متحدہ عرب امارات: 20 ہزار پاکستانی بچے سکولوں سے باہر

  • January 16, 2017 11:08 pm PST
taleemizavia single page

دی نیشنل نیوز پیپر/ویب ڈیسک

متحدہ عرب امارات میں بیس ہزار پاکستانی بچے تعلیم حاصل نہیں کر رہے، کیمونٹی گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ سکولوں کی تعداد کم ہونے کی بناء پر یہ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔

پاکستانی ایسوسی ایشن دُبئی خوفزدہ ہے کہ تیرہ کیمونٹی سکولوں میں گنجائش کم ہونے کے باعث رواں سال اپریل میں داخلے بھی کم کیے جائیں گے۔

دی نیشنل اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان ایسوسی ایشن دُبئی کے عہدیدار ڈاکٹر فیصل اکرام کا کہنا ہے کہ کیمونٹی سکولوں کی تعداد کم ہونے کے باعث یہ مسئلہ شدت اختیار کر رہا ہے اور والدین کی اکثریت مہنگی تعلیم کے باعث اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولوں میں نہیں بھیج سکتے جبکہ کیمونٹی سکولوں میں مزید داخلوں کی گنجائش نہیں ہے۔

پاکستان ایسوسی ایشن دُبئی سکولوں سے باہر بچوں کے اعداد وشمار جمع کرنے کے لیے سروے بھی کر رہی ہے تاکہ اس مسئلے کو حل کرنے کی حکمت عملی بنائی جاسکے تاہم اس ایسوسی ایشن کو اندیشہ ہے کہ تعداد بیس ہزار سے بھی زائد ہوسکتی ہے۔ یہ اعداد وشمار سابق پاکستانی سفیر نے فراہم کیے ہیں۔

شارجہ میں پاکستانی کیمونٹی سکول کے پرنسپل انجم نصیر کے مطابق یہ صورتحال ہر سال کشیدہ ہوتی چلی جارہی ہے اور پاکستانی کیمونٹی کو اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے تاکہ بچے تعلیم سے محروم نہ رہیں۔

انجم نصیر کہتے ہیں کہ اُن کے سکول میں داخل بچوں کی تعداد دو ہزار ہے اور ہر سال اوسطا چار سو داخلہ فارم مسترد کیے جاتے ہیں اس سال بھی ہمیں داخلے مسترد کرنا پڑیں گے۔ انجم نصیر کا کہنا ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ بچوں کو داخلہ دینے کو تیار ہیں لیکن قوانین کے مطابق ایک کلاس میں تیس سے زائد بچے نہیں ہوسکتے۔

انجم نصیر کے مطابق کیمونٹی سکولوں میں فیس انتہائی کم ہے جو کہ تین سو سے چار سو درہم تک ہے اور یہ فیس والدین آسانی سے برداشت کر لیتے ہیں۔

جن بچوں کو کیمونٹی سکولز میں داخلے نہیں ملتے وہ تعلیم مہنگی ہونے کی بناء پر اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکولز نہیں بھیجتے۔

پاکستان ایسوسی ایشن دُبئی کی ایجوکیشن سیکرٹری ثمینہ ناصر کہتی ہیں کہ شارجہ میں پاکستانی بچوں کے لیے تین کیمونٹی سکولز، دبُئی میں دو، فوجائرا میں ایک، العین میں ایک، دو اجمان اور تین ابوظہبی میں کیمونٹی سکولز ہیں۔

ثمینہ ناصر کے مطابق کم از کم دس مزید سکولوں کی ضرورت ہے جہاں پاکستانی کیمونٹی کے بچے تعلیم حاصل کر سکیں۔ وہ کہتی ہیں کہ متحدہ عرب امارات میں اوسطا ایک خاندان چار سے پانچ بچوں پر مشتمل ہے اور والدین لڑکیوں کی نسبت لڑکوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *