پاکستان تحریک انصاف کا الیکشن پر 22 نکاتی تعلیمی منشور

  • July 9, 2018 10:57 pm PST
taleemizavia single page

رپورٹ: آمنہ مسعود

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میریٹ میں منشور 2018ء کا اعلان کیا اور اس پر باقاعدہ طور پر میڈیا بریفنگ دی۔ عمران خان نے اپنے اس منشور میں معاشی اصلاحاتی پروگرامز سے لے کر صحت و تعلیم کے لیے بھی منصوبہ بندی کا خاکہ پیش کیا ہے۔

پی ٹی آئی نے اپنے منشور میں لکھا ہے کہ پاکستان میں دو کروڑ بیس لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں، جن کو سکول تک رسائی ہے وہ اپنی عمر اور گریڈ کے لحاظ سے تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ سرکاری سکولوں کا نظام وسائل کی کمی کا شکار ہے اور اس نظام کی راہ میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، اعلیٰ تعلیمی سطح پر تحقیق کا حجم اور معیار محدود ہے اور یونیورسٹی انتظامیہ مستقل سیاسی دباؤ رہتا ہے۔ بائیس نکات پر مشتمل تعلیمی منشور ملاحظہ کیجئیے؛

پہلا: ہیومین کیپٹل ڈویلپمنٹ کے لیے قومی وزارت یا کمیشن تشکیل دیا جائے گا جس کا کام تعلیم کے مختلف شعبوں میں ملکی اور غیر ملکی افرادی قوت کی کمی یا زیادتی اور ضروریات کا جائزہ لینا ہوگا۔ لیبر مارکیٹ کے رائج طریقوں اور ضروریات کے ماطبق نصاب کا سالانہ جائزہ لیا جائے گا ہر سال نیشنل ہیومن ڈویلپلنٹ سٹرٹیجی تشکیل دی جائے گی جس کا مقصد پیشہ وارانہ یا تکنیکی تعلیم کے نئے شعبوں کے لیے رسد کی تجویز کرنا ہوگا۔

دوسرا: تعلیمی معیار کے لیے قومی کمیشن بنایا جائے گا جو 6 ماہ کے اندر کم از کم معیارات کی نظر ثانی شدہ فہرست جاری کرے گا اور یہ ہی کمیشن تکنیکی مشاورت اور قومی مذاکرات میں رہنمائی بھی دے گا۔ اس قومی کمیشن کے ذمہ تعلیم کی ہر سطح پر زبانوں کی تدریس سے متعلق پالیسی کی منظوری دینا بھی شامل ہوگا۔

تیسرا: کم فیس والے نجی سکولوں کو واؤچر اور کیمونیٹیز میں طلباء کو پڑھانے کے لیے تعلیم یافتہ نوجوان طبقے کی کریڈٹ تک رسائی کے ذریعے ترقی پذیر دُنیا کا سب سے بڑا بپلک پرائیویٹ پارٹنر شپ منصوبہ شروع کیا جائے گا۔

چوتھا: دور دراز علاقوں میں تعلیم تک رسائی کے لیے نوجوان کاروباری طبقے کیلئے ایجوکیشن فنڈ قائم کیا جائے گا جس کا مقصد ٹیکنالوجی اور کیمونیکیشن پر مبنی سلوشنز تیار کرنا ہوگا۔

پانچواں: سہولیات کی فراہمی اور بچوں کودوستانہ ماحول مہیا کرنے کے لیے سرکاری سکولوں میں کم از کم معیارات کو مقرر کیا جائے گا۔

چھٹا: ملکی سطح پر خواندگی پروگرام شروع کیا جائے جس کے تحت 50 ہزار نوجوان رضا کاروں کو یونیورسٹی میں مفت تعلیم کے بدلے تعلیم دینے کا پروگرام شروع کیا جائے گا۔

ساتواں: پبلک سیکٹر میں قابل اساتذہ کوچز لانے کے لیے پروگرام شروع کریں گے۔

آٹھواں: بڑے پیمانے پر ٹیچر سرٹیفکیٹس پروگرام شروع کیا جائے گا

نوواں: ملک کے جن علاقوں میں شرح خواندگی زیادہ ہے، وہاں ہر سال لڑکیوں کے سکولوں کو سیکنڈری کی سطح پر اپ گریڈ کیا جائے گا اور سیکنڈری طلباء کے لیے ملک بھر میں ریڈیو، ٹیلی ویژن، اور آن لائن سیلف سرفنگ پروگرام شروع کیے جائیں گے۔

دسواں: تعلیم میں راہ میں حائل رکاوٹ کو ختم کرنے کے لیے سکول جانے والی طالبات کو وظیفہ دیا جائے گا۔

گیارہواں: نیشنل سٹیئرنگ کمیٹی قائم کی جائے گی جو امتحانی بورڈ بنائے گی پھر یکساں مرکزی امتحانی سکیم تشکیل دی جائے گی۔

بارہواں: ایک ایسی حکمت عملی کا اجراء کیا جائے گا جس کے تحت طلباء کو ٹیچرز ٹریننگ، مقابلے کی فضاء اور نصابی سرگرمیوں میں شرکت میسر آئے گی اس حکمت عملی کا مقصد تعلیمی قابلیت، سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور میتھ کو سیکھنے کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔

تیرہواں: کم از کم 10 تکنیکی یونیورسٹیاں قائم کریں گے۔

چودہواں: تیسرے درجے کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء ک لیے انٹرنیشنل ڈسٹینس لرننگ کے مواقع پیدا کیے جائیں گے، سرکاری وظائف مہیا کیے جائیں گے اور انٹرنیشنل یونیورسٹیز میں تعلیم کیے لیے قومی بندوبستی فنڈ بھی قائم کیا جائے گا۔

پندرہواں: انٹرنیشنل یونیورسٹیز سے گریجوایٹ ہونے والے پاکستانیوں کو مختلف مراعات ککے ذریعے سے اس جانب راغب کیا جائے گا کہ وہ مقامی یونیورسٹیز میں پڑھائیں اور تحقیق کے عمل کی نگرانی کریں۔

سولہواں: اس کے لیے طلباء کو غیر ملکی وظائف دیے جائیں گے اور ان کو مقامی یونیورسٹیز میں خڈمات دینے کی پیش کش کریں گے۔

سترہواں: یونیورسٹیز میں وائس چانسلرز اور سینئر ایڈمنسٹریشن کی تعیناتی کے لیے طریقہ کار کو آزادانہ اور شفاف کیا جائے گا اور اس کو یقینی بنانے کے لیے سیاسی اثر و رسوخ کا خاتمہ کریں گے۔

اٹھارواں: لازمی کورسز جیسا کہ ابلاغ، پرنٹنگ، آئی ٹی اور سوشل سائنسز کو باقاعدہ یونیورسٹیز کے نصاب کا حصہ بنایا جائے گا۔

اُنیسواں: سکلز ڈویلپمنٹ فنڈز اور بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن جیسے صوبائی اداروں کے کردار کو اور زیادہ کارگر بنائیں گےاور ناکارہ اداروں کو ختم کر دیا جائے گا۔

بیسواں: پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ معائدوں کے تحت خصوصی مہارت اور اعلیٰ تربیت کے لیے غیر ملکی ٹیکنیکل یونیورسٹیوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔

اکیسواں: سیکنڈری طلباء کو متعلقہ اور اعلیٰ معیار کی سکلز میں تعلیم دینے کے لیے ووکیشنل ٹریننگ پروگرام کو وسعت دیں گے اور مقامی صنعتوں اور غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ معائدہ کریں گے کہ وہ پاکساتن کے ووکیشنل اور ٹیکنیکل گریجوایٹس کو ملازمتیں دیں۔

بائیسواں: پاکستان بھر کے دینی مدارس کو ان کے مکمل ڈیٹا اور فنڈنگ سمیت رجسٹرڈ کیا جائے گا اور مدارس کے نصاب میں ریاضی اور دیگر دُنیاوی علوم کو بھی شامل کیا جائے گا۔


  1. سکولز اور کاجز کے اساتذہ کی قوتِ استعداد کو بڑھانے اور ان کی معاشی آسودگی اور ویلفئیر’ ترقی اور سہولیات کا کوئی نقطہ شامل نہ کرنا ایسے ہی ہے کہ گاڑی تو نئی لے لی جائے مگر ڈرائیور کو تنخواہ دینے کی ہمت نہ ہو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *