ڈیجیٹل اکانومی اور چربہ سازی کا کاروبار

  • August 30, 2018 3:12 pm PST
taleemizavia single page

اکمل سومرو

علم پر مبنی معیشت یعنی نالج اکانومی جدید معاشی دُنیا کا نظریہ ہے جیسے اشیاء کی تجارت میں فری مارکیٹ اکانومی کا نظریہ مقبول ہوا بالکل ایسے ہی ٹیکنالوجی کے ذریعے سے ہونے والی نئی ایجادات کے باعث نالج کانومی کا تصور پیش کیا گیا۔

تیسری دُنیا کے ممالک نیو لبرل ازم کے اس دور میں پہلی اور دوسری دُنیا کے ممالک کی منڈیاں ہیں اگرچے یہ منڈیاں براہ راست نوآبادیات نہیں ہیں لیکن مابعد نوآبادیاتی تصور پر پورا اُترتی ہیں۔ نالج اکانومی کے تصورات ہائیر ایجوکیشن کے ساتھ اور جدید ٹیکنالوجی سے منسلک ہیں۔

پاکستان میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن ۲۰۰۲ء میں ختم ہوا تو اس کی جگہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے سنبھال لی، یہ کمیشن ۲۰۰۰ء میں ورلڈ بنک کی فنڈنگ سے بننے والی ہائیر ایجوکیشن ٹاسک فورس کی سفارش پر بنا اور فورس کی سربراہی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(LUMS) کے پرو چانسلر سید بابر علی نے کی تھی۔

کمیشن بننے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں اصلاحات نافذ ہوئیں، نئی جامعات کھلیں، نئے کورسز متعارف ہوئے، امتحانی نظام سالانہ کی بجائے سمیسٹر سسٹم ہوگیا، اساتذہ کو ریسرچ کے نام پر اربوں روپے کی فنڈنگ ہوئی، جامعات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کا رجحان بڑھا، اساتذہ نے تحقیقی مقالہ جات لکھنے شروع کیے، عالمی کانفرنسز میں شمولیت کے لیے ٹریول گرانٹس ملنا شروع ہوئی گویا پاکستان میں ایک نیا تعلیمی جہان بننے لگا۔

اب علم کی تخلیق ہونے لگی تو چربہ سازی یعنی پلیجرازم بھی ہونے لگا چنانچہ کمیشن نے امریکہ کا تیار کردہ چربہ سازی یا علمی سُرقہ روکنے کے لیے Turnitin سافٹ ویئر حاصل کر لیا۔ اس سافٹ ویئر نے ایک تہلکہ مچا دیا، پروفیسرز کی علمی چوریاں بھی پکڑی جانے لگیں اور ایم فل پی ایچ ڈی سکالرز بھی زد میں آنے لگے۔ لیکن علمی سُرقہ کا یہ سافٹ ویئر ہے کیا اور اسے کون آپریٹ کر رہا ہے؟

میں خود چونکہ پی ایچ ڈی کا طالبعلم ہوں اس لیے مجھے اس سافٹ ویئر سے متعلق نئی جان کاری بھی ہوئی ہے۔ ۱۹۹۸ء میں امریکی شہر کیلی فورنیا میں Turnitin بنایا گیا اور اس کی فنڈنگ آئی پیراڈائم کمپنی نے شروع کی۔ صرف چار سال بعد اس سافٹ ویئر میں دُنیا بھر سے دس لاکھ تحقیقی مقالہ جات اپ لوڈ کیے گئے اور ان میں چربہ سازی چیک کی گئی۔

Turnitin کے ڈیٹا بیس میں اب تک پچاس کروڑ تحقیقی مقالہ جات، تھیسز اپ لوڈ کیے جا چکے ہیں اور پاکستان سے اب تک تین لاکھ سے زائد ریسرچ پیپرز اور تھیسز اپ لوڈ کیے گئے ہیں یعنی پاکستان میں ہونے والی ہر تحقیق امریکہ کے پاس بذریعہ ٹرن اِٹ اِن سافٹ ویئر پہنچ رہی ہے اور ھمارے طلباء، اساتذہ جو ریسرچ بھی کرتے ہیں یہ ریسرچ مفت میں ہی امریکہ کو ہم خود پہنچا دیتے ہیں بلکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن Turnitin کو سالانہ ۸ کروڑ روپے ادا بھی کرتا ہے۔

پاکستان کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ہونے والی تحقیق کی مماثلت کو چیک کرنے کے لیے ایچ ای سی ٹرن اِٹ اِن کو اب تک ایک ارب دس کروڑ روپے تک ادا کر چکا ہے۔

ایچ ای سی پاکستان کی ۱۵۰ جامعات کو ٹرن اِٹ اِن کی سہولت فراہم کر رہا ہے جس میں سے ۱۱۴ سرکاری جامعات ہیں۔ ایچ ای سی نے بعض پرائیویٹ جامعات کو یہ سہولت فراہم کرنے کے لیے فیس مقرر کر رکھی ہے۔

پاکستان میں دفاع، معیشت، سیاست، سماج، عمرانیات، ثقافت، تعلیم سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق جو ریسرچ پیپرز اور تھیسز لکھے جارہے ہیں وہ اس سافٹ ویئر میں اپ لوڈ ہوتے ہیں جس کا مرکزی دفتر کیلیفورنیا، امریکہ میں ہے۔ پاکستان کے محققین کو امریکی یونیورسٹیوں اور ریسرچ انسٹیٹیوٹس میں ہونے والی ہر تحقیق تک رسائی نہیں ہے اور جو ریسرچ ہمیں میسر ہوتی ہے وہ ہم امریکی ریسرچ جرنلز کو پیسے دے کر خریدنے کے پاپند ہوتے ہیں۔

اس سے پہلے آئی پیراڈائم نے ہی ایتھنٹیکیٹ نامی سافٹ ویئر بنایا تھا Turnitin اس کا اپ گریڈیڈ ورژن ہے جس میں بیک وقت ۴۰۰ صفحات تک اپ لوڈ کر کے علمی سُرقہ چیک کیا جاسکتا ہے۔ خود امریکی یونیورسٹیاں ٹرن اِٹ اِن کیلئے ایک ڈیپارٹمنٹ سالانہ ایک ہزار ڈالرز ادا کرتا ہے ایک ریسرچ پیپر کی مماثلت چیک کرنے کی فیس تین ڈالرز مقرر ہے۔

یہ سافٹ ویئر علمی حقائق سے متعلق کچھ نہیں بتاتا بلکہ انٹرنیٹ کی دُنیا میں گوگل سے منسلک جو ریسرچ رکھی ہے بلکہ علمی مواد کی مماثلت کو چیک کرتا ہے، علمی سُرقہ پر یہ واحد سافٹ ویئر ہے جو امریکی کنٹرول میں ہے، ناقدین کی رائے ہے کہ دُنیا بھر میں نئے علوم کی تخلیق، ماہرین کی آراء ہر روز امریکی سی آئی اے تک مفت میں پہنچ جاتی ہے، پاکستان کے ریسرچ سکالرز، اساتذہ کیا سوچتے ہیں، امریکہ کو بہت اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے، نئے علمی و تنقیدی رجحانات پر قابو پانے کا بہترین ذریعہ یہ Turnitin سافٹ ویئر ہے۔

گوگل پر جو کتابیں اپ لوڈ ہوتی ہیں، دُنیا بھر کے پبلشرز مختلف ویب سائیٹس پر جو کتب جاری کرتے ہیں وہ Turnitin کے ڈیٹا بیس کا حصہ بن جاتی ہے اور Turnitin نے اپنے سافٹ ویئر کو گوگل کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے یوں علمی و تعلیمی دُنیا میں Turnitin سُپر پاور بن چکا ہے اور اندازے کے مطابق ٹرن اِٹ اِن کی کنٹرولنگ کمپنی iparadigm کی سالانہ آمدن ۷۵۲ ملین ڈالرز ہے۔

امریکی ایجنسی سی آئی اے، برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس سمیت بہت ساری خفیہ ایجنسز انفرادی سطح پر لوگوں کی ای میلز تک رسائی حاصل کر لیتی ہیں تو یہ کیسے نا ممکن ہوسکتا ہے کہ تیسری دُنیا کے ممالک یا پھر پاکستان میں ہونے والی تحقیق پر خود امریکہ تحقیق نہ کرتا ہو؟ ہماری جامعات میں طلباء و اساتذہ کی تحقیق عالمی سطح پر ایک پرائیویٹ کمپنی کو فروخت کی جارہی ہے اور یہ کیسی فروخت ہے جس کی قیمت بھی ہم خود ادا کر رہے ہیں۔

مابعد نوآبادیاتی فلسفے میں ریاستوں کو براہ راست کنٹرول کرنے کا یہ جدید طریقہ ہے کہ یہاں کے علوم پر بھی کنٹرول حاصل کیا جائے اور ذہنوں کو کنٹرول کرنے کے لیے نئے طریقے تلاش کیے جائیں۔ اس فلسفے میں براہ راست غیر ملکی فوج، غیر ملکی بیوروکریسی کی ضرورت درکار نہیں ہوتی بلکہ یہ ادارے خود اُن کی ایماء پر کام کرتے ہیں۔

علم کا آڈٹ اتنا ہی ضروری ہے تو پھر ہائیر ایجوکیشن کمیشن اسلامیات، اُردو، عربی، فارسی، پنجابی یا دیگر زبانوں میں ہونے والی پی ایچ ڈی، ریسرچ پیپرز کی چربہ سازی پکڑنے کے لیے بھی کوئی سافٹ ویئر کیوں نہیں بنا لیتا؟ شُنید ہے کہ ان زبانوں میں تخلیق پانے والے علوم پر بھی Turnitin نے کام شروع کر دیا ہے بے فکر رہیں اب ان دیسی و قومی زبانوں میں تخلیق پانے والا علم بھی امریکہ کی دسترس میں ہوگا۔

مجھے اس پر اعتراض ہے کہ علوم پر کسی خاص قوم کی اجارہ داری ہو بلکہ یہ تو انسانیت کی میراث ہے اس پر تبادلہ ہونا چاہیے۔ لیکن سوال بس اتنا ہے کہ قومی ضروریات، قومی تقاضوں کی بھی کوئی اہمیت و درجہ ہوتا ہے، کیا ہم یونہی تیسری دُنیا کے گروپ میں رہیں گے اور ھماری حیثیت صرف منڈی کی ہی رہے گی؟

امریکہ کی سلیکون ویلی میں ایسے بے شمار پاکستانی کام کر رہے ہیں حتیٰ کہ پاکستان میں بھی ایسا ٹیلنٹ موجود ہے جو ٹرن اِٹ اِن کی طرز پر قومی سطح کا سافٹ ویئر بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پاکستان تو اپنی یونیورسٹیوں، کالجوں حتیٰ کہ سکولوں کو بھی یو ایس ایڈ کے پاس گروی رکھ چکا ہے اور رہی سہی کسر ھمارے یہاں علمی تحقیق کو ٹرن اِٹ اِن کے حوالے کر کے پوری کی جارہی ہے۔


akmal-dawn

اکمل سومرو سیاسیات میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ تاریخ اور ادب پڑھنا ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔وہ لاہور کے مقامی ٹی وی چینل کے ساتھ وابستہ ہیں۔

  1. ایک تکلیف دہ زاویہ جو ہماری قومی تنزلی کی خبر دیتی ہے اور اس کے عوامل بھی بتاتی ہے ۔۔۔اس شعوری مکالمے کا شکریہ

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *