یو ای ٹی کا نعرہ پڑھو اور پرواز کرو

  • February 23, 2018 3:41 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر رانا تنویرقاسم

پاکستان کے قومی مسائل کا ادراک کرنے کے لیے ہمیں یہاں کے تاریخی سیاسی، معاشی، سماجی اور تعلیمی تسلسل کو سمجھنا ہوگا۔ قوم کی ترقی میں پیدائش علم اور پھر اس کی دوسری قوموں تک ترسیل کے عمل سے ترقی کے نئے راستے کھلتے ہیں۔

پاکستان کا قیام ایک ملت کے نظریے کی بنیاد پر ہوا اور اس میں وحدت پیدا کرنے کا مستقل تصور پیش کیا گیا لیکن اس تصور کو عملی شکل دینے کے لیے اقدامات ہی نہ کیے جاسکے۔ اس کے برعکس یہاں کے
عالموں کو نظر انداز کیا گیا، یہاں خودی کا تصور ختم کیا گیا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ اجتماعی سطح پر سطحی سوچ پروان چڑھی اور قومی عظمت زوال پذیر ہوتی چلی گئی۔

علم کا حصول مشاہدے سے ممکن ہے، یا تو فرد بحثیت خود شعور رکھتا ہو کہ وہ مشاہدہ کر سکے یا پھر بڑے اذہان کے مشاہدوں پر مشتمل علوم کا مطالعہ کیا جائے اور اپنی عقل کی گرہیں کھولی جائیں۔ اب ان علوم کو جاننے اور سیکھنے کا بہترین ذریعہ تعلیمی ادارے اور کتابیں ہیں۔

ہماری جامعات علم کی تخلیق اور پھر اس کی ترسیل کی بنیادی ذمہ دار ہیں، قومی جمود کی اس حالت میں کتاب سے لگاؤ پیدا کرنا ایک مشکل ٹاسک ہے تاہم یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور اس ٹاسک کو نبھا رہی ہے اور رئیس جامعہ کتاب میلہ کی سرپرستی کر کے یہاں کے انجینئر طلباء میں مثبت رجحان پیدا کرنے کی کوشش میں ہیں۔

لازمی پڑھیں؛ بھگت سنگھ انقلابی کتابوں کا رسیا

حالیہ دنوں میں یو ای ٹی کے کتاب میلے کا عنوان ہی پڑھو اور پرواز کرو رکھا گیا، اس عنوان کے تحت طلباء کو میلے میں شریک کرایا گیا، اساتذہ کو بلایا گیا، حتیٰ کہ بیرونی حلقوں کو بھی میلے میں شرکت کی دعوت دی گئیں۔

میکلیگن کالج سے لیکر یو ای ٹی لاہور تک کا سفر ایک صدی پر محیط ہے لیکن کتنی حیران کن بات ہے کہ اس ایک صدی میں یہاں پر صرف چار کتاب میلےمنعقد ہوئے اور وہ موجودہ رئیش جامعہ کی بدولت یہ ممکن ہوا وگرنہ عین ممکن ہے اکیسویں صدی میں بھی یہاں یہ رجحان نہ پایا جاتا۔

لاہور صرف طرز تعمیر کا شاہکار نہیں، کتابوں کی دانش کے فروغ میں بھی شریک ہے۔نیوآڈیٹوریم میں کتابوں کے متلاشیوں کو دیکھ کر یوں محسوس ہورہا تھا کہ یہاں کے لوگوں کو اس کے علاوہ کوئی اور کام نہیں۔ جتنی بڑی تعداد میں یہ میلے اور تعلیمی سرگرمیاں ہوں گی اتنی ہی تیزی سے ہماری سیاسی و سماجی بلوغت کا سفر بھی طے ہوگا۔ سیاست، سماج، سائنس، طب، فلسفہ دنیا کے کسی بھی میدان میں آگے بڑھنے کے لیے زاد راہ کتاب ہی ہے ۔

لوگوں میں اچھی کتب پڑھنے کا ذوق و شوق کا جو سامان ’’کتاب میلے‘‘ کرتے ہیں وہ کسی اور طریقے سے نہیں ہو سکتا۔ کتاب علم کا منبع اور افکار کا خزانہ ہے۔ کتب بینی کا شوق ذہن کو تازگی، روح کو بالیدگی اور خیالات کو توانائی بخشتاہے۔ نسل نو کا کتاب دوستی کی طرف راغب ہونا انتہائی ضروری ہے۔

ضرور پڑھیں؛ کتابوں کی حکومت اور تہذیبی ترقی

طالب علموں کو سماجی اور تہذیبی زندگی کو سمجھنے کیلئے نصابی کتب سے آگے بڑھ کر فکر و آگہی کی پیامبر کتابوں کا مطالعہ بھی کرنا ہو گا۔ کسی بھی قوم کی اجتماعی ترقی اور برتری کا جائزہ لینے کا آسان نسخہ یہی ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس قوم کے افراد کا علم اور کتاب سے کیا تعلق رہا ہے۔ اس سے ناصرف آپ کواس قوم کے حال کا صحیح علم ہو جائے گا بلکہ اس کے ماضی کا اندازہ بھی ہو جائے گا اور آپ اس کے مستقبل کاقیاس بھی کر لیں گے۔

جو اقوام علم اور کتب کے اعتراف عظمت میں بخیل نہیں ہوتیں اور مطالعہ کی عادت اپنا لیتی ہیں وہ زندگی میں فتح و ظفر کی حقدار ہوتی ہیں۔ صدیوں پہلے کے ایک عرب مصنف ’’الجاحظ‘‘ نے ایک پریشان حال شخص کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا:کتاب ایک ایسا دوست ہے جو آپ کی خوشامندانہ تعریف نہیں کرتا اور نہ آپ کو برائی کے راستے پر ڈالتا ہے۔ یہ دوست آپ کو اکتاہٹ میں مبتلا ہونے نہیں دیتا۔ یہ ایک ایسا پڑوسی ہے جو آپ کو کبھی نقصان نہیں پہنچائے گا۔

یہ ایک ایسا واقف کار ہے جو جھوٹ اور منافقت سے آپ سے ناجائز فائدہ اُٹھانے کی کوشش نہیں کرے گا۔مطالعہ سے فصاحت و بلاغت کی صفت پیدا ہو جاتی ہے، ذہن کھلتا ہے اور خیالات میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے، علم میں اضافہ، یادداشت میں وسعت اور معاملہ فہمی میں تیزی آتی ہے۔ صاحب مطالعہ وسروں کے تجربات سے مستفید ہوتا ہے اور بلند پایہ مصنفین کا ذہنی طور پر ہمسفر بن جاتا ہے۔ مطالعہ سے ہی آپ کولکھنا آتا ہے اور جو لوگ پہلے سے لکھنا جانتے ہیں ان کی تحریر میں مزید شگفتگی پیدا ہو جاتی ہے۔

۔ہمارے ملک میں کتب بینی کے فروغ نہ پانے کی وجوہات میں کم شرح خواندگی’ صارفین کی کم قوت خرید’ حصول معلومات کے لئے موبائل’ انٹرنیٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا بڑھتا ہوا استعمال’ اچھی کتابوں کا کم ہوتا ہوا رجحان ،لائبریریوں کیلئے مناسب وسائل کی عدم فراہمی کے علاوہ کتب بینی کے فروغ کی کوششوں کا نہ ہونا بھی شامل ہے۔ اگرچہ جدید ٹیکنالوجی سے تعلیم کی شرح میں اضافہ ضرور ہوا ہے، لیکن اسکی بدولت کتب بینی کی شرح بھی گرگئی ہے۔ کتب میلوں کا انعقاد ٹائون کی سطح پر ہونا چاہیے ۔

جانیے؛ یوای ٹی کے خوش قسمت مُردے

تعلیمی اداروں کے علاوہ سماجی تنظیموں اوراین جی اوز کو بھی کتاب میلوں کا نعقاد کرنا چاہیے ۔ان کتاب میلوں کے موقع پر بک سیلرز اور پبلشرز کتابوں پر زیادہ ڈسکاؤنٹ دے کر اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بہت ساری کتابیں مفت بھی تقسیم کر سکتے ہیں۔

آج بھی اگر ہم ترقی کی شاہراہ پر قدم رکھنا چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ صرف یہ ہے کہ لوگوں میں پڑھنے کی عادت پیدا کریں۔کیونکہ علم کی فصل قلم و کتاب کی جس زمین پر اگتی ہے اسے پڑھنے کا شوق رکھنے والے لوگ سیراب کرتے ہیں۔اورجس معاشرے سے مطالعے کا ذوق اور عادت ختم ہوجائے وہاں علم کی پیداوار بھی ختم ہوجاتی ہے۔

جس قوم میں علم نہ ہو اس کا انجام سوائے مغلوبیت کے کچھ اور نہیں ہوسکتا۔صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن سید علی رضا گیلانی چیئرمین ایچ ای سی پنجاب ڈاکٹر نظام الدین نے یوای ٹی کے کتاب میلے کوسرایا اور بک سٹالز کا وزٹ بھی کیا،انہوں نے کامیاب کتاب میلے کے انعقاد پر وائس چانسلر ڈاکٹر فضل احمد خالد کو مبارک باد پیش کی۔

امسال کتاب میلے میں ہی، کتب بینی، سوشل میڈیا اثرات ونتائج کے عنوان پر ایک مذاکرہ کا بھی اہتمام کیا گیا۔ جس سے معروف صحافیوں اور کالم نگاروںجن میں ایثار رانا، نعیم مسعود، سلمان عابد، اعجاز مہاروی، زبیح اللہ بلگن نے خطاب کیا۔ مذاکرہ کے شرکاء نے اپنے خطابات میں کہا کہ کتب بینی ذہنوں کے دریچے کھولتی ہے کتابوں کا ذکر بھی مطالعہ کی ترغیب کا باعث ہوتا ہے۔ کتب خانے کسی بھی قوم کی شان کے مظہر ہوتے ہیں۔

پورے ملک میں کتب خانے قائم اور آباد کرنا ہو نگے تا کہ ہماری تہذیب کو استحکام حاصل ہو۔ وہی قومیں زندگی کی معراج تک پہنچتی ہیں جن کا تعلق کتاب اور علم سے مضبوط ہوتا ہے۔ کتاب دوست افراد اور اقوام ہی تاریخ عالم میں مہذب قرار پاتے ہیں۔ قوموں کی ترقی کا راز ان کی علمی محبت میں پوشیدہ ہے۔ انفار میشن ٹیکنالوجی کے باعث علمی سائنسی یا سماجی دریافت اور ایجاد لمحوں میں دنیا کے کونے کونے میں پھیل رہی ہیں۔

ضرور پڑھیں؛ ادھی چھٹی ساری؛ گر اُستاد نہ ہوتے تو پکوڑے بیچتے

بدلتے ہوئے اس رحجان کے باوجود سماجی رابطوں نے کتاب کی اہمیت کو کم نہیں کیا اور نہ ہی کتاب کی محبت قارئین کے دلوں سے کم کی جاسکی ہے۔یوای ٹی میں کتاب میلے کاانعقاد خوشگوار روایت ہے۔ مذاکرہ سے وائس چانسلر نے اپنے خطاب میں کہا کہ کتب بینی اور علم دوستی کو بنیاد بنا کر ہی اقوام عالم میں ہم اپنا مقام پیدا کرسکتے ہیں۔

اس طرح کی خوشگوار سرگرمیاں اتحاد، یکجہتی اور امن کے فروغ کا باعث بنتی ہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی فضا میں ہمیں تعمیری غیر نصابی سرگرمیوں کا زیادہ سے زیادہ انعقاد کرنا چاہیے۔تاکہ عدم تحفظ اور خوف کی فضا سے ہم اعتماد کی فضا میں آسکیں۔یوای ٹی ایسے علمی مذاکروں اور ادبی سرگرمیوں کی بھرپور حوصلہ افزائی اور ان کا انعقادکرتی رہے گی تاکہ سٹوڈنٹس کو سیکھنے کا موقع ملے۔

وائس چانسلر ڈاکٹر فضل احمد خالد،چیف لائبریرین ڈاکٹر اعجاز معراج اور انکی ٹیم بھی مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے علم کا یہ خوبصورت بازار سجایا۔ اختتامی تقریب کے موقع پر فٹ بال سٹیڈیم میں طلبہ وطا لبات کی بڑی تعداد نے قندیلیں فضا میں چھوڑیں تو جگمگاتا ہو ا منظر دیکھنے کے قابل تھا ۔ریڈ اینڈ رائز کے تھیم کے ساتھ اس رنگا رنگ تقریب میں طلبہ وطالبات کی بڑ ی تعداد نے شر کت کی۔


tanvir-qasim

رانا تنویر قاسم یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے بطور اُستاد وابستہ ہیں۔ اُنہوں نے اسلامیات کے مضمون میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔وہ مثبت تنقیدی نقطء نظر کو اپنی قوت سمجھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *