پاکستانی غذا میں آرسینک کی مقدارمیں خطرناک اضافہ: آغا خان یونیورسٹی

  • December 5, 2016 6:17 pm PST
taleemizavia single page

کراچی

حیرت انگیز طور پر عام تصور کے برعکس، پینے کا پانی اور سرمہ کاجل انسانی جسم میں ان دھاتوں کے پہنچنے کی بنیادی وجہ نہیں ہیں۔ حاملہ خواتین میں غذائی اجزا مثلاً آلو اور ابلے ہوئے چاول اور بچوں میں مختلف غذائی اشیا اور گھروں میں پائی جانے والی دھول، سیسے کو انسانی جسم میں پہنچانے والے اہم عوامل ہیں۔

سیسہ اور آرسینک ایسی بھاری دھاتیں ہیں جنہیں عموماً انسانی جسم کے لیے زہر کی حد تک مضر تصور کیا جاتا ہے آغا خان یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق ان دھاتوں کی غیر معمولی سطح عام غذائی اشیا میں موجود ہے۔ یہ تحقیق اے کے یو اور جاپان کی جی چی میڈیکل یونیورسٹی کے اشتراک سے کی گئی ہے۔ ان یونیورسٹیز کے ماہرین اے کے یو کے تحت منعقد کیے جانے والے سیمینار ‘بھاری دھاتیں، غذائی تحفظ اور بچوں کی نشوونما’ میں موجود تھے۔

صحت کی عالمی تنظیم ڈبلیو ایچ او کے انٹرنیشنل پروگرام آن کیمیکل سیفٹی کیمیائی تحفظ کے بین الاقوامی پروگرام کے مطابق سیسہ اور آرسینک دو ایسی دھاتیں ہیں جنہیں انسانی صحت کے لیے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ ان دونوں عناصر میں زہر کے مماثل اثرات موجود ہوتے ہیں جو نہ صرف اعصابی نظام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ کئی دائمی بیماریوں کا باعث بن سکتے ہیں۔

غذائی اشیا میں سیسے اور آرسینک کی مقدار کا تعین کرنے کے لیے اے کے یو کے تحقیق کاروں نے مختلف عام اشیا میں ان دھاتوں کی مقدار کا جائزہ لیا۔ ان میں پٹرول، غذائی اشیا، پینے کے پانی، گھروں میں پائی جانے والی دھول اور پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں پائی جانے والی دھول اور مٹی جو سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان دھاتوں کی مقدار اور ان سے متوقع خطرات کو جانچنے کے لیے حاملہ خواتین، شیرخوار اور کم عمر بچوں کے خون کے ٹیسٹس کیے گئے۔

تحقیق کے دوران یو ایس سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن سی ڈی سی کے مطابق متعین کردہ حوالہ جاتی مقدار کی بنیاد پر جانچ کی گئی جس کے مطابق سیسے کی پانچ مائیکروگرامز فی ڈیسی لیٹر یا اس سے زائد مقدار صحت کے لیے خطرہ ہوتی ہے۔ وہ خواتین اور بچے جو اس تحقیق میں شامل تھے ان کے خون میں سیسے کی مقدار اس سے غیر معمولی حد تک زیادہ پائی گئی۔

مطالعے کی تحقیقی کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عنبرین سہیتو نے مطالعے سے حاصل ہونے والے اعدادوشمار کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا، “60 فیصد شیر خوار بچوں اور 1-3 سال کی عمر کے اندازاً 90 فیصد بچوں کے خون میں سیسے کی مقدار سی ڈی سی کی متعین کردہ سطح سے زیادہ تھی جس کے طویل المدت مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس مطالعے کے نتائج سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گول نمبر 3 کے حصول سے متعلق بھی راہنمائی کرتے ہیں جو مضر کیمیائی اجزا کے باعث ہونے والی بیماریوں اور اموات میں کمی کی کا مطالبہ کرتا ہے۔

اے کے یو کے ڈیپارٹمنٹ آف کمیونٹی ہیلتھ سائنسز کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر فاطمی نے انکشاف کیا کہ دیگر ممالک کی بہ نسبت پاکستانی آبادی کے خون میں سیسے کی مقدار کہیں زیادہ ہے۔ انھوں نے کہا، “غذائی اجزا پیداوار کھیتی باڑی کے دوران آلودہ ہو جاتی ہیں؛ اس کے بعد صنعتوں میں یا گھروں پر ان پر مزید کیمیائی عمل کیا جاتا ہے اور ان کی پیکجنگ کی جاتی ہے۔ اگر پیکجنگ کا مٹیریل سیسے سے آلودہ ہے تو وہ مزید نقصان پہنچاتا ہے۔ اس وقت ان طریقہ کاروں کو ضوابط اور نگرانی کی فوری ضرورت ہے۔ پالیسی سازوں کو اس امر پر دھیان دینا ہو گا کہ سیسہ کن مراحل پر اور کس طرح غذائی اجزا اور اشیا کا حصہ بن رہا ہے۔”

ڈاکٹر فاطمی نے مزید کہا کہ اگلا مرحلہ یہ ہے کہ ہم باقاعدہ انداز میں یہ تفتیش کریں کہ کن مراحل پر غذا آلودہ ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایسی غذائی اشیا کے تعین کے لیے بھی باقاعدہ تحقیق کی ضرورت ہے جو سیسے سے غیر معمولی حد تک آلودہ ہیں۔

تحقیقی ٹیم کی ایک رکن ڈاکٹر شہلا نعیم نے حاضرین کو بتایا کہ سادہ عادات کی مدد سے سیسے کے مضر اثرات سے بچا جا سکتا ہے مثلاً ماں اور بچوں کے ہاتھوں کی صفائی کا خیال رکھنا اور بچوں کے کانوں کی موزوں صفائی کرنا۔ اس سے بچوں کےجسم میں سیسے کی مقدار کو کافی کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ گھر کے اندر صاف پانی کا پوچھا لگانے سے ہوا اور گھر کے پینٹ میں موجود آلودگی پیدا کرنے والے اجزا کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

ایک اور تحقیق میں آرسینک کی مقدار کا جائزہ لیا گیا جس کے یکساں طور پر حیرت انگیز نتائج سامنے آئے۔ یہ عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ پینے کے آلودہ پانی اور غیر محفوظ برتنوں کے ذریعے آرسینک کی مقدار انسانی جسم میں داخل ہو رہی ہے۔ تحقیق کاروں نے اس مسئلے پر تفصیلی اور گہری تحقیق کے لیے ابلے ہوئے پانی سے کھانا تیار کیا اور چار مختلف دھاتوں سے تیار کردہ برتن استعمال کیے۔

تحقیق کے مطابق برتن کی دھات اور پانی کی قسم سے قطع نظر، مرغی کے گوشت میں آلوؤں کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ اور دالوں کے مقابلے میں 5 فیصد زیادہ آرسینک موجود تھا۔ یہ تمام کھانے تیار کرنے کے لیے ایک ہی پانی استعمال کیا گیا۔

آرسینک کے متعلق تحقیق کے بعد ڈاکٹر فاطمی، ڈاکٹر سہیتو اور ڈاکٹر غنی نے پالیسی سازوں کے لیے دو اہم اور فوری طور پر توجہ طلب نکات بیان کیے ہیں:

پانی کے معیار پر توجہ دی جانی ضروری ہے۔ حکومت کو مقامی آبادیوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا ہو گا خصوصاً ایسی آبادیوں میں جو دریاؤں کے کناروں پر آباد ہیں کیونکہ زمین سے براہ راست حاصل کردہ پانی آرسینک کا اہم ذریعہ ہے۔”

غذائی معیارات بھی یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ ہمیں شبہ ہے کہ مرغی کے گوشت میں آرسینک کی موجودہ مقدار پولٹری کو دی جانے والی خوراک اور ویکسین کی بنا پر ہے۔” اس امر کی بھی نشاندہی کی گئی کہ یو ایس فیڈرل ڈرگ اتھارٹی نے اپریل دو ہزار پندرہ سے پولٹری کو آرسینک پر مبنی ویکسین لگانے پر پابندی لگا دی ہے اور غذائی قواعد و ضوابط کے اداروں کو پاکستان میں بھی اس اقدام کی پیروی کرنی چاہیے۔

تاہم ماہرین نے اس بات کی وضاحت کی کہ آرسینک کی موجودگی کی بنا پر عوام الناس کو مرغی کے گوشت کا استعمال ترک نہیں کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر فاطمی نے کہا، اس موضوع پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاہم مرغی کے گوشت کا استعمال مکمل طورپر ترک کرنے کی تجویز نہیں دی جا سکتی کیونکہ یہ پروٹین کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ آرسینک کے مضر اثرات کا تعین غذا میں اس کی مقدار کے علاوہ استعمال کی شرح اور استعمال کرنے والے کی جسامت سے بھی لگایا جاتا ہے۔

ماہرین نے اس موقعے پر بتایا کہ جاپانی یونیورسٹی کے اشتراک سے سیسے اور آرسینک کے ایپی جینیٹک انسانی جین پر غیر جینیاتی اثرات مطالعات جاری ہیں جن میں اس امر کا جائزہ لیا جائے گا کہ سیسے اور آرسینک کا استعمال کس حد تک دائمی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ ان تحقیقات سے یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ عوام الناس کی صحت پر بھاری دھاتوں کے استعمال کے کیا طویل المدت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

ان مطالعات کے لیے جاپان کی منسٹری آف ہیلتھ، لیبر اینڈ ویلفیئر اور اے کے یو کی یونیورسٹی ریسرچ کاؤنسل نے مالی معاونت فراہم کی ہے۔ اے کے یو کے ڈیپارٹمنٹ آف کمیونٹی ہیلتھ سائنسز کے ڈاکٹر عبدالغنی، ڈاکٹر عنبرین سہیتو اور ڈاکٹر شہلا نعیم کے علاوہ جی چی میڈیکل یونیورسٹی کے پروفیسر فیوجیو کیاما نے اس سیمینار میں حاضرین سے خطاب کیا۔

کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر اسد سعید؛ پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی سے منسلک آمنہ خاتون اور سیما اشرف؛ سندھ انوائرنمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے محترم یحیی؛ اے کے یو کے کمیونٹی ہیلتھ سائنسز ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر مسعود قادر اور اے کے یو کے ڈیپارٹمنٹ آف ہیومن ڈیویلپمنٹ پروگرام کی ڈاکٹر غزالہ رفیق بھی سیمینار میں موجود تھے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *