سرچ انجن گوگل کی سائنسی خدمات

  • June 17, 2018 11:12 am PST
taleemizavia single page

سلیم انور عباسی

گوگل سرچ انجن نے اب صحت سے متعلق ایسے آلات کی ایجاد کا تجربہ شروع کر دیا ہے جو پیشگی طور پر دل کے دورے یا فالج وغیرہ کی نشاندہی کر سکیں گے۔دل کا دورہ، فالج اور کینسر، ان سب کے رونما ہونے سے پہلے اگر ان کی تشخیص ہو جائے تو طبی سائنس کی دنیا میں ایک انقلاب آجائے گا۔ انسان اس انقلاب کا خواب دیکھ رہے ہیں اور انہیں شرمندہ تعبیر کرنے کی جدوجہد سرچ انجن گوگل کر رہا ہے۔

گوگل آخر ہے کیا؟

اس سوال کا جواب دینا کوئی آسان بات نہیں۔ ماضی میں محض ایک سرچ انجن کی حیثیت رکھنا والا گوگل اب ہمارے دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی اہم کردار ادا کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہماری گاڑیوں، گھروں اور اب ہماری جسمانی صحت کے لیے بھی گوگل ایسی ایجادات پر کام کر رہا ہے جو ہمیں پیشگی طور پر صحت کے سنگین مسائل سے متنبہ کر سکیں گی۔

امریکی ریاست کیلیفورنیا کی سانتا کلارا کاؤنٹی کے علاقے ماؤنٹین ویو میں قائم گوگل کارپوریٹ کے ہیڈ کواٹرز میں اب ایسی ٹیکنالوجی پر کام ہو رہا ہے جو مستقبل میں انسانی جسم میں کسی مہلک عارضے کے پیدا ہونے کی نشاندہی کر سکے گی۔

یہ سب کچھ سائنس فکشن سے کم نہیں لگتا۔ تاہم یہ حقیقت ہے جس کے بارے میں ایک معروف جرمن جریدے ’ڈیئر اشپیگل‘ کے ایک مصنف تھوماس شُلس نے اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا ہے۔ وہ خود گوگل کی اس لیبارٹری میں جاکر وہاں طبی ٹیکنالوجی پر ہونے والے کاموں کا جائزہ لے چُکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ دلچسپ اور تعجب خیز تجربہ ایسی پِل یا گولی کا ہے جو نینو پارٹیکلز یا انتہائی چھوٹے ذرات سے تیار کی گئی ہے۔

اس گولی کو نگل کر اور ایک ڈیوائس کو کلائی پر باندھ لینے سے جسم کی تمام تر تشخیص ڈیٹا کی شکل میں ریکارڈ کی جا سکتی ہے۔ اس طرح ماہرین یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آیا مذکورہ شخص میں ہارٹ اٹیک یا دل کے دورے، فالج یا ذیابیطس کے مستقبل قریب میں جنم لینے کے امکانات پائے جاتے ہیں یا نہیں۔ اگر ایسا پتہ لگ جائے تو اس کا بر وقت سد باب کیا جا سکتا ہے۔

بلڈ شوگر ٹیسٹ ہو یا بلڈ پریشر گوگل انہیں سہل تر بنا دے گا

گوگل کے ماہرین ایک ایسے کانٹیکٹ لینز پر بھی کام کر رہے ہیں جو ذیابیطس کے مریضوں کے لیے ہے۔ اس کے استعمال سے ذیابیطس کے مریضوں کو بلڈ شوگر یا خون میں شکر کی مقدار ناپنے کے لیے انجکشن کی سوئیاں نہیں چُبھانا پڑیں گی۔

گوگل ماہرین کا خیال ہے کہ کمپوٹر سائنس آئندہ سالوں میں طب کے شعبے میں ترقی کی بہت زیادہ صلاحیت رکھتی ہے۔ میڈیسن اور ٹیکنالوجی کے امتزاج سے ایجاد ہونے والے آلات، ادویات ساز کمپنیوں کی صحت کے شعبے پر اجارہ داری کو بھی ختم کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔گوگل کی یہ کوششیں تاہم اُس وقت کامیاب ہوں گی جب خوراک اور ادویات کی ایڈمنسٹریشن کے امریکی ادارے ایف ڈی اے کی طرف سے اسے اپنی مصنوعات کو مارکیٹ میں لانے کے لیے اجازت ملے ۔

گوگل برین

ایان پیئرسن نے اپنی کتاب” یو ٹومارو” میں اس امکان کے بارے میں لکھا تھاکہ ہم ایک دن نیورولوجیکل معلومات پر مبنی ڈیجیٹل خود تخلیق کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے دماغ کو ایک کمپیوٹر میں اپ لوڈ کر سکتے ہیں اور ڈیجیٹل شکل میںتبدیل کرسکتے ہیں۔اسی تصور پر سائنس فکشن فلم ٹرانسفارمر تھی ۔اس کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے گوگل نے رے کرزوییل کی خدمات حاصل کیں تاکہ مصنوعی ذہانت کے ذریعے دماغ کو کنٹرول کیا جاسکے۔

اب وہ وقت دور نہیں جب ہم کمپیوٹر پر دماغ اور شعور کو اپ لوڈ کرکے بعد از مرگ بھی جینے کے مزے لیکر لافانی بن جائیں گے اور ہمارے وجود کے ختم ہونے کے بعد بھی ہمارے دماغ کی حکمرانی رہے گی۔

مصنوعی ذہانت

آئی بی ایم واٹسن، جو مصنوعی ذہانت کا حامل کمپیوٹر ہے،ہر روز طبی فیصلہ سازی میں ڈاکٹروں کی مدد کرے گا، اگرچہ یہ مکمل طور پرانسانوں کا متبادل نہیں ہوگا۔ اگرچہ ایک ڈاکٹر چند کاغذات پر عمل کر سکتا ہے، لیکن ڈیجیٹل حل کے ساتھ واٹسن کو 15 سیکنڈ میں 40ملین دستاویزات پڑھنے اور سب سے زیادہ مناسب علاج تجویز کرنے کی صلاحیت حاصل ہے۔اس کا مقصد پیشن گوئی کے ان اخراجات کو کم کرنا ہے،جس کے تحت کسی بھی مرض کی ممکنہ دوا کی تشخیص کے لیےسپر کمپیوٹر کا استعمال کیا جاتا ہے۔

گوگل ڈیپ مائنڈ ہیلتھ کو ہم میڈیکل ریکارڈز کے اعداد و شمار سےادویہ کی تشخیص میں بہتر اور صحت کی فوری خدمات کی فراہمی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔اس سے وہ وقت اور لاگت بچ جائے گی جو ہم مخصوص ادویہ کی شناخت میں خرچ کرتے ہیں۔یہ منصوبہ ابھی اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے۔ اس وقت وہ برطانوی ہسپتال مورور فیلڈز آئی ہسپتال این ایچ ایس فاؤنڈیشن ٹرسٹ میں آنکھوں کے علاج کو بہتر بنانے کے لئے ایک شراکت دار کے طور پر کام کررہے ہیں۔

گوگل کوانٹم کمپیوٹر

بیسویں صدی کو کمپیوٹر کی صدی کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔اسکے بعد اکیسویں صدی کو بھی سپر کمپیوٹر سے لیکر کوانٹم کمپیوٹر کے روپ میں سائنس اور ٹیکنالوجی پر کمپیوٹر کی حکمرانی ہی پائیں گے کہ اسی کمپیوٹر کی بدولت تحقیق کے میدان میں برق رفتاری آئی اور آج ہم اسمارٹ فون کی صورت کمپیوٹر کو اپنی زندگی کا لازمی جز پاتے ہیں۔سائنس کے ہر شعبے میں انقلاب کی راہ اسی کمپیوٹر نے ہموار کی۔

گزشتہ سو سالوں میں سائنس میں کئی بڑے لمحے آئے۔ جیسے ڈی این اے کی ساخت کی دریافت لیکن خود یہ دریافت بھی ڈارون اور مینڈل کی وجہ سے ممکن ہو سکی اور اس نے بعد میں بائیو ٹیکنالوجی کے دروازے کھول دیے۔ آج ہم انسان کے مکمل ڈی این اے (جسے ‘جینوم کہتے ہیں) کا آسانی سے جائزہ لے سکتے ہیں۔اس سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملی ہے کہ جینیاتی بیماریاں کیسے لاحق ہوتی ہیں اور انھیں کیسے ٹھیک کیا جا سکتا ہے۔

حال ہی میں سائنس دانوں نے ایک بچی کے جینز میں تبدیلی لا کر اسے لاحق کینسر کا مرض دور کر دیا۔تاہم انسانی جینوم اس قدر پیچیدہ ہے کہ ہم نے ابھی حال ہی میں یہ سمجھنا شروع کیا ہے کہ جین کیسے ماحول کے ساتھ مل کر ہمارے جسم کا نظام چلاتے ہیں۔

آج ہم دنیا کو بڑی حد تک ایک الیکٹرانک اسکرین پر دیکھتے ہیں۔ کمپیوٹر مختلف شکلوں میں علم کا ماخذ ہیں، لیکن وہ اس بات کا بھی تعین کرتے جا رہے ہیں کہ ہم بقیہ دنیا اور دوسرے انسانوں کے ساتھ کس طرح سے پیش آتے ہیں۔آج کے دور کی ایک انتہائی عام چیز یعنی سمارٹ فون بھی کئی بنیادی دریافتوں کی مرہونِ منت ہے۔ اس کے اندر موجود کمپیوٹر انٹی گریٹڈ چپ کی مدد سے کام کرتا ہے۔ خود انٹی گریٹڈ چپ ٹرانزسٹروں سے بنی ہوتی ہے، جن کی دریافت کوانٹم مکینکس کی تفہیم کے بغیر ممکن نہیں تھی۔

فون کے اندر موجود جی پی ایس آئن سٹائن کے نظریۂ اضافیت میں وقت کے تصور کی تفہیم پر کام کرتا ہے۔اس لیے روشنی کی رفتار سے کام کرنے والے کوانٹم کمپیوٹر پر بھی گوگل کام کررہا ہے۔

ایک زمانے میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ نظریہ عام زندگی پر کوئی اثر نہیں ڈال سکے گا۔اس وقت کمپیوٹر نئی دریافتوں میں مدد دے رہا ہے جن کی وجہ سے ہمارا دنیا کے بارے میں تصور بدلتا جا رہا ہے۔

اس وقت ہمارے درمیان ایسی مشینیں موجود ہیں جو خود سیکھ سکتی ہیں اور وہ ہماری دنیا کو تبدیل کر رہی ہیں۔کمپیوٹر صحت اور سماجی میدانوں میں پیش رفت کے وسیع امکانات رکھتے ہیں، ہم جلد ہی اپنے درمیان بغیر ڈرائیور والی کاریں اور جدید روبوٹ دیکھ سکیں گے، لیکن ہمیں اس بارے میں بہت سوچ سمجھ کر فیصلے کرنے ہوں گے کہ ہمیں ذہین مشینوں کو کس حد تک دخل اندازی کی اجازت دینی چاہیے۔

ایجادات اخلاقی طور پر نہ بری نہ اچھی ہوتی ہیں، ہمارا استعمال انھیں اچھا یا برا بنا دیتا ہے۔یہی خدشات ہمیں مصنوعی ذہانت کے آنے والے انقلاب سے ہیں کہ کہیں روبوٹ ہمارا کام ہی تمام نہ کردیں، جس رفتار سے وہ کام کرتے ہیں ایسے میں ایک وسیع آبادی کو بے روزگار ہونا پڑے گا۔ذرا سوچیے اگر روبوٹ ڈاکٹر، معالج،سرجن اور نرسیںہوں گے تو ہمارے ڈاکٹر،سرجن، نرسیں اور دیگر پیرا میڈیکل اسٹاف کہاں جائے گا؟


بشکریہ جنگ