نیا وزیر اعظم! امریکی گریجویٹ ہے

  • August 3, 2017 9:24 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر محمد عثمان اعوان

ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے جو برطانیہ اور امریکہ سے تعلیم یافتہ تھے اوروہ اپنی اس اعلیٰ تعلیم کی بناءپر برجستہ انگریزی بولنے پر مہارت رکھتے تھے جس کا مظاہرہ اُنہوں نے متعدد بار اقوام متحدہ میں بھی کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنی موت کے چالیس سال بعد بھی عوامی دلوں میں زندہ ہیں۔

آج چالیس سال بعد ایک نومنتخب وزیر اعظم بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے جس نے کیلیفورنیا یونیورسٹی امریکہ سے ڈگری حاصل کی ہے۔شاہد خاقان عباسی کا موازنہ کسی بھی صورت ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ممکن نہیں ہے لیکن صرف تعلیم کے اعتبار سے تذکرہ ضرور کیا جاسکتا ہے۔

شاہد خاقان نے مسلم لیگ نواز کا وہی چار سال پرانا وعدہ دہرایا جس میں پاکستان کی ہائر ایجوکیشن پر توجہ اور ملک کو نالج اکانومی کی طرف لے کر جانا ہے۔ چار سالوں میں پاکستان نالج اکانومی تو نہیں بن سکا البتہ اتنا ضرور ہوا کہ ٹیلی کیمونیکیشن کمپنیوں کا منافع بڑھانے کے لیے تھرڈ جنریشن اور فورتھ جنریشن ٹیکنالوجی ضرور متعارف کرا دی گئی لیکن حکومت کی توجہ تعمیرات کے میگا پراجیکٹس اور توانائی بحران کے گرد ہی گھومتی رہی۔

مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت کے دور میں یونیورسٹیز مسلسل زوال کی طرف ہیں اور سرکاری اداروں کے درمیان سرد جنگ عروج پر ہے۔پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کیا کردار ہوگا ہائر ایجوکیشن کمیشن کا اب کیا کردار ہے؟

یونیورسٹیاں کس کی مانیں صوبے کی یا پھر وفاق کی؟ یہ سنگین مسئلہ آج تک مشترکہ مفادات کونسل کو سپرد ہے جسے حل کرنے کے لیے حکومت نے کوئی اقدام تک نہیں اُٹھایا۔ حتیٰ کہ پنجاب میں بھی مسلم لیگ نواز کی حکومت ہے اور یہاں کی سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز کے عہدے خالی پڑے ہیں اور عدالتی حکم کے باوجود کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

لاہور ہائیکورٹ نے تو اپریل کے مہینے میں وائس چانسلر تقرری کیس میں یہاں تک فیصلہ سنا دیا کہ ایچ ای سی کوئی بھی پالیسی ساز فیصلہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بغیر نافذ نہیں کرسکتی اب عدالت نے ایچ ای سی کے ہاتھ باندھے یا پھر پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن کے ہاتھ کاٹے یہ تو وقت بتائے گا۔

اگر اجلاس ہوبھی جائے تو مشترکہ مفادات کونسل میں تو صرف سیاسی یا پھر معاشی نوعیت کے فیصلے ہی زیر بحث رہتے ہیں تعلیمی امور تو بس ایجنڈا آئٹم میں آخری سطر میں ہوتے ہوں گے تعلیمی معاملات میں مشترکہ مفادات کونسل عضو معطل ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا کیلفیورنیا یونیورسٹی کا گریجویٹ اپنے ویژن کی بنیاد پر ہائر ایجوکیشن کے مسائل پر توجہ دینے میں کامیاب ہوگا یا پھر ماضی کے وزراءاعظم کی طرح سیاسی شعلہ بیانیوں اور سیاست بچانے پر مبنی پالیسیوں کو آگے بڑھائے گا۔

حکومت اب مزید گھن چکر میں نظر آتی ہے ایک طرف آئندہ الیکشن کی تیاری، دوسری طرف این اے ایک سو بیس میں شہباز شریف کا ایم این اے کا الیکشن لڑنے کی تیاری اور پھر اس سب سے بڑھ کر نیب میں دائر ہونے والے نئے ریفرنسز کا سامنا ۔ اب حالات کس رُخ جائیں گے یہ تو سیاسی پنڈت ہی بہتر بتا سکتے ہیں مجھے تو صرف اعلیٰ تعلیم کی فکرمندی ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن نے کوالٹی کے نام پر تحقیقی جرائد کو معطل کرنے کا فیصلہ کر ڈالا ہے جس پر اساتذہ برادری پریشان تو ہے لیکن اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیے تاحال کوئی ٹھوس منصوبہ بندی تشکیل نہیں ہوسکی۔

پرویز ہود بھائی کا تو خیال ہے کہ اب تحقیقی مقالوں کی اشاعت کا کاروبار بند کر کے اساتذہ صرف کلاس روم پر توجہ دیں تاکہ معیار تعلیم بڑھ سکے اب اگر کوئی اُستاد کلاس روم پر توجہ مرکوز کرتا ہے تو پھر وہ پرموشن کے مروجہ سسٹم کے تحت ترقی کیسے حاصل کرے؟

تحقیق کے اس سنگین مسئلے سے نکلنے کے لیے انتہا پسند سوچ کی بجائے اعتدال پر مبنی سوچ اپنانا ہوگی۔ حقائق کی بنیاد پر اگر اساتذہ بھی تجزیہ کریں تو یہ حقیقت ہے کہ مقامی جرائد میں تعلقات، سفارش اور ذاتی پسند کی بناءپر ریسرچ پیپرز کی اشاعت ہوتی ہے اور متعدد مقالہ جات کی کوالٹی پر تو ویسے بھی بے شمار سوالات قائم ہیں۔

جامعات کے اساتذہ اور جامعات کو درپیش مسائل صرف اسی صورت میں حل ہوسکتے ہیں اگر حکومت اور متعلقہ ادارے ایک متفقہ پالیسی مرتب کریں اور پھر اس پالیسی کی تیاری میں اساتذہ، ماہرین تعلیم اور حکومتی عہدیدار کی آراءمشترکہ طور پر شامل ہوں۔

پاکستان ٹیکنالوجی کے شعبے سے لے کر عمرانی سائنسی علوم کے شعبوں تک پسماندگی کا شکار ہے اور اس کی یہ پسماندگی بنیادی طور پر ماضی کی تمام حکومتوں کی نا اہلی اور تعلیم دُشمن پالیسیوں کی وجہ سے ہے۔ اس پسماندگی سے نکلنے کے لیے صرف یہی اُمید کی جاسکتی ہے کہ شاید، شاہد عباسی کیلیفورنیا سے گریجویٹ ہونے کا ویژن کم مدت میں ہی اعلیٰ تعلیمی اداروں میں منتقل کردیں چاہے اس کا تعلق صرف سوچ کی حد تک ہی کیوں نہ ہو۔


Snap1

ڈاکٹر عثمان اعوان پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف کوالٹی اینڈ ٹیکنالوجی مینجمنٹ کے اُستاد ہیں۔

  1. Very comprehensive and objective analysis. Dr. Usman Awan your writing is very convincing. All universities shall be made into undependent entities, they shall choose their own administrative and management. The academia and administration shall be separated. One person cannot be made responsible for academia, hiring and firing, management and even other day to day affairs, developmental activities, budgeting and finance.
    Quality standards and SOPs shall be developed for every department of administration and management, while each faculty shall have its own Quality monitoring section. This is the only way that we can up lift our universities to compete globally and improve our ranking.
    For getting promotion, research papers are published by tons in journals that are managed by the faculty members privately. Hefty amounts are paid for getting papers published written jointly by sometimes more than seven authors each one taking its advantage for promotion.
    This has led to further deterioration of our academic standards.
    Dr. Usman Awan I am sure you will lead and help to bring about a positive change.

  2. The governments which are unable to solve sanitory system in cities; how those govs can plan for improvements in higher education system.

Leave a Reply to Naheed Ghazanfar Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *