سعودی عرب: ایم ایس، ایم ڈی ڈگری والے سینکڑوں پاکستانی ڈاکٹر برطرف
- August 7, 2019 11:53 am PST
لاہور: سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک نے پاکستان کے صدیوں پرانے پوسٹ گریجویٹ ڈگری پروگرام، ایم ایس (ماسٹر آف سرجری) اور ایم ڈی (ڈاکٹر آف میڈیسن) کو مسترد کردیا ہے۔
اس فیصلے سے کئی قابل ڈاکٹر بے روز گار ہوگئے، ان میں سے زیادہ تر افراد سعودی عرب میں قیام پذیر تھے جنہیں واپس جانے یا ملک بدر کیے جانے کے لیے تیار رہنے کا کہا گیا ہے۔
پاکستان کی ایم ایس/ایم ڈی کی ڈگری مسترد کرتے ہوئے سعودی وزارت صحت نے اس کی وجہ ڈاکٹرز کی تعیناتی کے لیے ضروری اسٹرکچرڈ تربیتی پروگرام کی کمی کو قرار دیا۔ سعودی عرب کے بعد قطر، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے بھی اس ہی طرح کے اقدامات اٹھائے۔
خیال رہے کہ مذکورہ فیصلے سے متاثر ہونے والے بیشتر ڈاکٹرز کو سعودی وزارت صحت نے 2016 میں کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں انٹرویوز کے بعد تعینات کیا تھا۔
ایک متاثرہ ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے انہیں شرمندگی ہوئی ہے کیونکہ بالکل اس ہی طرح کے دیگر ممالک کے ڈگری پروگرامز کو، جن میں بھارت، مصر، سوڈان اور بنگلہ دیش شامل ہیں، سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک میں قبول کیا جاتا ہے۔
انہیں سعودی کمیشن فور ہیلتھ اسپیشلٹیز (ایس سی ایف ایچ) کی جانب سے جاری کردہ برطرفی کا لیٹر موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ ‘آپ کی پروفیشنل کوالیفکیشن کی درخواست مسترد کردی گئی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی پاکستان سے حاصل کردہ ماسٹر ڈگری ایس سی ایف ایچ ایس کے قواعد کے مطابق قابل قبول نہیں’۔
پاکستان میں چند متاثرہ ڈاکٹروں اور صحت کے سینئر حکام نے کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان (سی پی ایس پی) پر ان کا مستقبل تباہ کرنے کا الزام لگایا۔ یونیورسٹی آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی ایسوسی ایشن کے ترجمان ڈاکٹر اسد نور مرزا کا کہنا تھا کہ ‘عرب ممالک کے اس اقدام سے پاکستان کے انتہائی قابل طبقے کی تذلیل ہوئی ہے’۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ سی پی ایس پی کے وفد نے حال ہی میں سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کے دورے کے دوران پاکستان کے یونیورسٹی پروگرامز کے بارے میں جان بوجھ کر غلط حقائق پیش کیے تاکہ سی پی ایس پی کی جانب سے دی جانے والی ایف سی پی ایس کوالیفکیشن کی اجارہ داری برقرار رہے۔
سعودی عرب سے فون پر بات کرتے ہوئے متاثرہ ڈاکٹر علی عثمان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے لاہور کی یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز سے 5 سالہ پوسٹ گریجویٹ کیا اور لاہور جنرل ہسپتال میں تربیت حاصل کی مگر اچانک سے سعودی وزارت صحت نے میری نوکری کا کانٹریکٹ منسوخ کردیا جس سے میں اور میرے اہلخانہ حیرت زدہ ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘میں نے جب سعودی عرب کے محکمہ اشتراک کے ڈائریکٹر جنرل سعید برکی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ سی پی ایس پی کے وفد کی جانب سے حکام کو بتایا گیا کہ پاکستان میں پوسٹ گریجویٹ میڈیکل ڈگری کی تربیت کا کوئی پروگرام نہیں، سوائے ایف سی پی ایس کے جس کے بعد ان کی تعلیم کو مسترد کردیا گیا’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘سی پی ایس پی کے صدر نے سعودی عرب کے متعلقہ حکام سے متعدد ملاقاتیں کیں اور حکام سے ایف سی ایس پی کے کوالیفائڈ ڈاکٹرز کو ہی روزگار پر رکھنے کی تجویز دی۔ ان کا کہنا تھا کہ سی پی ایس پی نے ایس سی ایف ایچ ایس کو گمراہ کیا اور اس حقیقت کو نظر انداز کیا کہ پاکستان کی یونیورسٹیز کی ڈگری کوالیفکیشن اسٹرکچرڈ ٹریننگ پروگرام ہے۔
یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے ایم ایس/ایم ڈی پروگرام اسٹرکچرڈ ٹریننگ پروگرام نہ ہونے کے تاثر کو مسترد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘ایم ایس/ایم ڈی پروگرام کا آغاز 1914 میں کیا گیا تھا اور پہلی ایم ایس کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی کے جی بی کپور کو دی گئی تھی’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ایم ایس/ایم ڈی ڈگریوں کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کی جانب سے 5 سالہ لیول-3 تحقیق اور کلینکل کوالیفکیشن قرار دیا گیا ہے’۔ انہوں نے کہا کہ ‘ایم ایس اور ایم ڈی ڈگریاں عالمی فیڈریشن برائے میڈیکل تعلیم کے عالمی معیار کے مطابق ہیں’۔
سرکاری اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت متعدد سرکاری و نجی میڈیکل اداروں میں 4 ہزار 440 پوسٹ گریجویٹس کام کر رہے ہیں جن میں سے 102 سینئر پوزیشنز پر فیکلٹی رکن کے طور پر پڑھا بھی رہے ہیں۔
سی پی ایس پی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ظفر اللہ چوہدری سے معاملے پر رائے کے لیے رابطہ قائم نہیں ہوسکا تاہم سی پی ایس پی کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفیٰ آرائیں نے متاثرہ ڈاکٹروں کی جانب سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ سی پی ایس پی کے نمائندے بیرون ملک کے دورے کے دوران ایف سی پی ایس کوالیفکیشن کی تشہیر کے لیے گئے تھے تاکہ پاکستان کی میڈیکل تعلیم میں بہتر تصویر پیش کی جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘سی پی ایس پی پاکستان کے کسی بھی میڈیکل تعلیمی پروگرام کو بیرون ممالک میں نیچا دکھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا’۔
پنجاب کی سیکریٹری آف اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اور میڈیکل ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ مومن آغا کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس معاملے کو صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد کے سامنے اٹھایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بحث کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ معاملہ میڈیکل ایجوکیشن کمیٹی کو دیا جائے جو انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ ڈگری پروگرام کی نگرانی کر رہی ہے۔ سینئر میڈیکل اساتذہ پر مشتمل کمیٹی اس معاملے پر ایم ایس/ایم ڈی کوالیفکیشن میں اصلاحات کے لیے جائزہ لے گی۔
مومن آغا کا کہنا تھا کہ ‘یہ واضح ہے کہ ایم ایس/ایم ڈی کوالفکیشن ایک اسٹرکچرڈ ڈگری پروگرام ہے جو مقامی و بین الاقوامی روزگار کے لیے تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مقامی صحت کے حکام اس معاملے کو عرب ممالک میں متعلقہ حکام کے سامنے بھی اٹھائیں گے۔