پشاور یونیورسٹی میں طلباء کا احتجاج، پس پشت مقاصد کیا ہیں؟
- October 4, 2018 11:49 pm PST
پشاور: یونیورسٹی طلبا کے فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج پر پولیس نے دھاوا بولتے ہوئے متعدد طلبا کو حراست میں لے لیا۔
پشاور یونیورسٹی میں طلبا نے فیسوں کے خلاف احتجاج شروع کیا تو انتظامیہ نے پولیس کو طلب کرلیا، پولیس نے طلبا کو منتشر کرنے کی کوشش کی تاہم ناکامی پر ان کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا۔
پولیس نے طلبا پر لاٹھی چارج کیا جس سے کئی طلبا زخمی ہوگئے جب کہ احتجاج کرنے والے متعدد طلبا کو حراست میں لے لیا گیا، پولیس کی جانب سے بعض شعبہ جات میں سرچ آپریشن بھی کیا گیا۔
پولیس کے مطابق سرچ آپریشن کے دوران 28 طلبا کو حراست میں لیا گیا ہے جب کہ چیئرمین متحدہ طلبامحاذ کا کہنا ہےکہ پولیس کے لاٹھی چارج سے 5 طلبا زخمی ہوئے۔
پشاور یونیورسٹی کے اس احتجاج میں اسلامی جمعیت طلباء کے کارکن زیادہ متحرک ہیں اور احتجاج میں جمعیت کے کارکنوں نے تنظیمی جھنڈے اپنے سروں پر باندھ رکھے تھے جبکہ پی ایس ایف کے کارکن بھی احتجاج میں شریک تھے.
یونیورسٹی حکام کا موقف ہے کہ یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں غیر قانونی طور پر رہائش پذیر طلباء کے خلاف مستقل بنیادوں پر آپریشن کیا جارہا ہے اور طلباء تنظیموں کے کارکنوں نے ہاسٹلز کے کمروں پر قبضے کر رکھے ہیں جبکہ ان تنظیموں کی جانب سے انتظامیہ کو بلیک میل کیا جاتا ہے.
ایک انتظامی افسر نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ پانچ گھنٹے تک احتجاجی طلباء کے ساتھ مذاکرات کیے گئے لیکن اس کی ناکامی کی وجہ صرف یہی ہے کہ طلباء تنظیموں کی جانب سے ان کے متحرک کارکنوں کے خلاف کارروائی سے گریز کرنے کا مطالبہ شامل تھا جبکہ ہاسٹلز میں ان کی اجارہ داری اور میس پر کنٹرول رکھنے کی خواہش ہے. فیسوں میں اضافہ حقیقت سے منافی ہے اور یہ صرف ہمدردی حاصل کرنے کے لیے ایشو بنایا گیا ہے.
یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ طلبا کا مؤقف سن کر معاملات حل کرنے کی بات کی گئی تھی لیکن دھرنے کی آڑ میں سیاسی اہداف حاصل کرنے والوں سے کوئی نرمی نہیں برتی جائے گی، عدم تشدد، برداشت اور جمہوری رویوں پر یقین رکھتے ہیں۔
ترجمان نے کہاکہ یونیورسٹی میں دفعہ 144 نافذ تھی، ایسے احتجاج کی اجازت نہیں دے سکتے، دفعہ 144 پر عمل درآمد کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے تیار ہیں۔