شوکت تھانوی کا “روزہ چور” پر مضمون

  • June 13, 2017 10:40 pm PST
taleemizavia single page

بات صرف اتنی تھی کہ روزہ نہیں رکھا تھا۔ بتنگڑ یہ بنا کہ جس کو دیکھیے جواب طلب کر رکھا ہے۔ کمرے میں چھپے ہوئے سگریٹ پی رہے تھے کہ نجمہ آموجود ہوئیں۔

ارے یہ کیا دُلھا بھائی؟ سگریٹ؟ روزہ نہیں رکھا آپ نے؟ کیوں طبیعت کیسی ہے”؟

عرض کیا: “رات بھر بخار رہا ہے اس وقت بھی سر میں درد ہے، جسم ٹوٹ رہا ہے”۔ان کا کمرے سے جانا تھا کہ تیمار داروں، عیادت کرنے والوں اور طبی مشورے دینے والوں کی ریل پیل شروع ہوگئی۔ سب سے پہلے خوش دامن صاحبہ، خوش کم دامن زیادہ، چہرے سے رمضان شریف برساتی تشریف لے آئیں۔

اے مجھے تو ابھی نجمہ سے معلوم ہوا کہ دور پار دشمنوں کی طبعیت پھر بے مزہ ہے، آکر بات کیا ہے۔نہایت ادب سے عرض کیا؛ “جی ہاں معدے میں گڑ بڑ ہے، ہاضمے کی شکایت معلوم ہوتی ہے۔ نہایت شفقت سے بولا؛ اے تو بیٹا سکنجبین، سونف، پودینے کا عرق ہی لیتے یا کہو تو ادرک کی بوتل منگا دوں”۔

خدا خدا کر کے وہ بھی تشریف لے گئیں اور ہم نے اپنی اس عقل مندی پر غور کرنا شروع کر دیا کہ معدے کی شکایت نا حق بتائی۔ وہ تو کہیے کہ بیچاری اس عمر میں بھی کم سے کم اپنی بیٹیوں کے مقابلے میں نہایت بھولی ہیں۔ ورنہ کہہ سکتی تھیں کہ معدے کی گڑ بڑ کے لیے تو روزہ اور بھی مفید ہے۔ دوسرے اس کا نتیجہ ایک یہ ہوسکتا ہے کہ کھانا نہ ملے اور خواہ مخواہ کا روزہ ہوجائے۔

لیجئے خسر صاحب قبلہ کو بھی خبر ہو ہی گئی۔ تسبیح گھماتے تشریف لائے۔ “خیریت تو ہے۔ آخر واقعہ کیا ہے؟ یہ دراصل نتیجہ ہے کھانے کا کوئی وقت مقرر نہ ہونے کا۔ دن کا کھانا کبھی دو بجے کھاتے ہو، کبھی تین بجے۔ رات کا کھانا آدھی رات کو ہوتا ہے یہ سخت مہمل ہے، مگر شکایت کیا ہے”۔

عرض کیا؛ ” کچھ اختلاج قلب کی سی کیفیت ہے اور بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے”۔ یہ بے چارے ویسے تو بڑی سوجھ بوجھ کے بزرگ ہیں۔ مگر ان بیماریوں سے بہت گھبراتے ہیں جن کے نام انگریزی میں کسی سے سن لیں۔ مثلا معیادی بخار کو تو خاطر میں نہیں لاتے البتہ اگر ٹائی فائیڈ کہہ دیجئے تو وضو کر کے فورا نماز پڑھنے کھڑے ہو جائیں گے۔

خسر صاحب کی پریشانی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ خاندان بھر میں کھلبلی مچ جاتی ہے ان کے پریشان ہونے سے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ اب ایک سے ایک سسرالی عزیز چلا آرہا ہے۔ سب سے پہلے رشتے کی سالی آئیں جن کے ساتھ پہلے ہماری نسبت طے ہو چکی تھی۔ مگر خدا نے بال بال بچا لیا۔ ورنہ آج ہم بھی ان کے میاں کی طرح ان کی ڈیڑھ درجن بچوں کے باپ ہوتے۔ تشریف لاتے ہی وہی سوال؛

کیسی طبیعت ہے؟ مجھے تو ابھی معلوم ہوا۔عرض کیا؛ کچھ درد قولنج کے آثار ہیں۔ حیرت سے بولیں؛ درد قولنج؟ یہ کیا ہوتا ہے بھلا۔ عرض کیا؛ یہ ایک قسم کا درد ہوتا ہے جو بائیں کنپٹی سے اُٹھ کر داہنے پیر کے گٹھنے تک جاتا ہے اور پھر انسان ذرا مر جاتا ہے۔

آنکھیں نکال کر بولیں؛ اُوئی اللہ نہ کرے، گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ان شاء اللہ ٹھیک ہوجائے گا، میں خالد کے ابا سے کوئی دوا پوچھ کر لکھ بھیجوں گی۔

خالد کے ابا یعنی ان کے شوہر جو مویشیوں کے نہایت مشہور ڈاکٹر ہیں اور مقامی گھوڑا ہسپتال کے آج کل انچارج ہیں اور گھوڑے ان کے بے حد معتقد ہیں۔

ان کے تشریف لے جانے کے بعد بیگم صاحبہ کے ایک ماموں تشریف لائے۔ آپ نہایت پہنچے ہوئے بزرگوں میں سمجھے جاتے تھے۔ جھاڑ پھونک، گنڈے تعویز کا گویا کاروبار کرتے ہیں آدمی ہیں بڑے نظر باز۔ ایک ہی نظر میں پہچان گئے یہ کوئی بیماری نہیں بلکہ سایہ ہے کسی کا۔ فورا ایک سفید مرغ منگا کر ذبح کیا۔ اس کے خون سے تعویز لکھ کر ہمارے بازو پر باندھ دیا۔ اور اب شروع کیے سوالات۔

اپنے تعویز کا اثر دیکھنے کے لیے۔ کہیے برخوردار اب کیا حال ہے درد کا۔ عرض کیا؛ کچھ عجیب سا معلوم ہورہا ہے اب۔ پہلے جہاں درد تھا وہاں معلوم ہوتا ہے مینڈک کے چھوٹے چھوٹے بچے پھدک رہے ہیں۔ خوش ہوکر بولے؛ ٹھیک ہے بالکل ٹھیک ایسا ہی ہوتا ہے۔

پھر کچھ پڑھ کر پھونکنے کے بعد پوچھا؛ اچھااب کیا معلوم ہورہا ہے۔ عرض کیا؛ اب تو کچھ اور ہی کیفیت ہے، معلوم ہوتا ہے جیسے مینڈک کے یہ سب بچے ایک دم سے ٹائپسٹ ہو گئے ہیں اور اندر ہی اندر کچھ ٹائپ کر رہے ہیں۔ کہنے لگے؛ میرا مطلب یہ ہے کہ درد تو نہیں ہے اب؟

اور ہم کو خیال آیا کہ اگر درد سے انکار کر دیا تو کل روزہ رکھنا ہی پڑے گا۔ لہذا عرض کیا؛ وہاں تو نہیں ہے مگر جا بجا ہورہا ہے۔ بزرگ محترم نے اطمینان دلایا کہ وہ بھی جاتا رہے گا اور کچھ مزید احتیاطیں گھر والوں کو بتا کر تشریف لے گئے۔

ایک دو ہوں تو ذکر کیا ہے۔ سُسرال واقع ہوئی ہے ماشاء اللہ نہایت زرخیز، ایک تانتا بندھ کر رہ گیا پوچھنے والوں کا۔ کسی سے کہا فائیلیریا ہو گیا ہے، کسی کو بتایا عرق النساء ہے۔ کسی کو درد گردہ بتا دیا تو کسی سے کہہ دیا ڈنگو فیور ہے۔ ہم اپنے نزدیک ٹال رہے تھے اور وہاں تمام پریشانیاں جمع ہوتی جارہی تھیں۔

ان تمام پریشانیوں کا اندازہ ہم کو اُس وقت ہوا جب خسر صاحب محترم نے گھر میں نعرہ بلند کیا؛ ارے بھئی پردہ کر لو۔ حکیم صاحب اور ڈاکٹر صاحب دونوں اتفاق سے آگئے۔ اور ہم نے کلمہ شہادت پڑھا شروع کر دیا کہ اب مارے گئے بے موت۔ خدا جانے یہ لوگ کیا مرض تجویز کر دیں گے اور ہم کو کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

بستر کے ایک طرف حکیم صاحب بیٹھ گئے اور دوسری طرف ڈاکٹر صاحب اور ہم ان دو شاطروں کے بیچ میں شطرنجی بنے پڑے رہے۔ خسر صاحب نے فرمایا؛ قبلہ حکیم صاحب اور ڈاکٹر صاحب، اب آپ دونوں ان کو اچھی طرح دیکھ لیجئے۔ کل تک بالکل اچھے تھے۔ آج صبح سے یکایک طبیعت خراب ہوگئی۔

حکیم صاحب نے نبض ہاتھ میں لے کر آنکھیں بند کر لیں تاکہ بے حد سمجھدار سمجھے جائیں اور ڈاکٹر صاحب نے جیب سے نکالا وہی آلہ جس سے ڈاکٹر صاحبان اپنے سائن بورڈ کا کام بھی لیتے ہیں۔

حکیم صاحب نے آنکھ کھولی اور دوسری نبض تھام کر فرمایا؛ رات کیا کھایا تھا آپ نے؟ عرض کیا؛ چلغوزے۔

ڈاکٹر صاحب نے آلہ کان سے نکال کر فرمایا؛ کیا کہا آپ نے کیا کھایا تھا ؟ عرض کیا؛ چھولے۔ حکیم صاحب نے اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا چلغوزوں سے کیا مطلب ہے۔ عرض کیا ایک درخت ہوتا ہے نا جس کو چیل کہتے ہیں اس کے پھل کو چلغوزہ کہتے ہیں۔

حکیم صاحب نے فرمایا؛ وہ تو سمجھا، مگر رات آپ نے صرف چلغوزے کھائے؟ ڈاکٹر صاحب نے حیرت سے کہا؛ چلغوزے یا چھولے؟ ہم نے معصومیت سے کہا؛ جی ہاں۔

خسر صاحب نے کہا جی ہاں سے کیا مطلب برخوردار من سوال یہ ہے کہ چھولے کھائے تھے یا چلغوزے؟ حکیم صاحب نے بڑے بقراط نما انداز سے کہا؛ یہ نہایت اہم سوال ہے۔ چلغوزون کا فعل دوسرا ہے چھولے کا قطعا دوسرا۔ اگر یہ چھولے کا فساد ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ معدے پر بار پڑا ہے اور اگر چلغوزے کا سبب ہے تو گویا ان کے اعصاب میں حدت بڑھ گئی ہے۔

ڈاکٹر صاحب نے فرمایا؛ میرا خیال یہ ہے کہ ان کے پیٹ میں پھوڑا ہے۔ ذرا اس طرف دیکھیے حکیم صاحب جگر کے نیچے۔ حکیم صاحب نے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر آٹا گوندھتے ہوئے کہا؛ مجھ کو آپ کی رائے سے اتفاق نہیں ہے۔ یہ سختی دراصل ورم کی ہے ان کی آنتوں کی ورم ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا؛ میں مانتا ہوں کہ ورم ہے مگر اس ورم پر مواد پڑ گیا ہے۔

اب حکیم صاحب کا بھی اخلاقی فرض تھا کہ وہ بھی ڈاکٹر صاحب کی تائید کرتے۔ لہذا گردن ہلا کر بولے؛ جی ہاں، جی ہاں یہ ممکن ہے کہ ورم میں مواد پڑ گیا ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے فاتحانہ تبسم سے فرمایا؛ اسی کو ہمارے یہاں پھوڑا کہتے ہیں۔ بہرحال میری رائے یہ ہے کہ اس تمام خیال سے پہلے ان کو ایک انجکشن تو دے ہی دوں تاکہ پھوڑے میں مواد زہریلا نہ ہونے پائے۔

حکیم صاحب نے سوچا کہ ان کی بلا سے۔ بڑی فراخ دلی سے بولے؛ کیا مضائقہ ہے۔

اب بتائیے کہ ہم کیا کرتے؛ آمادہ بقتل من آں شوخ ستمگارے اور لطف یہ کہ ناکردہ گنہگارے۔ کاش اب بھی کہہ سکتے کہ صاحب واقعہ اتنا ہے کہ روزہ نہیں رکھا باقی ہمہ نیرنگی باقی ہمہ افسانہ۔ مگر ڈاکٹر صاحب ایک لمبی سی سوئی لگی پچکاری میں دوا بھر رہے تھے اور یہ سوئی ہمارے بازو میں تیرنے والی تھی۔

جی چاہا کہ قہقہ مار کر اُٹھ بیٹھیں کہ ہم تو مذاق کر رہے تھے۔ مگر ڈر تھا کہ اس کے بعد بجائے انجکشن کے کہیں آپریشن نہ طے ہو جائے اسی وقت۔ گویم آپریشن وگرنہ گویم انجکشن۔ دل نےکہا کہ برخوردار یہ نتیجہ ہے رمضان میں جھوٹ بولنے اور روزہ چوری کرنے کا۔ اب بھگتو، خود کردہ را علاجے نیست، اور واقعی بھگتنا پڑا۔ حکیم صاحب نے فارسی میں اور ڈاکٹر صاحب نے انگریزی میں نسخے لکھے حالانکہ پاکستان کی قومی زبان اُردو طے پا چکی ہے دونوں نے مل کر پرہیز تجویز کیا۔

ڈاکٹر صاحب نے فرمایا؛ ان کو صرف آش جواور دودھ میں ملا کر سوڈا دیجیئے۔ حکیم صاحب نے فرمایا؛ معاف کیجئے گا ڈاکٹر صاحب میرے خیال میں آش جو اور دودھ سوڈا دونوں ورم میں اضافہ کا سبب ہوں گے۔ ان کو صرف عرق بادیان اور وہ بھی نیم گرم کر کے دینا چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا؛ خیر وہی سہی میرا مطلب تو یہ ہے کہ غذا بالکل نہ ہو۔

حکیم صاحب کو پانچ کا اور ڈاکٹر صاحب کو دس کا نوٹ ملا۔ ان دونوں نے خسر صاحب کو بے حد اطممینان دلا دیا کہ کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔ البتہ مریض کو ذرا نقل و حرکت سے روکا جائے۔

ٹریجڈی اب یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ ان معالجوں کے جانے سے بعد گھر میں شروع ہوگئی وہی چہل پہل جو رمضان میں افطار کا وقت آنے کے موقع پر ہوا کرتی ہے کہ کہیں تو فالسے نچوڑے جارہے ہیں، شربت کے لیے۔ کہیں دہی بڑے پلیٹوں میں سجائے جارہے ہیں۔

انواع و اقسام کے پکوانوں کی خوشبو انجکشن کی سوئی سے بھی زیادہ ہمارے لیے تکلیف دہ بن گئی۔ مگر مجبور تھے کیا کرتے نہایت سخت پہرہ۔ ذرا سی جنبش کا ارادہ کیا اور سب دوڑے سہارا دینے۔ کیلے کے کچالو، پھلکیاں، اور پکوڑے سب ہی کچھ تو تھا مگر ہم نے تو وہ روزہ رکھا تھا جس کے افطار کا کوئی تعین ہی نہ تھا۔

خدا خدا کر کے اذان ہوئی۔ سب بھرا مار کر دوسرے کمرے میں افطاری پر جا ٹوٹے۔ صرف شریک حیات کی افطاری اسی کمرے میں آگئی۔ مگر ان کو بھی افطار کے بعد نماز تو پڑھنا ہی تھی۔ پھر یہ کہ ہم کو بھی دیکھا کہ کچھ سو گئے ہیں۔ لہذا چپکے سے اُٹھیں نماز پڑھنے۔ مگر اب جو واپس آکر حال پوچھتی ہیں تو ہم چُپ اور چُپ نہ رہتے تو کرتے کیا۔ ایک مسلم گلاب جامن منھ میں تھی تاکہ دہی بڑوں سے جو مرچیں لگی تھیں وہ دب جائیں۔ نتیجہ یہ کہ

واں لب پہ لاکھ لاکھ سخن اضطراب میں
یاں ایک خامشی میری سب کے جواب میں


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *