نوآبادیاتی دور میں کرائے کی فوج

  • January 5, 2017 10:29 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر جہانگیر ستی

ایک ایسی فوج جو مقامی لوگوں کے مقابلے میں فاتح قوم کے مفادات کے تحفظ کیلئے وجود میں آئی ہو یقینی طور پر غداروں پر مشتمل اور ان کا مرکب ہوگی۔ برطانوی نوآبادکار برصغیر کو لوٹنے کیلئے آئے تھے اور انہوں نے یہاں کے لوگوں کے مابین اختلافات اور اس خطے کے بے پناہ وسائل کا بڑی ہنر مندی سے استحصال کیا۔

برطانوی حکومت نے کس طرح نسل پرستی، جو اُنہوں نے خود پیدا کی، ذات، مذہب اور علاقائیت کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کیا اور جب یہ خطہ چھوڑا تو یہ سماجی طور پر انتشار اور تقسیم کا شکار ہوچکا تھا۔

نوآبادیاتی فوج کی بنیادیں سے متعلق چارلس ٹرنچ اپنی کتاب “ہندوستانی فوج اور تاج برطانیہ کے دُشمن” کے دیباچہ میں لکھتا ہے کہ یہ تاریخ گواہ ہے کہ برطانوی ہند کے بارے میں اس کے افسروں اور جوانوں کے بارے میں امن اور جنگ کے دوران، فتح و شکست کے دوران جو گذشتہ چالیس سالوں پر محیط ہے یہ کرایہ پر لڑنے والوں کی فوج تھی جو محض تنخواہ پر نہیں بلکہ اس جھوٹے وقار کے لیے بھی، جو ہندوستان میں کرایہ پر لڑنے والے پروفیشن یعنی پیشہ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لوگ اسی لیے فوج میں ملازمت کرتے تھے یہ لوگ چار بڑے مذاہب اور بیسیوں نسلوں سے تعلق رکھتے تھے جن کی درجنوں زبانیں تھیں اور جنہیں رجمنٹوں کی سانجھ اور افسروں کے اثر و رسوخ نے ایک لڑی میں پرو رکھا تھا جو پہلے پہل سب برطانوی تھے لیکن جن میں آہستہ آہستہ ہندوستانی بھی شامل ہوگئے۔ یہ دُنیا کی سب سے بڑی رضا کار فوج تھی جس میں ایک سپاہی بھی لازمی سروس کے تحت فوج میں نہیں آیا تھا۔

برطانوی حکومت نے 1878ء میں ایک کمیشن قائم کیا جسے شملہ آرمی کمیشن اور عدن کمیٹی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کمیٹی کے اغراض و مقاصد یہ تھے یہ ایسی راہیں تلاش کی جائیں جن کے ذریعے سے ایک تو فوجی اخراجات کم کیے جائیں اور دوسرا جنگی لحاظ سے ہندوستانی فوج کی اہلیت اور صلاحیت میں اضافہ کیا جائے۔ اس کمیٹی کے فیصلوں کے نتیجہ میں 1886ء کے دوران ایک ہندوستانی “ریزرو فوج” قائم کی گئی جس کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے؛

اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہندوستان میں ریزرو فوج کے قیام سے ہندوستانی فوج کی جارحانہ اور دفاعی قوتوں میں بے حد اضافہ ہوگا۔

برطانوی سامراج کو اس کرائے پر لڑنے والی فوج پر بڑا بھروسہ تھا اس لیے انڈین آرمی کے بارے میں فیلڈ مارشل سالم کہتا ہے ؛

کہ 1943ء کے بعد میرے ہندوستانی ڈویژن دُنیا کی بہترین فوج پر مشتمل تھے وہ ہر جگہ جاتے ہیں، ہر کام کرتے ہیں اور مسلسل کرتے رہتے ہیں اور بہت ہی کم معاوضہ پر کرتے ہیں۔

یہ دُنیا کی واحد فوج تھی جس کے مادر وطن کی آزادی کے لیے کبھی بھی اپنے آقاؤں کے خلاف بغاوت نہیں کی حالانکہ برطانوی سامراج نے ہندوستان میں ہندوستانیوں کے خلاف ایک سو گیارہ لڑائیاں لڑیں۔ جو سب کی سب برطانیہ نے جیت لیں۔ اس صورتحال کا درد ناک پہلو یہ ہے کہ یہ تمام جنگیں ہندوستانی سپاہیوں اور ہندوستانی روپیہ سے لڑی گئیں۔

دراصل ایک ایسی سرزمین جو توہم پرستی اور قبائلی عصبیت کا شکار تھی اسے کم سے کم ذہانت کے ذریعے بھی کنٹرول کیا جاسکتا تھا علاوہ ازیں برعظیم پاک وہند لگ بھگ پانچ سو باسٹھ ریاستوں پر مشتمل تھا چنانچہ قبیلے، مذاہب اور زبانوں کے متنوع اور اختلاف کے باعث نوآبادکاروں کے لیے یہ بہت آسان تھا کہ وہ ایک قبیلے کو دوسرے قبیلے، ایک مذہب کو دوسرے مذہب اور ایک زبان کو دوسری زبان کے خلاف استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کر سکتے تھے۔

ہندوستانی فوج میں دو بڑے طبقات تھے۔ آفیسرز اور دوسرے لوگ یعنی سپاہی وغیرہ۔ بیسوویں صدی کی ابتداء سے پہلے آفیسرز مکمل طور پر یورپین تھے اس وجہ سے ان دونوں طبقات کے مابین ابلاغ کا مسئلہ بہت سنگین صورتحال سے دوچار تھا۔ برطانوی آتھ ہزار میل دور سے اس خطے کو باقاعدہ اور باضابط طور پر لوٹنے کے لیے آئے تھے۔ اس لیے اُنہوں نے ضرورت محسوس کی کہ وہ فوج میں ایک نیا عہدہ یعنی کلاس متعارف کریں جسے پہلے وائسرائے کمشنڈ آفیسرز کہا جاتا تھا اور اب جونئیر کمشنڈ آفیسر کہا جاتا ہے۔

ان میں سب سے نچلا رینک جمعدار یعنی فراش ہوتا تھا جسے اب نائب صوبیدار کہتے ہیں اور دوسرے دو رینک صوبیدار اور صوبیدار میجر ہوتے تھے جو اب بھی اسی طرح ہیں۔ یہ وہ اہم لوگ تھے جو نچلے عہدوں پر کنٹرول کرتے تھے اور غلامی کے دور کو طوالت بخشتے تھے وہ سپاہیوں میں خوف و ہراس پیدا کر کے ان کی فرمانبرداری اور غلامی کو بھی یقینی بناتے تھے۔

ہندوستان میں انگریزی فوج کی پہلی یونٹ بمبئی میں کھڑی کی گئی۔ 1668ء میں برطانیہ کی شاہی فوج کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی تحویل میں سورت تبدیل کیا گیا جو کمپنی کا ہیڈ کوارٹر تھا یہ ابتدائی فوج (یونٹؕ) پانچ افسروں، 139 نان کمیشنڈ افسروں، پچاس ٹوپاسوں جو پرتگالیوں اور ہندوستانیوں کے مخلوط خون کے حامل تھے، پر مشتمل تھی۔

ہندوستان سے عملی طور پر رابط صرف سمندر کے ذریعے ممکن تھا عام نوآبادکاروں کی خواہش اور کوشش یہ ہوتی تھی کہ وہ جنوب پر قبضہ کر کے اس کی مدد سے شمال پر قابض ہوں۔ برطانیہ نے بھی یہی کیا چونکہ کاروبار کے راستے جنوب میں واقع تھے اس لیے جنوبی ہند کے لوگوں کو زیادہ عرصہ تک نوآبادیاتی کرایہ دار فوج کی حیثیت سے رکھنا زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا تھا۔ چنانچہ برطانیہ نے شمال کو فتح کرنے کے بعد شمالی ہند کی فوج تیار کی اور اس کے ذریعے جنوب اور باقی ہندوستان کو غلام بنایا۔

سب سے پہلے نوآبادیاتی کرایہ کی فوج جسے سپاہی اور “سپاہی کور” کہا جاتا تھا یورپی نمونہ پر منظم کی گئی تھی اور اسے مسٹر ایم ڈوماس نے پانڈی چری میں منظم کیا تھا جو پانچ ہزار مقامی لوگوں اور بارہ سو یورپین پر مشتمل تھی۔ ان کرایہ کے سپاہیوں نے کرناٹک کے نواب کی فوجوں سے جنگ کی اور انہیں دو نومبر 1748ء کو شکست دی۔

ابتدائی طور پر کمپنی نے تین مختلف جگہوں پر اپنی فوج منظم کی۔ 1748ء سے اس فوج کی مرکزیت اور تنظیم کا کام شروع ہوا جب میجر سٹرنگر لارنس کو تینوں پریذیڈنسیز کی فوجوں کا کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا۔ برطانیہ اور فرانس کی فوجوں کے مابین ہندوستان میں بار بار تجاری جنگیں لڑی گئیں۔ اس وقت برعظیم میں صرف یہی فوجیں اپنے مالکوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے برسر پیکار تھیں اور جنگ پلاسی نے ہندوستان میں انگریزی راج کا دروازہ کھول دیا۔

اکتوبر 1756ء کے وسط مین تقریبا چھ سو پچاس یورپین، گیارہ سو ہندوستانی مدراس سے روانہ ہوئے۔ برطانوی سامراج نے کئی اہم آدمیوں کو خرید کر سراج الدولہ کی فوج میں “بھگوڑے پن” کی حوصلہ افزائی کی جب کہ برطانوی کنٹرول میں فوج کی کُل تعداد تین ہزار ایک سو تھی جن میں آٹھ سو یورپین، دو سو ٹوپاسے اور اکیس سو جوان تھے اور ان سب کا کمانڈر کرنل کلائیو تھا۔ نواب کی فوج میں پینتیس ہزار انفنٹری، پندرہ ہزار سوار، تریپن توپیں اور چالیس پچاس کے قریب فرانسیسی تھے۔ اور اگر اس روز ہندوستان میں غدار نہ ہوتے تو برطانیہ کی حکومت کبھی بھی ہندوستان میں قائم نہ ہوسکتی تھی۔

اس جنگ میں سراج الدولہ کا سب سے قابل اعتماد جنریل میر مدن تھا جو اس جنگ کے شروع میں ہی مارا گیا تھا اس کے بعد نواب سراج الدولہ نے میر جعفر کے پاؤں میں اپنی پگڑی پھینک کر کہا کہ ” جعفر اس پگڑی کی حفاظت کرنا ہوگی” جعفر نے اس کی حُرمت کی قسم کھائی لیکن فوری طور پ کلائیو کو مکتوب تحریر کیا کہ حالات منصوبہ بندی کے عین مطابق جارہے ہیں۔ میر جعفر جو نواب سراج الدولہ کا چچا اور کا سپہ سالار بھی تھا سب سے بڑا غدار نکلا۔ اس جنگ میں شکست ہونے کے بعد برطانوی سامراج نے جنگی قیدیوں کو بلیک ہولز یعنی تاریک کوٹھڑیوں میں رکھا جہاں ان کی بڑی تعداد موت کے مُنہ میں چلی گئی۔

سراج الدولہ کی شکست کے بعد انگریز اس خطہ میں ناقابل تسخیر ہوگیا۔ گویا انہوں نے اپنی فوج میں توسیع کی اور اس کرایہ کی فوج سے سخت سلوک کرنا شروع کیا۔ 1770ء تک مقدمہ چلائے بغیر سپاہیوں کو کوڑے مارے جانے کی سزا دی جاتی رہی۔ 1776ء میں تین پونڈ کی دو توپیں فوج کے ھوالے کی گئیں اور ڈائریکٹرز کی عدالت نے یہ حکم جاری کیا کہ ہندوستانیوں کو توپ خانے کے علم سے جس قدر ہوسکے دور رکھا جائے۔

برطانوی سامراج نے 1805ء میں فوج کا تناسب اس حد تک بڑھا لیا تھا کہ بنگال میں سات ہزار یورپین اور ستاون ہزار سپاہی، مدراس میں گیارہ ہزار یورپین اور تریپن ہزار سپاہی اور بمبئی میں چھ ہزار پانچ سو یورپین اور بیس ہزار سپاہی کی تعداد تھی۔

اسی طرح 1833ء میں فوج کا بجٹ 80 لاکھ سٹرلنگ پاؤنڈ تھا جبکہ 1853ء میں یہی بجٹ بڑھ کر ایک کروڑ بیس لاکھ سٹرلنگ پاؤنڈ ہوگیا۔ یہ ساری رقم ہندوستان سے لوٹی جارہی تھی دوسری عالمی جنگ ک اختتام پر ہندوستانی افواج کی تعداد بیس لاکھ تک پہنچ چکی تھی۔

اکتوبر 1918ء تک ہندوستان کی تیرہ لاکھ افراد پر مشتمل فوج برطانیہ کے کنٹرول میں تھی جس میں سے ایک لاکھ سے زائد فوجی پہلی جنگ عظیم میں برطانیہ کے لیے لڑتے ہوئے مر گئے۔

دوسری جنگ عظیم تک تو ہندوستانی حبشہ، ایران، افغانستان، برما، ملایا، چین، روس، جرمنی، اٹلی اور لیبیا وغیرہ میں بھی لڑتے رہے۔ آج یورپ بالخصوص برطانیہ یورپی سپاہیوں کے کارناموں پر تو فخر کرتا ہے لیکن ہندوستانی سپاہیوں کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *