قرار داد لاہور (پاکستان) کا اصل مصنف کون؟

  • March 23, 2018 12:45 pm PST
taleemizavia single page

لیاقت علی ایڈووکیٹ

اٹھہتر سال قبل 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ منٹو پارک لاہور میں ایک قرار داد منظور کی گئی جسے آج ہم’ قرار داد پاکستان‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس قرار داد میں پہلی دفعہ مطالبہ پاکستان کو آئین اور قانون کی اصطلاحات میں بیا ن کیا گیا تھا۔

قبل ازیں مسلم علیحدگی پسندی بطور تحریک تو موجود تھی لیکن اس کے ممکنہ آئینی اور قانونی خد و خال واضح نہیں تھے۔ قرار داد لاہور میں مجوزہ پاکستان کو ہندوستان کے جن علاقوں، خطوں اور صوبوں پر مشتمل ہونا تھا ان کی نشاندھی کی گئی تھی۔ اس قرار داد کا مصنف کون تھا اس بارے میں متضاد دعاوی موجود ہیں۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ قرارداد برطانوی سرکار کے ایما پر سر ظفر اللہ خاں نے ڈرافٹ کی تھی اور انگریز سرکار اس قرار داد کے ذریعے کا نگریس کو دباؤ میں لانا چاہتی تھی جب کہ مسلم لیگ کا مقصد اس قرار داد کو کانگریس سے سیاسی سودے بازی کے لیے استعمال کرنا تھا ۔

معروف مسلم لیگی رہنما ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی مسلم لیگ کے اس اجلاس میں شریک تھے انھوں نے لکھا ہے کہ جس دن یہ قرار داد اجلاس میں پیش ہوئی تھی اس دن بھی یہ امر زیر بحث تھا کہ یہ قرار داد کس نے ڈراٖفٹ کی تھی کیونکہ اس قرارداد میں بڑے واضح انداز میں پنجاب اور بنگال کی تقسیم کی بات کی گئی تھی۔ اس قرارداد میں ہندوستان کے شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں دو آزاد مسلمان ریاستوں کے قیام کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

لیکن 9اپریل1946کو نئی دہلی میں مسلم لیگ کے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے نو منتخب ارکان اور لیگی عہدیداروں کے کنونشن میں قرار داد لاہور سے انحراف کرتے ہوئے ’ایک ریاست‘ کی قرارداد منظور کر الی گئی حالانکہ اس کنونشن کو قرار داد لاہور کے مندرجات میں تبدیلی کوئی آئینی اختیا ر حاصل نہیں تھا۔مزید براں لیگی کنونشن کی منظور کردہ اس قرار داد میں مذکورہ صوبوں کے علاقوں میں رد و بدل کا کوئی ذکر نہیں تھا جب کہ قرار داد لاہور میں کہا گیا تھا کہ مناسب علاقائی رد وبدل کے بعد شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقوں میں دو آزاد اور خود مختار مسلم ریاستیں قائم کی جائیں۔

ضرور پڑھیں؛ درسی کتب میں “مینار پاکستان” کی اُدھوری کہانی

زیر نظر کتاب’ قرار داد لاہور کس نے لکھی‘ ان مضامین کا مجموعہ ہے جو مارچ 2017 میں معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی کے ایک مختصر ٹی ۔وی انٹرویو کے پس منظر میں لکھے گئے تھے۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں میز بان نے ڈاکٹر مبار ک علی سے یہ پوچھا تھا کہ قرار داد لاہور کی آپ کے نزدیک کیا اہمیت ہے ؟ ڈاکٹرمبارک نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تاریخ میں واقعات کے بیانئے میں برابر تبدیلی ہوتی رہتی ہے کیونکہ نئے ماخذ سامنے آتے رہتے ہیں اور نئی معلومات اُن کی حقیقت کو بدلتی رہتی ہے ۔

ا س لئے قرارداد لاہور کے بارے میں ایک تحقیق یہ ہے کہ قرار داد ہندوستان کے وائسرائے کے ایما پر سر ظفراللہ نے لکھی تھی۔ ڈاکٹر مبارک علی کی بات مکمل ہونے سے قبل ہی میزبان نے ان سے رابطہ منقطع کر دیا تھا۔ ڈاکٹر مبار ک علی کے اس انٹرویو سے ناراض بہت سے کالم نگاروں نے ان کے موقف کا مدلل جواب دینے کی بجائے ان کی شخصیت پر ناروا حملے کرنا شروع کرد یئے اور انھیں غدار تک قرار دے دیا۔

ہمارے ہاں ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں اختلافی نکتہ نظر کو غداری یا ملک دشمنی قرار دینا، فکری بد دیانتی اور فسطائی سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔کسی شہری کی حب الوطنی یا ملک دشمنی کے بارے میں فیصلہ کرنے کی مجاز اتھارٹی صرف اور صرف عدلیہ ہے ۔کسی فرد واحد یا ریاستی ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ کسی فرد یا کمیونٹی کو فکری اختلاف کی بنا پر ملک دشمن قرار دے کر اس کا میڈیا ٹرائل کرے۔

لازمی پڑھیں؛ کالونیل عہد کے زخم اور تاریخ کا مضمون

اس طرز عمل کا نتیجہ ہم بنگلہ دیش کی صورت میں دیکھ چکے ہیں مگر ہمارے دانشوروں اور اکابرین نے بنگلہ دیش کے قیام سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کا سلسلہ مسلسل جاری ہے۔

فکشن ہاؤ س نے قرارداد لاہور کے سیا ق و سباق میں مختلف اخبارا ت میں ڈاکٹر مبارک علی کے موقف کی حمایت اور مخالفت میں لکھے گئے کالموں کو بلا امتیاز اس کتاب میں جمع کردیا ہے ۔ نظریاتی ریاستوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ تاریخ کو ریاست کے نظریاتی فریم ورک میں تشکیل دیتی ہیں۔ اگر ریاست کے تاریخی بیا نئے کو کچھ واقعات اور شہادتیں غلط ثابت کرتی ہوں تو ایسے واقعات اور شہادتوں کو تسلیم کرنے کی بجائے یا تو ان کا سرے سے انکار کر دیا جاتا ہے یا پھر انھیں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

نظریاتی ریاستوں کے اس رویے کی وجہ سے معاشرے کے مجموعی ذہن میں گمراہ کن شعور پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ نہ تو ماضی کی درست تفہیم کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے حال کا تجزیہ کر سکتا ہے۔ پاکستان میں قدم قدم پر تاریخی معروضیت کو جھٹلایا جاتا ہے۔ تاریخی واقعات ہوں یا تاریخی شخصیات ان کی ٹیلرنگ کچھ اس انداز میں کی جاتی ہے کہ ریاستی بیانئے کو تقویت ملے اور اس کی ’سچائی‘ کی دھاک عام آ دمی کے ذہن پر بیٹھ سکے۔

قرار داد لاہور کے بارے میں بھی کچھ ایسا ہی انداز اختیار کیا جاتا ہے۔یہ قرار داد کن حالات میں منظور ہوئی اور اس کے پس پشت کون سے سیاسی محرکات اور شخصیات تھیں ان کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے اس قرار داد کا سارا کریڈیٹ جناح کو دے دیا جاتا ہے۔

مسلم لیگ کے اہم رہنما چوہدری خلیق الزمان جو قیام پاکستان کے بعد پاکستان مسلم لیگ کے صدر بنے،نے اپنی کتاب’ شاہراہ پاکستان‘ میں کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کی تمام قرار دادیں وہی لکھا کرتے تھے ،یہی ایک قرار داد پاکستان تھی جو بد قسمتی سے وہ نہ لکھ سکے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ قرارداد بالکل غلط الفاظ میں مرتب کی گئی اور کسی نہ سوچا کہ ان ا لفاظ سے قرار داد کا مفہوم یکسر بدل ہی نہیں بگڑ کا رہ جائے گا ۔

ساتھ ہی چوہدری صاحب نے ماتم کیا ہے کہ کاش ورکنگ کمیٹی کے ارکان اُن کی آمد کا انتظار کرتے کہ وہ اپنے وسیع سیاسی تجربے کی بنا پر قرار داد صحیح الفاظ میں مرتب کر سکتے۔ دراصل یہ قرار داد منظور ہونے سے دو ہفتے قبل سر ظفر اللہ نے یہ قرار داد لکھ کر وائسرائے ہند لارڈ لنلتھگو کو بھیج دی تھی جسے وائسرائے نے اپنی سفارشات کے ساتھ برطانیہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ لارڈ زٹلینڈ کے پاس 12 ۔مارچ 1940 کو بھیج دیا تھا۔

وائسرائے کے اس سے ظا ہر خط ہوتا ہے کہ اس منصوبہ کی نقل مسٹر جناح کو بھی بھیجی گئی تھی اور یہ منصوبہ اس لئے تیار کیا گیا تھا کہ مسلم لیگ اسے اپنا لے۔ یہ قرار داد منظوری سے تھوڑی دیر قبل ہی مسلم لیگی زعما کے حوالے کی گئی تھی یہی وجہ تھی کہ جب یہ قرارداد جو انگریزی زبان میں تھی اجلاس میں پیش کی جارہی تھی تو مولانا ظفر علی خان جب اس کا ترجمہ کرنے لگے تو پنجاب کے وزیر اعظم سر سکندر حیات جو بہت پیچھے بیٹھے ہوئے تھے اپنی جگہ اٹھ کر مولانا کے پاس آکر بیٹھ گئے اور جب تک مولانا ترجمے میں مصروف رہے سر سکندر برابر قرار داد کے انگریزی متن اور اُردو ترجمے کے ایک ایک لفظ پر غور فرماتے رہے ۔

یہ صحیح ہے کہ سر سکندر مرحوم لفظ پاکستان سے ہمیشہ گھبراتے اور اس کے بجائے قرار داد لاہور کا لفظ استعمال کرتے تھے لیکن اس رات ان کا یکا یک پچھلی صفوں سے اُٹھ کر مولانا ظفر علی خاں کے پاس آکر بیٹھ جانا اور ترجمے کے ایک ایک لفظ پر کڑی نگاہ رکھنا کہ آیا اُردو الفاظ انگریزی متن کا صیحح مفہوم ادا کرتے ہیں یا نہیں ، اس بات کا ثبوت تھا کہ انہیں قرار داد کی ترتیب و تدوین میں خاصا دخل تھا ۔

کتاب میں ڈاکٹر مبارک علی ، ڈاکٹر صفدر محمود، مجیب الرحمان شامی ،غافر شہزاد ،مقتدا منصور، اسلم گورداسپوری کے مضامین شامل ہیں۔

نام کتاب: قرار داد لاہور کس نے لکھی

ترتیب: ڈاکٹر مبارک علی

صفحات:160 قیمت :300 روپے

پبلشر: فکشن ہاؤس مزنگ روڈ لاہور ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *