وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کی جمعیت کے ساتھ خفیہ ڈیل

  • January 8, 2017 5:54 pm PST
taleemizavia single page

لاہور

پنجاب یونیورسٹی لاہور میں عدالت کے تعینات کردہ عبوری وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین نے ہنگامہ آرائیوں، توڑ پھوڑ، پتھراؤ، طلباء پر تشدد کے واقعات میں ملوث میں اسلامی جمعیت طلباء کے کارکنوں کے خلاف کارروائی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

لاہور کے تھانہ مسلم ٹاؤن کی پولیس نے یونیورسٹی میں بد امنی پھیلانے والے طلباء پر درج مقدمات اور دسمبر میں ہاسٹل نمبر ایک میں توڑ پھوڑ کرنے میں ملوث سترہ طلباء کے خلاف کارروائی کے لیے رپورٹ وائس چانسلر کو جمع کرادی ہے۔

اس رپورٹ میں وائس چانسلر کو سفارش کی گئی ہے کہ ہنگامہ آرائی اور یونیورسٹی کے پُرامن ماحول کو خراب کرنے میں ملوث ان سترہ طلباء کی ہاسٹل الاٹمنٹ کینسل کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ڈسپلنری کارروائی کے ذریعے انہیں یونیورسٹی سے بھی خارج کیا جائے۔

پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین نے بذریعہ نوٹیفکیشن حکم جاری کیا ہے کہ ہنگامہ آرائیوں میں ملوث اسلامی جمعیت طلباء کے کارکنوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جائے گی اور ہاسٹلز سپریٹنڈنٹس، وارڈنز کو بھی حکم جاری کیا ہے کہ ہاسٹل میں جمعیت کے کارکنوں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہ لائی جائے۔

رجسٹرار پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر لیاقت علی کی جانب سے جاری کردہ اس نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سابقہ انتظامیہ نے جو تیس دسمبر 2016ء کو ہاسٹل نمبر ایک میں توڑ پھوڑ میں ملوث جمعیت کے کارکنوں کے خلاف درخواست جمع کرائی تھی اُسے بھی منسوخ کیا جاتا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے اس حکم کے بعد اسلامی جمعیت طلباء نے نیو کیمپس کے ہاسٹلز اور شعبہ جات کی دیواروں پر تنظیمی پوسٹرز اور جمعیت کے نشان کی مہریں لگا دی ہیں۔ جمعیت نے مارکیٹ میں موجود دُکانوں اور کنٹینوں پر اپنی جاری کردہ ریٹ لسٹ بھی آویزاں کر دی ہیں اور انتظامیہ کی رٹ کو چیلنج کردیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ پنجاب یونیورسٹی میں گارڈز اور جمعیت کے درمیان تصادم

یونیورسٹی میں اہم ترین عہدہ پر تعینات انتظامی افسر نے تعلیمی زاویہ کو بتایا ہے کہ اسلامی جمعیت طلباء کے ساتھ وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین نے خصوصی ملاقاتیں کیں ہیں اور ان ملاقاتوں میں یہ طے کیا گیا ہے کہ انتظامیہ جمعیت کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائے گی اور جواب میں جمعیت انتظامیہ کے خلاف کوئی مظاہرہ بھی نہیں کرے گی، اُنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعیت کے ساتھ اس خفیہ ڈیل میں وائس چانسلر نے یونیورسٹی کے اساتذہ کو اعتماد میں نہیں لیا۔

تھانہ مسلم ٹاؤن کی جانب سے جو رپورٹ وائس چانسلر کو جمع کرائی گئی ہے اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اُسامہ نصیر، عمیر اشرف، احمد رضا، عبد العزیز، بہرام سعید، عبد الصمد، تنزیل الرحمن، عمر خالد، اُسامہ اعجاز، زاہدحسین، رب نواز، صداقت علی، راؤ ذیشان، عبد الماجد، تصور عباس کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

تھانہ میں درج مقدمات، ایف آئی آرز اور انویسٹی گیشن کے بعد پولیس نے جنید شاہد سکھیرا، عبد المقیت، عبد الکریم، معاذ اکرم، وقاص، ضیاء الرحمن، عمر حافظ رضوان، توقیر احمد، عمر ارشاد، گل زیب اور مظہر جنید کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔

وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین ناصر نے وارڈنز اور سپریٹنڈنٹس کو یہ بھی ہدایات جاری کی ہیں ہاسٹل میں رہائش پذیر غیر متعلقہ افراد کے خلاف بھی وہ براہ راست کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔

vc-pu-notification

پنجاب یونیورسٹی کے سینئر ترین پروفیسر نے تعلیمی زاویہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نئے وائس چانسلر کی جمعیت دوست پالیسی کی وجہ سے انتظامیہ کی رٹ چیلنج ہونے کا اندیشہ ہے اور اساتذہ، طلباء پر تشدد کے واقعات بھی رونما ہوسکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وائس چانسلر کو انتظامی پالیسی بناتے وقت اساتذہ کو اعتماد میں لینا چاہیے، اساتذہ کو بائی پاس کرنے سے یونیورسٹی کی رٹ کو تیسری قوت چیلنج کرے گی جس کا عملی نمونہ یونیورسٹی میں جگہ جگہ جمعیت کے پوسٹرز لگنے سے واضح ہوگیا ہے۔

یونیورسٹی کے اساتذہ کا یہ بھی موقف ہے کہ ظفر معین آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے پراجیکٹس پر سات سال تک کام کرتے رہے ہیں اور وہ پنجاب یونیورسٹی سے متعلقہ اپنی پالیسیوں کی وجہ سے نقصان پہنچا سکتے ہیں جس پر حکومت کو نوٹس لینا چاہیے۔

پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان خرم شہزاد سے جب موقف لینے کے لیے رابط کیا گیا تو وہ کہتے ہیں کہ انتظامیہ نے محاذ آرائی سے بچنے کے لیے جمعیت کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اور اس حوالے سے باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری ہوا ہے۔


  1. مختصر یہ کہ غنڈہ راج پھر سے نافذ کردیا گیا اور اب اسکے بدلے اپنے اپنے مفادات حاصل کرنے کیلئے طلباء کو جمیعت جیسے غنڈوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دئیے گیے اب پھر سے ہر روز لڑکیاں بے عزت اور بلیک میل ہونگی اور لڑکوں کو ریمانڈ

    ر ومز میں لے جاکر مارا جائگا

Leave a Reply to احمد ذولفقار Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *