پنجاب میں کیمونٹی کالج پر اساتذہ کی سازشی تھیوریز

  • October 1, 2016 2:26 pm PST
taleemizavia single page

عثمان ابراہیم

گزشتہ دنوں پنجاب ہائر ایجوکیشن کا اشتہار نظروں سے گزرا جس میں اطلاع دی گئی کہ صوبے کے چار سرکاری کالجوں میں دو سالہ بی اے ڈگری پروگرام سمیسٹر سسٹم میں تبدیل کیا جارہا ہے۔

اس پروگرام کی نگرانی پی ایچ ای سی خود کرے گی۔ جن کالجوں میں یہ پروگرام شروع ہورہا ہے انہیں کیمونٹی کالج کا نام دیا گیا ہے۔

پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اس سال مارچ میں اس پراجیکٹ کا اعلان کیا تھا اور بتایا تھا کہ امریکن انسٹیٹیوٹ آف پاکستان اسٹڈیز کے تعاون سے یہ پروگرام شروع کیا جائے گا۔

فی الحال یہ ایک پائلٹ پراجیکٹ ہے جو گورنمنٹ کالج ٹاؤن شپ لاہور، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین ماڈل ٹاؤن گوجرانوالہ، گورنمنٹ کالج سول لائنز ملتان، گورنمنٹ کالج برائے خواتین کارخانہ بازار فیصل آباد شامل ہیں۔

اس پروگرام کو شروع کرنے کا مقصد انٹرمیڈیٹ کی تعلیم کے بعد نوجوانوں کو پروفیشنل یعنی پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرنے کی طرف راغب کرنا ہے۔

تاکہ اگر وہ چودہ سالہ تعلیم کے بعد ،ماسٹرز کیے بغیر ہی مارکیٹ میں نوکری حاصل کرنے کے لیے جانا چاہیں تو ان
کے پاس ایک پروفیشنل ڈگری ہو۔ اگر پڑھائی جاری رکھنا چاہیں تو بی ایس کے پانچویں سیمسٹر یا ایم اے /ایم ایس سی کے پہلے سال میں داخلہ بھی لے سکیں گے۔

پنجاب ہائر ایجوکشن کمیشن اب دو سالہ بی اے اور دو سالہ ایم اے ختم کر کے بی ایس آنرز کو ہی مستقل بنیادوں پر جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہےتا کہ ہمارا تعلیمی نظام جدیدعصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکے۔

تعلیمی جدت کا یہ تصور پنجاب نے باہر سے امپورٹ کیا ہے حالانکہ امریکہ کینیڈا اور آسٹریلیا جیسے ترقی یافتہ ممالک میں یہ تصور خاصا پرانا ہے۔

کیمونٹی کالج بنیادی طور پر معاشرے سے بے روزگاری کا خاتمہ کرنے میں معاون ہوتے ہیں اور تعلیم یافتہ افرادی قوت بھی مارکیٹ میں میسر آتی ہے۔

پاکستان میں کیمونٹی کالج کا تصور بالکل نیا ہے ابھی اس تصور سے لوگوں کو شناسائی نہیں ہے۔ اس لیے اب سازشی تھیوریز جنم لے رہی ہیں۔

پہلے مرحلے میں ان سرکاری کالجوں کے اساتذہ نے نئی سازشی تھیوری پر بحث شروع کی ہے۔ کسی زبان پر امریکی سازش اٹکی ہے تو کوئی اسے ہمارے کلچر پر حملہ تصور کرنے کا منصوبہ قرار دیتا ہے۔

بحثیت اُستاد مجھے بھی ایسے اساتذہ کے ساتھ براہ راست بات چیت کا موقع ملا ہے جو سوچتے ہیں کہ انٹرمیڈیٹ کے بعد مخلوط تعلیم ممکن ہوگی یعنی لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ پڑھیں گے۔

اب سماجی بے راہ روی، یکے از عریانی و فحاشی کو بھی فروغ ملے گا۔

حالانکہ اب بھی پنجاب کے 26 سرکاری کالجوں میں چار سالہ بی ایس آنرز ڈگری چھ سال سے جاری ہے تاہم وہاں سے کوئی بے راہ روی کے واقعات رپورٹ نہیں ہورہے۔ تو پھر یہ مفروضہ یا سازشی تھیوری کی پشت پر کونسے محرکات ہوسکتے ہیں؟

روایتی بی اے تو دراصل فارغ اوقات کی ڈگری کا نام ہے، پرائیویٹ امتحان بھیجو، پرچوں سے چند روز پہلے رٹا لگاؤ اور پھر پیپرز دے دو۔

اس دو سالہ بی اے ڈگری کے ختم ہونے سے اُن اساتذہ کی نوکریاں ختم ہونے کا اندیشہ ہے جو سمیسٹر سسٹم میں فٹ نہیں ہوں گے۔ ویسے بھی بی اے کے سالانہ نتائج کچھ تسلی بخش نہیں ہیں ہر سال ستر ہزار سے زائد بچے فیل ہوجاتے ہیں۔

بی اے میں پرائیویٹ کے ساتھ ساتھ سرکاری کالجوں کے طلباء کو گھیر گھار کر داخلہ دیا جاتا ہے، پھر دو سال طلباء اساتذہ اور اساتذہ طلباء کے نخرے برداشت کرتے ہیں اور جب نتیجہ آتا ہے تو پھر مایوسی کے سواء کچھ نہیں ملتا۔

اب جن کالجوں کو کیمونٹی کالج کا درجہ دیا گیا ہے یہاں کے اساتذہ کو سنجیدہ مسئلہ درپیش ہے کہ سال میں گرمیوں کی دو مہینے پندرہ دن کی چھٹیاں کم ہوکر تیس دن کی رہ جائیں گی۔

گویا سمیسٹر سسٹم ہونے کی وجہ سے کئی سالوں کے تیار کردہ نوٹس بھی ردی ہوجائیں گے اب نئے سرے سے محنت کرنا ان کے لیے قدرے مشکل کام ہے۔

جو اساتذہ ان کیمونٹی کالج کی مخالفت کی مہم چلانے کی کوشش میں ہیں وہ محنت سے چوری کرنے کے عادی ہوچکے ہیں۔

کیونکہ اب نیا نصاب موصول ہوگا، اس نصاب کو طلباء کو پڑھانے سے پہلے خود پڑھنا پڑے گا جو جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

ان روایت پرست اساتذہ کی تو ذہن سازی اسی نقطے پر کی گئی ہے کہ وہ ایک ہی سرکاری کالج میں تعینات ہوں اور وہیں پڑھاتے پڑھاتے اللہ کو پیارے ہوجائیں۔

کیمونٹی کالج سستی تعلیم کا متبادل ذریعہ ہیں جو سماج کے اُن طلباء کے لیے مفید ثابت ہوگا جو جو کھمبیوں کی طرح اُگی پرائیویٹ یونیورسٹی میں مہنگی تعلیم برداشت نہیں کرسکتے۔

چند روز قبل ایک پریشان حال باپ اپنی دو بیٹیوں کو لے کر میرے پاس کالج کچھ معلومات لینے کے لیے آیا۔ تعلیمی اخراجات بتائے، دو سالہ بی اے ڈگری سمیسٹر سسٹم کی افادیت بتائی تو خوشی اُس باپ کی آنکھیں چمک گئیں۔

اس شخص نے مجھ سے مطمئن ہوکر کہا کہ ابھی سرکاری یونیورسٹی سے آرہا ہوں وہاں کی فیس اور اس کالج کی فیس میں دس گنا فرق ہے۔

میرے مشاہدے میں ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیاں کمرہ جماعت کی خوبصورتی پر زیادہ دھیان دیتی ہیں اُن کے نزدیک معیار تعلیم اچھے اساتذہ، اچھی لائبریریز اور معیاری کتابوں کا محتاج نہیں ہوتا بلکہ اس کے لیے کارپوریٹ کلچر بھر پور ہونا ضروری ہے۔

ان پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں طلباء بھاری فیسوں کے عوض داخلہ لیتے ہیں لیکن چند مہینوں بعد راز کھلتا ہے کہ اس پروگرام کی تو ہائر ایجوکیشن کمیشن نے منظوری ہی نہیں دے رکھی۔

یہ سچ ہے کہ سرکاری کالجوں میں بجلی چلی جائے تو کاپی کو ہی پنکھا بنا لیا جاتا ہے اور یہی پنکھا جھلتے جھلتے ہمیں کلاس پڑھانا ہوتی ہے اس جیسے دیگر مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔

سازشی تھیوریز پر مباحثے کرنے والے اساتذہ یہ دلیل بھی پیش کر رہے ہیں کہ کیمونٹی کالج کے اقدام سے بہتر تھا کہ چک جھمرہ کے سرکاری سکول کی حالت بہتر بنائی جاتی، حکومت فتیانہ میں موجود ہائر سکینڈری سکول کو کالج کا درجہ دے دیتی یا پہلے سرکاری کالجوں کی بنیادی ضروریات پوری کر لیتی۔

لیکن ہم مباحثہ کرنے سے پہلے بھول جاتے ہیں کہ ضروریات اور سہولیات میں فرق ہے جن سرکاری کالجوں کو پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن نے منتخب کیا ہے وہ دیگر کالجوں سے قدرے بہتر ہیں۔

جن اساتذہ کو کیمونٹی کالج کے ایجنڈے پر اعتراضات ہیں وہ ان پر روایتی دلیل کی بجائے تعلیمی نقطء نظر کے تحت گفتگو کریں تو بہت سی گتھیاں سلجھ جائیں گی۔ اور ویسے بھی سرکاری نوکری عیاشی کے لیے نہیں ہوتی بلکہ اس کا مقصد غریب عوام کی خدمت کرنا ہے۔

اُٹھو، وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو، زمانہ چال قیامت کی چلے گا


usman

عثمان ابراہیم نے پنجاب یونیورسٹی سے علوم ابلاغیات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور لاہور کے سرکاری کالج میں بطور اُستاد تعینات ہیں۔

  1. مصنف نے اس مضمون میں جن سازشی تھیوریز کا ذکر کیا ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سرکاری کالجوں کے تمام اساتذہ کی ذہنیت ایسی نہیں ہے جیسا مصنف نے بیان کی ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *