اسٹیفن ہاکنگ کا بلیک ہولز پر آخری مقالہ شائع ہوگیا
- October 13, 2018 12:45 pm PST
کیمبرج: اسٹیفن ہاکنگ کا آخری تحقیقی مقالہ منظر عام پر آگیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بلیک ہولز کے اندر جانے والی اشیا کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
ممتاز ریاضی داں اور ماہر کونیات اسٹیفن ہاکنگ رواں سال 14 مارچ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کی موت کے فوراً بعد ان کا ایک تحقیقی مقالہ منظر عام پر آیا تھا جسے عظیم سائنس داں کے آخری تحقیقی کام کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
لیکن اب اسٹیفن ہاکنگ کے ہارورڈ اور کیمبرج کے ساتھیوں نے ایک اور تحقیقی مقالہ پیش کیا ہے جس میں اسٹیفن ہاکنگ کی بھی کچھ تحقیقات شامل ہیں۔ اس مقالے میں بلیک ہولز پر بحث کی گئی ہے جو اسٹیفن ہاکنگ کی خصوصی دلچسپی کا موضوع تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بلیک ہول کا ذکر سامنے آتے ہی ہاکنگ کا نام ذہن میں آجاتا ہے۔
اس تحقیقی مقالے میں بلیک ہول سے وابستہ ایک دیرینہ راز پر بحث کی گئی ہے کہ سیاہ سوراخ میں غائب ہوجانے والے اجسام کی اطلاعات (انفارمیشن) کہاں جاتی ہیں اور ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں مقالے میں دیگر کئی پہلوؤں پر بھی بات کی گئی ہے۔
تحقیقی مقالے میں لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی شے بلیک ہول میں جاگرے تو وہ اس کے درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ بنتی ہے۔ اس کے ردِعمل میں اس کے اندر وقت کے ساتھ پیدا ہونے والے بگاڑ یا اینٹروپی میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے۔ تحقیقی مقالے کے مطابق بلیک ہول کے اطراف موجود فوٹونز، اینٹروپی میں تبدیلی کی تفصیل کو نوٹ کرسکتے ہیں۔
واضح رہے کہ اسٹیفن ہاکنگ نے زندگی کے آخری ایام میں بھی اس مقالے پر کام جاری رکھا تھا جو بلیک ہولز کے متعلق ہماری معلومات میں اضافہ کرتا ہے۔ ہاکنگ نے بلیک ہول کا درجہ حرارت ناپنے کا ایک فارمولہ بھی وضع کیا تھا جسے ’ہاکنگ ٹمپریچر‘ کہا جاتا ہے۔
ہاکنگ نے پہلے پہل 1974 میں بلیک ہول درجہ حرارت کی نظری بنیادیں پیش کی تھیں، تب سے اب تک کلاسیکی اور کوانٹم فزکس کے ماہرین اس تصور کو اپنے اپنے قوانین کے تحت بیان کرنے اور منظم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اس مقالے کے شریک مصنف، کیمبرج یونیورسٹی کے میلکم پیری بھی ہیں جنہوں نے بتایا کہ اسٹیفن ہاکنگ کی وفات سے صرف چند دن قبل انہوں نے ہاکنگ سے اس مقالے پر تبادلہ خیال کیا تھا۔ اس دوران اسٹیفن ہاکنگ تک اپنی بات پہنچانا بھی بہت مشکل ہوگیا تھا۔