مطالعہ پاکستان کا المیہ

  • January 14, 2019 10:50 pm PST
taleemizavia single page

ارشد محمود

ہر قوم اپنے نصاب تعلیم کا کچھ حصہ اپنی قومی ہیت ترکیبی، تاریخ اور ملک کے خدوخال کے لیے وقف کرتی ہے تاکہ قومی تشخص سے واقفیت ملتی رہے۔ پاکستانی قوم کامسئلہ یہ رہا ہے کہ آزادی کے فوری بعد قومی تشخص سے متعلق مسائل پر ایک مخصوص نقطء نظر عائد کیا گیا جس پر معروضی تجزیہ و تحقیق کے دروازے بند کر دیے گئے۔

معاشرتی علوم سے لے کر بی اے تک طلباء کو پڑھائی جانے والی مطالعہ پاکستان کی تدریسی کتابوں میں قومی فکر اور نظریے کی تشکیل میں بنیادی عوامل کو داخل کیا گیا۔

پاکستان کا ظہور تاریخ کے غیر معمولی واقعات کا نتیجہ تھا ملک بننے سے قبل بحثیت قوم اس کی اپنی آزادانہ کوئی تاریخ نہ تھی چنانچہ پاکستان بننے اور بنانے کے اسباب کی تلاش میں بہت سے مصنوعی اور غیر حقیقی عناصر بھی مطالعہ پاکستان میں شامل کیے گئے۔

اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے جذبہ حب الوطنی کی طاقت پیدا کرنے کے لیے مصنوعی قومی و تاریخی نظریے اور مقدس بیساکھیاں پکڑانے پر ضد کی کیونکہ انہیں مصمم یقین تھا کہ پاکستان کو ایک طاقت ور فوج اور مضبوط بیوروکریسی ہی مستحکم و متحد رکھ سکتی ہے۔ اس فلسفہ و نظریہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ پاکستان مستقل غیر معمولی اور ایمرجنسی کے حالات میں رہا ملک ٹوٹا اور پھر اب تک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے۔

مطالعہ پاکستان کی تمام کتابوں میں مذہبی اور قومی اقدار کے نام پر قدامت پرستی پاکستان کی شناخت بن گئی اور اس طرح کے نظریہ پاکستان سے فیوڈل کلاس، عسکری و سول بیوروکریسی کے مفادات کو تحفظ دے کر انہیں طاقت ور کر دیا گیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان بنانے میں یہاں کی آبادی کے مسلم تشخص کو بطور سیاسی جواز پیش کیا گیا لیکن مقصد یہ نہیں تھا کہ پاکستان دُنیا میں اسلام کے نام پر کوئی فرقہ وارانہ کردار ادا کرے۔ علامہ اقبال سے لے کر محمد علی جناح تک کوئی بھی بنیاد پرست نہیں تھا۔

مطالعہ پاکستان کے ذریعے مسئلہ قومیت کی بنیاد تلاش کی گئی۔ پاکستانی قومیت پر پہلا حملہ یہ کہہ کر کیا گیا کہ چونکہ ہم مسلمان ہیں اس لیے ہم ایک قوم ہیں۔ اسلام کی بنیاد پر قومیت کا یہ دعویٰ کئی طرح کے تاریخی و فطری اور سائنسی حقائق سے روگردانی پر مبنی تھا جس سے ہماری قوم کئی پیچیدگیوں کا شکار ہوئی۔ قومیت کی بنیاد مذہب پر رکھی تو تاریخ کے کئی گناہ ہمیں اپنے کاندھوں پر اٹھانا پڑے۔

مطالعہ پاکستان میں بتایا جاتا ہے کہ پاکستان اُسی وقت بن گیا تھا جب یہاں کا پہلا باشندہ مسلمان ہوا گویا مطالعہ پاکستان کے ذریعے سے تاریخ کا پورا نو آبادیاتی فلسفہ ہی مسخ ہوگیا۔

یوں مطالعہ پاکستان کے ذریعے برصغیر کی پوری تاریخ کو ہی تعصب کی بنیاد پر استوار کر دیا گیا یوں مسلمان اچھے، ان کا ہر کام اچھا جبکہ مقابلے پر ہندو کی ہر چیز غلط جھوٹی اور متعصب قرار پائی۔ اس طرح تاریخ کی معروضیت کو فنا کیا گیا جس سے قومیں سبق حاصل کرتی ہیں۔ خود محمد بن قاسم کا کیا انجام ہوا مطالعہ پاکستان سے یہ کیوں خارج ہے؟

مطالعہ پاکستان میں جب قومیت کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی تو ایک ٹھوکر اور کھائی ہم نے عربوں کی تاریخ کو اسلامی تاریخ کہنا شروع کر دیا عربوں کی تاریخ کو ہم نے اپنی تاریخ بنا لیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ پاکستانیوں نے ساری دُنیا کے مسلمانوں اور ساری تاریخ اسلام کی ذمہ داری اپنے سر لے لی ہے۔

جب پاکستان میں ساری تاریخ عقیدے کے نہایت موٹے شیشے والی عینک لگا کر پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے تو اس کا نتیجہ نکلا کہ ہم نے تاریخ کو اپنی خواہشات کے مطابق موڑ دیا۔ تاریخ معروضیت، تحقیق، غیر جانبداریت اور سائنسی فکر کا مطالبہ کرتی ہے جب کہ ہمارے پاس عقیدے کا ڈنڈا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم تاریخ سے نابلد ہوچکے ہیں۔

پاکستان کے روشن مستقبل کے لیے ہمیں تعصب سے باہر آنا ہوگا۔ اپنی قومی نفسیات کو از سر نو تشکیل دینا ہوگا قومی یکجہتی کی نئی جڑیں تلاش کرنا ہوں گی جس کا تعلق پاکستان کی زمین اور پاکستان کی عوام سے ہو۔

پاکستان کے اکثریتی عوام مسلمان ہیں، یہ شناخت قائم رہے گی اسے کوئی خطرہ نہیں عقیدے کا تعلق دلوں سے ہے۔ اس دُنیا و کائنات سے سائنس کی زبان میں بات کرنا ہوگی۔ غیر متعصب تاریخ پڑھانا ہوگی اگر حب الوطنی کی شرط کی موجودہ تعریف پر ہم برقرار رہے تو مسائل سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔

یوں مستقبل کی راہیں بھی بدستور اندھی رہیں گی، نوجوان نسل کو گمراہ کن تاریخ پڑھا کر ہم اس قوم کا مستقبل تباہ نہیں کرسکتے۔ تاریخ کی افادیت اس وقت ممکن ہے جب اسے معروضیت کے انتہائی ممکنہ درجے پر پہنچایا جائے۔


arshad-mehmood

ارشد محمود لبرل خیالات رکھتے ہیں اُنہوں نے تعلیم اور ہماری قومی اُلجھنیں کے نام سے کتاب لکھی جسے بے حد پذیرائی ملی۔

  1. عقیدے کا تعلق دلوں سے ہے
    ؐحترم ایسا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عقیدے کا تعلق انسانی اعمال سے ہوتا ہے

  2. Lack of knowledge exists in the writing of Libral Arshad.y …
    Liberal Sb, yeh to bta dain India Aur USA nay itni tarqee ki ha…kiya wo biased Hain ya NAHI?
    Yes Or No main jwab dijiay ga…
    Philosophy ki zarorat NAHI dear

Leave a Reply to Maaz Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *