کو ترجیح دی بلکہ زندگی کے تجربات، مشاہدات اور ذاتی مطالعے سے اپنے ذوق جلانی کو مہمیز کیا۔ اردو، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبور حاصل کیا۔

ان کی شخصیت میں نکھار لانے میں ان کے ہم عصر مشاہیر سر عبدالقادر، سید سجاد حیدر یلدرم، سرراس مسعود، خواجہ حسن نظامی، مولانا محمد علی جوہر، حکیم اجمل خان اور نواب لوہار جیسی شخصیتوں کی قربت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔

علامہ نیاز فتح پوری جیسے نقاد کے الفاظ یہ ہیں کہ ”سرزمین پنجاب نے دو غیر فانی شاعر پیدا کئے ہیں ایک اقبال دوسرا حفیظ۔“ حفیظ جالندھری کو پطرس بخاری نے جالندھری کے نغمہ پرور شہر کا شاعر نہیں بلکہ ساحر قرار دیا تھا۔

اور گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے والد گرامی ایم ڈی تاثیر نے حفیظ جالندھری کی شاعری کی جادوگری کا ان الفاظ میں اعتراف کیا تھا کہ حفیظ کی شاعری علوِ تخیل اور لطافتِ الفاظ کا حسین امتزاج ہے۔ بانی ”نوائے وقت“ حمید نظامی نے حفیظ جالندھری کو درج ذیل الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا؛

میرے نزدیک حفیظ کی سب سے قابل قدر متاع ان کا دردمند اور حساس دل ہے جو اپنی قوم‘ اپنے ملک‘ اپنے عزیزوں اور اپنے دوستوں کی محبت سے معمور ہے۔

لیکن یہ امر انتہائی افسوس ناک بلکہ باعث ندامت ہے کہ ہم نے ابوالاثر حفیظ جالندھری جیسے نابغہ روزگار اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر نظرانداز کررکھا ہے۔ حالانکہ دنیائے ادب میں ان کا ایک بڑا کارنامہ ’’شاہنامہ اسلام‘‘ ہے جس میں انھوں نے تاریخ اسلام کو پرشکوہ الفاظ کا جامہ پہنایا ہے۔

بلامبالغہ اردو شاعری کی کوئی کتاب اتنی زیادہ تعداد میں فروخت نہیں ہوئی جتنی زیادہ تعداد میں حفیظ جالندھری کی زندہ جاوید تصنیف ’’شاہنامہ اسلام‘‘ فروخت ہوئی ہے۔

حفیظ جالندھری نے جہاں ادبِ عالیہ کی تشکیل و تکمیل میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا وہاں قیام پاکستان کی جدوجہد میں بھی اہل قلم میں ان کا کردار سب سے نمایاں تھا لیکن تحریک پاکستان میں ان کی فکری اور عملی جدوجہد کے باوجود ہمارے سرکاری ادبی اداروں نے کبھی کھل کر ان کی خدمات کا اعتراف نہیں کیا۔

جو ادبی ادارے حکومت پاکستان کے خزانے سے کروڑوں روپے کی گرانٹس حاصل کرتے ہیں اور جن ادبی اداروں کے سربراہوں کو گھر بیٹھے ایک ایک لاکھ روپے ماہانہ وظیفہ دیا جاتا ہے۔

ان کا فرض بنتا تھا کہ نئی نسل کو حفیظ جالندھری کی حیات اور ادبی و قومی خدمات سے روشناس کرواتے۔ جن ادبی رسائل نے حکومتی فنڈز سے خطیر رقم لے کر فیض احمد فیض اور احمد فراز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے اپنے خصوصی نمبر شائع کئے ہیں کیا ان کی یہ ذمہ داری بھی نہیں تھی کہ حفیظ جالندھری پر بھی خصوصی نمبر کا اہتمام کیا جاتا؟

حفیظ جالندھری کو اگرچہ حکومت کی طرف سے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ہلالِ امتیاز دیا گیا تھا لیکن سچی بات یہ ہے کہ حفیظ جالندھری کا ادبی قد و قامت اس ایوارڈ سے کہیں بلند تھا۔

صحیح انصاف تو یہ تھا کہ ہم اپنا کوئی بڑا ادبی ایوارڈ حفیظ جالندھری کے نام سے منسوب کرتے اور یہ ایوارڈ صرف میرٹ پر اعلیٰ پایہ کی شاعری تخلیق کرنے والوں کو دیا جاتا کیونکہ میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر جو ایوارڈ دیے اور لئے جاتے ہیں وہ کبھی کسی کی عزت میں اضافہ نہیں کرتے۔ کسی بھی عظیم شاعر کا مضبوط ترین حوالہ اس کی اپنی شاعری ہوتی ہے۔

حفیظ جالندھری نے ادبی کاوشوں کی ابتداءاُنیس سو بائیس میں کی تھی، اُنیس سو اُنتیس تک کے عرصے میں وہ متعدد ادبی جرائد کے ایڈیٹر رہے، جن میں نونہال، گلزار داستان، تہذیب نسواں، مخزن شامل ہیں۔ ان کی زندگی کا ایک ورق کالم نگاری سے بھی وابستہ ہے۔

اُنیس سو پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ میں بھی انھوں نے کئی پرجوش نظمیں لکھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ان کی تخلیق اور ادبی سرگرمیاں عروج پر تھیں۔ ان کی نظموں کا پہلا مجموعہ ’’نغمہ زار‘‘ تھا جو اُنیس سو پینتیس میں شائع ہوا۔

حفیظ جالندھری کی کردار سازی میں جنگ آزادی کی تحریکوں کا بھی بڑا حصہ ہے جن سے متاثر ہوکر انھوں نے انقلابی نظمیں بھی لکھیں۔ انھیں بچپن سے ہی نعت خوانی کا شوق تھا اور اپنے لڑکپن میں ہی انھوں نے ترنم کے ساتھ مولانا الطاف حسین حالی اور دوسرے اہم شعراء کی نعتوں کو محفلوں میں سنا کر داد وصول کرنا شروع کردیا۔ اپنی ایک کتاب ’’نشرانے‘‘ میں وہ لکھتے ہیں۔

حفیظ جالندھری اُنتیس سو اڑتالیس میں مسلح افواج پاکستان کے ڈائریکٹر آف موریل متعین ہوئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد وہ سانگ پبلسٹی ڈیپارٹمنٹ سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اس دوران ان کی نظموں اور غزلوں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ صدر ایوب خان کے مشیر کی حیثیت سے بھی فرائض انجام دیتے رہے۔ اس زمانے میں وہ رائٹرز گلڈ کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔

اکیس دسمبر اُنیس سو بیاسی کو وہ بیاسی سال کی عمر میں اس فانی دُنیا سے رخصت ہوئے،انہیں امانتاً ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں دفن کیا گیا اور کسی اہم جگہ دفنانے کا فیصلہ سات سال تک التوا میں رہا پھر پنجاب حکومت نے اقبال پارک میں جگہ دے دی، جہاں اُنیس سو اٹھاسی میں ان کے مزار کی تعمیر کا کام شروع ہوا جس کی تکمیل اُنیس سو اکانوے میں ہوئی۔آج اُن کی برسی کا دن خاموشی سے گزر گیا نہ جانے کیا وزیر اعظم نواز شریف کو آج بوسنیا میں قومی ترانہ پڑھتے ہوئے حفیظ جالندھری کی برسی یاد آئی ہوگی؟

کیا حفیظ جالندھری قومی مجرم ہیں جنہیں ریاست نے فراموش کر دیا؟ یہ سوال ریاست کے جمہوری حکمرانوں کے سامنے رکھنا ہر ذی شعور پاکستانی کا حق ہے۔ ان کی قبر کے کتبہ پر لکھا ہے کہ؛

عرش کی رخصت لیے بیٹھا ہوں فرش خاک پر
سر مرا آسودہ ہے پائے رسولِ پاکؐ پر


akmal-dawn

اکمل سومرو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ تاریخ اور ادب پڑھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔وہ لاہور کے مقامی ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *