کیا پروفیسرز اچھوت ہیں؟

  • November 11, 2017 2:09 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر محبوب حسین

قوموں کی ترقی میں جونقطہ بنیادی محرک کا کردار ادا کرتا ہے وہ ہے علم، جس کی ترسیل کا آغاز ماں کی گود سے شروع ہو تا ہے، مگر علم کی رسمی تخلیق کا سب سے بڑا ادارہ یونیورسٹی ہوتا ہے۔

آزادی کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والے علاقے میں صرف دو یونیورسٹیاں قائم تھیں ایک مشرقی بنگال( ڈھاکہ) میں اور دوسری مغربی پنجاب (لاہور) میں۔ آج ستر برس گزرنے کے بعد ملک میں109 سرکاری اور75 پرائیویٹ یونیورسٹیاں علم کی تخلیق میں مصروف ہیں۔

سرکاری جامعات کی بڑی تعداد پنجاب سے تعلق رکھتی ہے جہاں چونتیس چھوٹی بڑی سرکاری جامعات ہیں، ان میں سے کئی اہم جامعات ایک طویل عرصے سے مستقل وائس چانسلرز کے بغیر ” چل” رہی ہیں۔ اس میں بد قسمتی سے پنجاب یونیورسٹی بھی شامل ہے جس کے 44 ہزار طلبا و طالبات، 1100 اساتذہ اور تقرئبا چھ ہزار ملازمین گزشتہ 20 مہینوں سے کسی بھی مستقل وائس چانسلر کے منتظر ہیں۔

پنجاب حکومت نے مستقل وائس چانسلرز تقرری کے لیے جو نئی پالیسی مرتب کی ہے اس میں تو اب لگتا ہے کہ پروفیسرز کی چھٹی ہونے لگی ہے اور یہ عہدہ اب بیوروکریسی، ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے نمائندوں کے سُپرد کرنے کا ارادہ ہے۔

صرف یہی نہیں حکومت کیونکہ ہائر ایجوکیشن کے عالمی ضوابط اور مروجہ روایات سے بھی نا واقف ہے لہذا اب اپنے خفیہ مقاصد کی تکمیل کے لیے وائس چانسلر کے عہدے کیلئے پی ایچ ڈی کی لازمی شرط بھی اُڑا دی گئی ہے۔حتیٰ کہ تحقیقی مقالوں کی تعداد بھی کم کر کے 10 کر دی گئی ہے۔

حکومت نے اس پالیسی میں یہ منصوبہ بندی بھی کی ہے کہ پروفیسرز کی بجائے انتظامی تجربہ کو اہمیت دی جارہی ہے اور اس کے لیے اگر ایم اے پاس کی ڈگری کے ساتھ بھی اہل تصور کیے جاسکتے ہیں۔

پہلے تو عالمی اداروں کی نظریں محض ملکی معیشت کو کمزور رکھنے اور معاشی پالیسیوں میں براہ راست مداخلت تک محدود تھیں لیکن اب لگتا ہے کہ ملک کی نسل کے دماغ کو کنٹرول کرنے کے لیے اس کا رُخ پالیسی کے تحت جامعات کی طرف ہے جس کیلئے پنجاب حکومت سپورٹ فراہم کر رہی ہے۔

یہ اچھوتے، انوکھے اور لاڈلے وائس چانسلرز ، وائس چانسلرز تو ہوں گے لیکن پروفیسرز یا پھر ماہر تعلیم نہیں ہوں گے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ سرکار کی جانب سے خود مختار یونیورسٹیوں میں اس حد تک مداخلت ہی سرے سےغلط ہے اور دوسرا یہ کہ یونیورسٹیوں کی پالیسی بنانے کے عشق میں تو سرکار، بیوروکریسی مبتلا ہو جاتی ہے لیکن جو سٹیک ہولڈرز ہیں اُنہیں اچھوت سمجھا جاتا ہے۔

دوسری جانب جب یونیورسٹیوں کو فنڈنگ کرنے کی بات آتی ہے تو آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ صوبے میں نہ تو کوئی ریسرچ پراجیکٹس ملتے ہیں اور نہ ہی حکومت کی ہائر ایجوکیشن کے امور میں معاشی اعتبار سے کوئی سرپرستی نظر آتی ہے۔

اعلیٰ تعلیم سے وابستہ تجربہ کارپروفیسرز سے بہتر کوئی جامعات کے امور نہیں چلا سکتا اور یہ سوچ کہ اساتذہ جامعات نہیں چلا سکتے مارشل لاء دور کی اختراع ھے۔ جب “سوچ” کو قابو کرنے کے لیے کسی سخت گیر کی ضرورت تھی۔ اب حقیقت یہ ہے کہ جہاں جہاں تدریس سے وابستہ افراد وائس چانسلر تعینات کئے گئے ھیں وہاں وہاں وہ بہت اچھی کارکردگی دکھا رہے ھیں۔

کسی کی انفرادی کارکردگی کو تدریس سے وابسطہ افراد کی اجتماعی کارکردگی سے منسوب کرنا مناسب نہیں یہ بلکل اسی طرح ہے جیسے کسی کرپٹ سیاستدان کی وجہ سے تمام سیاستدانوں کو کرپٹ کہنا ناانصافی ھو گی۔

نان ٹیچر وائس چانسلر کی تعیناتی کے حق میں ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ دنیا کی بعض بڑی یونیورسٹیز کے سربراہ سیاست دان ہیں، ان کے لیے جوابی دلیل یہ ہے کہ دنیا کے کئی ممالک کے سربراہان، وزرا، اور اہم پوسٹوں پر تعینات افراد بھی ٹیچرز ہیں مثال کے طور پر امریکہ کے سابق صدر أوباما ھاورڈ یونیورسٹی سے لاٗ کرنے کے بعد بارہ سال تک تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے۔

اسی طرح کینڈا کی واحد خاتون وزیراعظم کم کیمبل تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں، چلی کے سابق صدر لاگوس یونیورسٹی پروفیسر تھے، لبیا کے سابق وزیراعظم عبدالرحیم الکیب انجییرنگ میں پی ایچ ڈی تھے، اور ایسی مثالیں تو بے شمار ہیں کہ یونیورسٹی اساتذہ کو وازرت خارجہ، سمیت اہم قلمدان سونپے گئے ہوں۔

جبکہ پاکستان میں صورتحال یہ ہے کہ بیوروکریسی کچھ عرصے سے اس دھاک میں ہے کہ تعلیمی بورڈز کے چیرمین، کنٹرولر اور یونیورسٹیوں کی وائس چانسلر شپ پر قبضہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی سلطنت کو مزید وسعت دے سکیں اور یہ پراپیگنڈہ بھی انہیں بابوؤں کی اختراع ہے کہ ماسٹرز یونیورسٹیز نہیں چلا سکتے۔

اب حکومت کی تعلیم کو اپنی ترجیح دینے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وائس چانسلر کی تعیناتیکے لیے بنائی جانے والی پالیسی میں میں اس شعبہ سے وابسطہ افراد کو اعتماد میں لیا ہی نہیں گیااور سٹیک ہولڈرزکی رائے کو جانے بغیر فیصلے کیے جا رہیے ہیں ۔

منطقی بات ہے کہ ایک شخص جو تعلیم و تحقیق سے وابسطہ ھی نہیں وہ تعلیم و تحقیق کی ترویج کیسے کر سکتا ھے ویسے بھی لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے میں طے کر دیا گیا ہے کی وائس چانسلرز کی تقرری صوبوں کا اختیار ہے مگر وہ کوئی ضابطہ بنانے کے لیے ایچ ای سی کے طے شدہ معیار سے اوپر تو جا سکتے ہیں مگر اس سے کم نہیں، اس مقصد کے لیے سرچ کمیٹی کے ممبران کو بین الاقوامی ساکھ اور تعلیمی میدان میں خدمات کے اعتراف میں چنا جائے۔

نئی سرچ کیمٹیوں میں بھی جن ناموں کو بطور تجویز پیش کیا گیا ہے اس میں نجی یونیورسٹیز کے نمائندے بھی شامل ہیں لیکن کیا نجی یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز کی تقرری کے لیے سرکاری یونیورسٹیوں کو نمائندگی دی جاتی ہے؟

حکومت اس ہیجانی کیفیت کو جلد از جلد ختم کرکے مستقل وائس چانسلرز تعینات کرے تاکہ علم کی ترویج کے ان مراکز میں غیر یقینی کی فضا کا خاتمہ ہو سکے اور علم کی تخلیق کا عمل پر سکون ماحول میں جاری ہو سکے۔


mehboob hussain final

ڈاکٹر محبوب حسین شعبہ تاریخ، پنجاب یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور فپواسا کے سابق جنرل سیکرٹری رہے ہیں۔

  1. Same condition r prevailing in college sector, instead of facilitating college faculties nd creating opportunities for capable persons to b inducted in the teching cadre and a conducive environment for teaching n learning process that is the only long-term process to progress n prosper, to b strong n respectable nation, hurdles n humiliation are being inflicted… Bureaucracy is not ready to understand

  2. کالج ایجوکیشن تو گزشتہ ۲۰ سال سے نظر انداز ہو رہی تھی اب یونی ورسٹیوں کی گردن دبوچنے کی کوشش بتاتی ہے کہ وطن عزیز کے حکم ران یہاں علم نام کی کوئی چیز دیکھنا نہیں چاہتے۔ جس قوموں کی ترجیح تعلیم نہ رہے ان قوموں کے مستقبل کی ضمانت کوئی نہیں دے سکتا۔

  3. AOA, I am also agree with this idea that Universities VCs should be from teaching community and should be know as good researcher and along with administrative competence even tough publications is not a very strict requirement for this position. I must appreciate the move started by Teachers associations and they should strictly continue and stand for it till achieve the goal.

  4. پاکستان خاص کر پنجاب کے حوالے سے جو جامعات کی صورت حال ہے اس کے حوالے سے ایک جامع تحریر ہے جس میں ان عوامل کا زکر ہے جو علم کی ترویج میں رکاوٹ ہیں۔ عمدہ تحریر

  5. Professors Achoot yaqeenan nahin lekin mamla aisa b nahin k “Daman nachorayan tu Farishtay Wudhu Karain”

  6. ڈاکٹر محبوب حسین صاحب نے ایک اہم مسئلے کی طرف توجہ مبزول کروائ ہے جو کہ تعلیمی نظام پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔ تعلیم کی صورت حال تو پہلے ہی گھمبیر ہے لیکن موجودہ اٹھایا جانے والا اقدام تعلیمی زوال کی ایک نئ داستان رقم کرے گا۔ترقی یافتہ ممالک تو تعلیمی معاملات کو اہم سمجھ کر تعلیم کو عام کرنےکے لیے ایسی پالیسیاں بناتے ہیں جن سے وہ تحقیق کے جدید تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ارتقائی منازل طے ہی نہیں کی جاتی بلکہ امریکہ اور دیگر ممالک کے تو ریاستی ادارے بھی دانش وروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ پاکستان میں جو بھی پالیسیاں بنائ جا رہی ہیں اور تعلیم کے فروغ کے لیے اقدام اٹھائے جا رہے ہیں ان اقدامات سے ملک کئ عشرے پیچھے چلا جائے گا۔ جو قومیں تعلیم کو اہمیت نہیں دیتی وہ اقوام عالم کی ارتقائ رفتار میں صرف پیچھے ہی نہیں رہ جاتی بلکہ صفحہ ہستی سے بھی مٹ جاتی ہیں۔ Kiss the Higher & kick the lower زہنیت رکھنے والے لوگوں کے ہاتھ میں تعلیم کو دے دینا ایک قومی المیہ ہی نہیں بلکہ ایک قومی تعلیمی قحط کو جنم دے گا۔

Leave a Reply to ڈاکٹر ناصر رانا Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *