ایف سی کالج لاہور: 40 سالہ طلباء سیاست کیسے ختم ہوئی؟

  • March 28, 2017 1:46 am PST
taleemizavia single page

سید بدر سعید

طلبا سیاست ہمیں ڈاکٹر پیٹر ایچ آرماکوسٹ سے بہتر کوئی نہ سمجھا پایا ۔ڈاکٹر پیٹر ڈبل پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور اب پاکستان سے واپس اپنے ملک جا چکے ہیں ۔یہ امریکا میں خوشگوارریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے پوتے پوتیوں کے ہمراہ تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں۔

ڈاکٹر پیٹر جب پاکستان آئے تب ایف سی کالج لاہور جمعیت کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا تھا کالج کے گیٹ سے کیمپس تک دھول اڑتی تھی ۔ ڈاکٹر پیٹر کی بطور ریکٹر آمد کے ساتھ ہی ہنگامے پھوٹ پڑے یہ دو ہزار تین کا دور تھا جب جنرل پرویز مشرف کے دور میں ایف سی کالج کو ڈی نیشنلائزڈ کر دیا گیا تھا۔

ایف سی کالج کو پرائیوٹائز کرتے ہوئے کرسچن کمیونٹی کے حوالے کیا جا رہا تھا اور امریکا کا ایک بورڈآف گورنرز اس کے معاملات دیکھنے لگا تھا ۔ یہاں موجود سینئر سرکاری اساتذہ کی اکثریت اس کالج کی حسین یادیں سمیٹ کر گورنمنٹ کالج منتقل ہو گئی جبکہ چند ایک نے یہیں پڑھانے کا فیصلہ کیا ۔

ان دنوں کالج میں طلبا سیاست کے نام پر میگا فون پر نعرے لگتے تھے۔ ایک روز ڈاکٹر پیٹر نے دیکھا کہ کالج کی گراﺅنڈ میں طلبا اکٹھے ہیں اور نعرے بازی ہو رہی ہے۔اس انگریز استاد نے سوال کیا کہ : یہ کیا ہو رہا ہے؟
بتانے والے نے بتا دیا کہ یہاں طلبا تنظیم کا احتجاج ہے جس میں روایت کے مطابق دیگر کالجز کے طلبا بھی بلائے گئے ہیں اور انہوں نے طلبا کو کلاسز میں جانے سے روک دیا ہے۔

انگریز اسکالر نے بے ساختہ کہا : جو پڑھنے کے لئے فیس دیتے ہیں انہیں کلاسز میں جانے سے کون روک سکتا ہے؟

ڈاکٹر پیٹر نے اس موقع پر براہ راست اپنی سکیورٹی یا عملے کو اس معاملے میں نہیں گھسیٹا بلکہ پنجاب پولیس کی اعلی کمانڈ سے رابطہ کر کے بتایا کہ میرے کالج میں بعض عناصر طلبا کی تعلیم میں رکاوٹ بن رہے ہیں ، انہیں یہاں سے ہٹایا جائے ۔ عینی شاہد کے مطابق کچھ دیر بعد پولیس کی بھاری نفری نے اس گراﺅنڈ کو اپنے گھیرے میں لے لیا اور لاٹھی چارج شروع ہو گیا۔

پڑھیں؛ آئی سی ایس پر حملہ: کیا جمعیت رانگ نمبر ہے؟

اسلامی جمعیت طلباء کے عہدے داران سمیت دیگر طلبابھی گرفتار کر لئے گئے ۔ یہ اس گراﺅنڈ کا آخری احتجاجی جلسہ تھا۔ ڈاکٹر پیٹرنے اپنے ملک کی طرح ہر معاملے میں پولیس کو ہی آگے کیا ۔ کالج میں اپنی طاقت منوانے کے بعد ان کے لئے سب سے بڑا مسئلہ ہاسٹل میں مقیم غیر طلبا عناصر کو ہاسٹل بدر کرنا تھا ۔

انہی دنوں کالج میں چھٹیاں ہوئیں تو ہاسٹل خالی ہو گئے ۔ ڈاکٹر پیٹر نے ایک بار پھر پولیس کی ہائی کمانڈ سے رابطہ کیا اور یہ مسئلہ حل کرنے کی درخواست کی ۔ پولیس آفیشلز نے خالی ہاسٹل کے ہر کمرے میں پولیس نفری تعینات کر دی ۔ چھٹیوں کے بعد ہاسٹل آنے والے جن طلبا کے پاس رہائشی اجازت نامہ نہیں تھا انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔

اس کے بعد سے ایف سی کالج کے نیلا گنبد والے ہاسٹل میں صرف وہی طلبا رہتے ہیں جنہیں ہاسٹل کی سہولت دی گئی ہے ۔یہ ایک غیر ملکی کی جانب سے پنجاب پولیس پر اعتماد کا نتیجہ ہے۔

اصل کہانی اب شروع ہوتی ہے۔ڈاکٹر پیٹرجاننا چاہتے تھے کہ آخر طلباء ان کے خلاف کیوں ہیں اور احتجاجی مظاہرے کیوں کئے جا رہے ہیں۔ انہیں بتایا گیا کہ طلبا کی اکثریت طلبا سیاست کو مستقبل میں کامیابی کا ذریعہ سمجھتی ہے اس روز ڈاکٹر پیٹر نے طلبا کو” طلبا سیاست “ سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔

اب اس بار اُنہوں نے پنجاب پولیس سے رابط کرنے کی بجائے اپنے ملک امریکہ کا راستہ لیا اور بورڈ آف گورنرز سے طلبا کے لئے لاکھوں روپے کا بجٹ منظور کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد انہوں نے کالج میں ایک نئی طلبا سیاست کی بنیاد رکھی ۔ انہوں نے تمام ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹس اور اساتذہ کا اجلاس بلایا اور ڈرامہ ، ڈیبیٹ ، کھیل سمیت ہر مضمون کے نام سے بھی ایک سوسائٹی تشکیل دینے کا حکم دیا۔ اگلے مرحلے میں ایف سی کالج میں کم و بیش دو درجن سوسائٹیز بن گئیں ۔

ان کا اگلا حکم تھا کہ اب ممبرشپ کیمپ لگایا جائے اور ہر طالب علم کو یہ اجازت ہے کہ وہ ایک یا ساری سوسائٹیز کی ممبر شپ لے سکتا ہے لیکن وہ جس سوسائٹی کی ممبر شپ لے گا اسے صرف اس کا الیکشن لڑنے یا ووٹ دینے کی اجازت ہو گی ۔ کالج انتطامیہ کی جانب سے ہر سوسائٹی کو ممبر شپ کیمپ لگوا کر دیا گیا ۔

ہر سوسائٹی کے ایڈوائزر کے طور پر اسی شعبہ کا پروفیسر منتخب ہوا ۔ اس سسٹم کے تحت طلبا میں الیکشن ہوئے اور طلبا لیڈرز کی ایک بڑی کھیپ سامنے آ گئی ۔ اب ڈاکٹر پیٹر نے تمام سوسائٹیز کی باڈیز کو ایک سال کا بجٹ تیار کرنے کا کہا ۔ ایک سال میں وہ اپنی سوسائٹی سے متعلق جو پروگرام منعقد کروانا چاہتے تھے ان کی فہرست اور تخمینہ کا حساب لگایا گیا ۔

جانیئے؛ بریڈ لا ہال انقلابی تحریکوں سے نیشنل کالج لاہور تک

اگلے مرحلے میں پارلیمانی بجٹ کی طرز پر ایک مباحثے کا اہتمام کیا گیا، انہوں نے صاف بتایا کہ اس سال ہمارے پاس 12 لاکھ کا بجٹ ہے ۔ تمام سوسائٹیز اپنا اپنا بجٹ پیش کریں گی اور باقی سوسائٹیز کے راہنما اس بجٹ کو کم کرنے کے لئے دلائل دیں گے ۔ ایک بینر اگر 500 میں بنتا ہے لیکن کوئی اور یہی بینر 300 میں بنوا سکتا ہے تو وہ 200 روپے اس بجٹ سے کٹوا سکتا ہے ۔

اس بحث کے نتیجے میں12 لاکھ روپے کا سالانہ بجٹ ہر سوسائٹی میں اس کی ضروریات کے مطابق تقسیم ہو گیا ۔ اب اس دانشور نے ایک اور اعلان کیا کہ سب نے اپنا اپنا بجٹ ایک سال میں ختم کرنا ہے ورنہ اگلے سال اس سوسائٹی کابجٹ کم کر دیا جائے گا ۔

دوسرا اعلان یہ ہوا کہ رقم کسی کو براہ راست نہیں دی جائے گی لیکن انتظامی معاملات براہ راست طلبا کے ہاتھ میں ہوں گے وہ ہر پروگرام کے بعد اس کی رسیدیں اکاﺅنٹ آفس میں جمع کروا کر مطلوبہ رقم حاصل کر سکیں گے ۔

ایف سی کالج میں اب جمعیت یا کوئی اور قابل قدر طلبا تنظیم نہیں ہے لیکن ہر سال اس کالج (جواب یونیورسٹٰی بن چکی ہے) سے لگ بھگ 25 سے زائد سوسائیٹیز کے بینر تلے لگ بھگ ڈیڑھ سو سٹوڈنٹ لیڈرزسامنے آتے ہیں ۔ یہاں الیکشن مہم سے لے کر بجٹ پیش کرنے تک کی عملی تربیت دی جاتی ہے ۔

مقابلے کی اس فضا میں ہر سوسائٹی نے ہر ماہ کم از کم دو پروگرامز کا انعقاد کرنا ہوتا ہے ،اس لئے ایف سی کالج کے ہالز میں ہر روز کم از کم دو تین پروگرامز جاری رہتے ہیں ۔ یہ وہ طلبا سیاست تھی جس نے ایف سی کالج کے طالب علموں کو فساد کی بجائے حقیقی لیڈر شپ سکھائی۔

ڈاکٹر پیٹر آرماکوسٹ دو ہزار تین سے لے کر دو ہزار پندرہ تک ایف سی کالج میں بطور ریکٹر تعینات رہے اور اس دوران اُنہوں نے ایف سی کالج کو نئی پہچان دی جہاں کے اب بہترین تعلیمی ماحول کی لاہور میں مثالیں دی جاتی ہیں۔

اگلے روز جامعہ پنجاب میں اسلامی جمعیت طلباء اور پشتون طلباء کے درمیان ہونے والے تصادم کی خبروں سے ایک بار پھر ڈاکٹر پیٹر ایچ آرماکوسٹ یاد آئے ۔ ٹی وی چینلز پر سی سی پی او امین وینس اور ڈی آئی جی حیدر اشرف سمیت دیگر پولیس افسران طلبا سے مذاکرات کرتے نظر آئے ۔

یہ وہ آفیسرز ہیں جن کا ٹریک ریکارڈ بتاتا ہے کہ مشکل سے مشکل حالات کو کنٹرول کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور کئی باراپنی قابلیت منوا چکے ہیں ۔ سوچتا ہوں کہ پولیس کے ہاتھ باندھ کر انہیں طلبا کے نام پر چند غنڈوں سے مذاکرات کا کہہ کر ہم کس کلچر کو پروان چڑھا رہے ہیں ؟

کیا ایسی مشقوں سے ہم طلبا کو ان کے اصل راستے سے ہٹا نہیں رہے ۔ ماضی میں اسی کلچر نے ہمیں ایسے سٹوڈنٹس لیڈر فراہم کئے جو نہ قانون کو تسلیم کرتے تھے اور نہ ہی ریاست کی رٹ مانتے تھے ۔

یہ ساری کھیپ اعلی عہدوں اور کامیاب زندگی کی بجائے سیاست دانوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بعدپولیس مقابلوں اور ذاتی دشمنیوں میں ماری گئی ۔ آج آپ مذاکرات کے نام پر ان طلبا کے دل سے فورس کا رعب ختم کریں گے تو کل یہی لوگ مقابلے میں مارے جانے والوں کے نقش قدم پر چلتے ملیں گے ۔

ہمیں اب فیصلہ کرنا ہے ہم اپنے بچوں کے لئے کیسا ماحول چاہتے ہیں ۔ ان طالب علموں کو طالبان نہ بنائیں ۔ دو گروپوں کی لڑائی میں پولیس کے کاندھے پر مذاکرات کی پستول رکھ کر نہیں چلائی جاتی ۔ مذاکرات یونی ورسٹی انتظامیہ یا سول انتظامیہ کرتی ہے اور ان کی ناکامی کے بعد پولیس کو مکمل اختیارات دے کرریاست کی رٹ قائم کرنے بھیجا جاتا ہے۔

ہم پولیس کو برا بھلا تو کہتے ہیں لیکن ایسے معاملات میں خود ہی اس کے ہاتھ بھی باندھ دیتے ہیں ۔ آج ایک بار پولیس کو اختیارات دے دیئے گئے تو یقینا مستقبل میں ایک اچھا ماحول ہمارے بچوں کا منتظر ہو گا ۔ یاد آتا ہے کہ ایم اے او کالج میں بھی پولیس کو اختیار دیا گیا تھا ۔ آج وہ کالج طلبا سیاست کے نام پر ہونے والی غنڈہ گردی سے پاک ہو چکا ہے ۔


syed badar saeed

سید بدر سعید ایم فل کے طالبعلم ہیں، وہ رپورٹنگ، ایڈیٹنگ، ریڈیو پاکستان اور نجی ٹی وی چینلز کیلئے سکرپٹ رائٹنگ بھی کرتے ہیں۔ وہ خود کُش بمبار ک تعاقب میں، صحافت کی مختصر تاریخ، قوانین و ضابط اخلاق کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *