پاکستان میں تعلیم پر “نیو لبرل ازم” کا ایجنڈا

  • January 8, 2017 9:51 pm PST
taleemizavia single page

اکرم سومرو

اُنیس سو ننانوے تک عالمی سرمایہ داری گلوبلائزیشن اور نیو لبرل ازم کے مرحلے میں داخل ہوچکی تھی پاکستان کے معاشی ڈھانچے کو اس نئے نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے فوجی آپریشن کی ضرورت تھی۔ فری مارکیٹ اکانومی میں غیر ملکی سستی اشیاء کی بلا روک ٹوک فراہمی ایسے ملکوں کی صنعتوں کو برباد کر دیتی ہے جس کی معیشت کو حفاظتی قوانین کا تحفظ حاصل نہ ہو۔

چھوٹی صنعتوں کے مالک غیر ملکی سستی مصنوعات کے سیلاب میں ڈوب جاتے ہیں اس لیے یہ چھوٹے صنعت کار اقتدار میں شریک ہو کر حکومتوں کو ایسی یلغار کو روکنے پر مجبور کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اُنیس سو ننانوے میں نواز شریف حکومت میں بھی تھے۔

یعنی یہ قومی سرمایہ دار تو نہیں تھے مگر ان کے رجحانات قومی سرمایہ داری کے تھے۔ قومی سرمایہ داری کے رجحانات فری مارکیٹ اکانومی اور نیو لبرل ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ اس سے قبل پرائیوٹائزیشن کے ذریعے صنعتیں جب اصل مالکان کو واپس کی جارہی تھیں یا پاکستان ہی کے سرمایہ کاروں کو فروخت کی جارہی تھیں ان سے قومی سرمایہ داری کے رجحانات رکھنے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا۔

نیو لبرل ایجنڈے میں اس کا حل یہ سوچا گیا کہ پاکستان میں پرائیوٹائزیشن تو ہو مگر منافع بخش کارپوریشنز یا صنعتیں ملٹی نیشنل کمپنیوں اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو فروخت کی جائیں (جیسے پی ٹی سی ایل اور کے ای ایس سی کی پرائیوٹائزیشن ہوئی)۔ یہ کام سول حکومت سے ہونا مشکل تھا اس کے لیے فوجی حکومت کی ضرورت تھی۔

اس پس منظر میں پرویز مشرف نے حکومت پرقبضہ کر لیا اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ نیو لبرل ایجنڈا کیا ہے؟ اور اس کو تعلیم میں کیسے لاگو کیا گیا؟ پہلے ہم ان کے اپنے الفاظ میں اسے دیکھتے ہیں، اس کا پہلا اطلاق یوں ہوتا ہے کہ نئے سرکاری سکولوں کو کھولنے پر پاپندی عائد کی جائے۔

نیو لبرل ازم کے مفکر جانسٹن کے مطابق تعلیم اور صحت کی سہولتیں فراہم ریاست کا نہیں نجی شعبہ کا فریضہ ہے۔

تعلیم اور صحت کی فراہمی کو مارکیٹ کے قواعد کے تابع لایا جائے اور اس سے تعلیم فراہم کرنے والے تعلیمی تجارتی اداروں میں مقابلے کا رجحان بڑھے گا اور اس سے تعلیم ترقی کرے گی۔ جو جتنی بہتر تعلیم مہیا کرے گا اپنی پراڈکٹ کی قیمت خود مقرر کرے گا، ریاست اس میں مداخلت نہیں کرسکتی اور یہ ایجنڈا فی الحال اعلیٰ تعلیم پر لاگو ہوگا۔

مشرف دور کی ابتدائی وزیر تعلیم زبیدہ جلال نے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت غیر سرکاری تعلیمی بورڈ کے قیام کی اجازت بھی دے دی اور کہا کہ ملک بھر میں جو تعلیمی بورڈ پبلک سیکٹر میں قائم ہیں وہ تعلیم کے معیار کو معینہ سطح پر لے جانے میں ناکام رہے ہیں اور یہ تمام بورڈز امتحانی نظام کے حوالے سے روایتی انداز کے حامل اور یکسانیت کا شکار ہوگئے ہیں۔

اس لیے معیار تعلیم کو مطلوہ سطح پر لانے، ملک میں امتحانات کے نظام کو موثر بنانے، مسابقتی اور افادی بنانے کے لیے نجی شعبہ میں تعلیمی بورڈ کا قیام ناگزیر ہوگیا ہے۔ نجی شعبہ میں تعلیمی بورڈ قائم ہونے سے پبلک سیکٹر کے ساتھ اس کی صحت مند مسابقت ہوجائے گی اس طرح پورے ملک میں صحت مند تعلیمی ماحول پروان چڑھے گا۔

دو ہزار میں یونیسکو، یونیسف، یو این ڈی پی اور عالمی بنک کے زیر اہتمام عالمی تعلیمی فورم منعقد کیا گیا جس میں ایک سو بیاسی ملکوں کے نمائندے شامل ہوئے۔ اس فورم میں اقوام متحدہ کے ادارے یو این ڈی پی کی طرف سے دو ہزار پندرہ تک کے لیے میلینئیم ڈویلپمنٹ گولز میں ایک طے شدہ عالمی پروگرام ایجوکیشن فار آل پر عمل درآمد کے لیے ان ممالک سے دستخط لیے گئے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ان ممالک کی امداد کو ایجوکیشن فار آل کے اہداف کو حاصل کرنے سے مشروط کر دیا گیا۔ یہ کانفرنس ڈکار، سینییگال میں منعقد ہوئی۔ یہ ہدف پرائمری ایجوکیشن تک محدود تھا جبکہ ہائر ایجوکیشن کو نیو لبرل ایجنڈے کے تحت تجارت کا مال بنا کر مارکیٹ میں پیش کرنا تھا۔

پاکستان میں اُنتیس اپریل دو ہزار ایک کو ایک ٹاسک فورس بنائی گئی جس میں ایک سو سترہ اراکین تھے تاہم لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز(لمز) اورآغا خان یونیورسٹی کراچی کے منتظمین کو اس فورس کا مشترکہ طور پ چیئرمین بنایا گیا تاکہ وہ اعلیٰ تعلیم کی صورت حال کا جائزہ لے کر اس کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات تجویز کریں۔

ٹاسک فورس نے سفارش مرتب کی کہ ملک کی جامعات کو تعلیمی، انتظامی اور مالیاتی معاملات چلانے کے لیے ریاست کے زیر اثر آزاد تنظیم ہونی چاہیے۔ برطانیہ میں اعلیٰ تعلیم کے یلے قائم فنڈنگ کونسل کے اُصول پر کمیشن برائے اعلیٰ تعلیم قائم کیا جانا چاہیے۔ ان سفارشات کی روشنی میں ہائر ایجوکیشن کمیشن قائم کیا گیا۔

مشرف حکومت نے ایجوکیشن فار آل کی فنڈنگ کو پڑھا لکھا پنجاب میں تبدیل کر دیا جسے پنجاب میں اُس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز الہی نے اشتہاری مہم کے ذریعے بھر پور انداز میں چلایا جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے نجی شعبہ میں لاتعداد یونیورسٹیوں کے قیام کے چارٹرڈ جاری کیے اور تعلیم کو نیو لبرل ایجنڈے کے تحت مارکیٹ قوتوں کے حوالے کر دیا۔

چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی اپنے پہلے دور حکومت میں اُنیس سو بہتر میں ایک جامع تعلیمی پالیسی دے چکی تھی اور اُنیس سو تہیتر کے آئین میں بھی آرٹیکل سینتیس۔ بی کے ذریعے سیکنڈری سطح تک کی تعلیم مفت اور لازم تعلیم کی ذمہ داری ریاست پر ڈال چکی تھی اس لیے ایجوکیشن فار آل کا پروگرام پیپلز پارٹی کے منشور کو تقویب دیتا تھا۔

لیکن وہ دور ویلفیئر ریاست کا دور تھا، دو ہزار نو تک عالمی سرمایہ داری نیو لبرل ازم تک آچکی تھی اس لیے پیپلز پارٹی نے دو ہزار نو جو تعلیمی پالیسی پیش کی وہ اگرچہ نیو لبرل ایجنڈے کا ہی حصہ تھی مگر اس میں پبلک سیکٹر کو مضبوط کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی درج ذیل نکات پر باقاعدہ رائے عامہ تشکیل دینے اور اسے عملی جامہ پہنانے کی منصوبہ بندی ہوئی؛ یعنی

ہر شہری کو تعلیم دینا اگرچہ ریاست کا فریضہ ہے مگر ریاست کے اپنے اس فریضہ کی ادائیگی میں ناکامی کے باعث پرائیویٹ سیکٹر اُبھر کر سامنے آگیا۔ موجودہ حالت میں پبلک، پرائیویٹ پارٹنر شپ تعلیمی ماحول میں بہتری لانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔

پاکستان اپنی عالمی کمٹنمنٹ پر پورا اُترے گا اور عالمگیریت کے چیلنج پر پورا اُترنے کی کوشش کرے گا اور ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز، ایجوکیشن فار آل کے اہداف کو پورا کرے گا۔

اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے تعلیم کے لیے قومی پیداوار کا سات فیصد بجٹ مختص کرنے کی سفارش بھی کی گئی۔

ایک ہی سال بعد قومی اسمبلی نے اٹھارویں ترمیم کی منظوری دے دی اور تعلیم اب صوبائی حکومتوں کے اختیار میں دیتے ہوئے آرٹیکل پچیس اے کے تحت پانچ سال سے سولہ سال تک کے بچوں کا تعلیم پر حق تسلیم کرتے ہوئے ریاست پر تعلیم کی ذمہ داری دال دی گئی۔ صوبائی حکومتوں نے اس ترمیم کے تحت اپنے اپنے صوبے میں جو نئی قانون سازی کرنی تھی وہ یہ تھی کہ ؛

صوبائی سطح پر قانونی اور انتظامی ڈھانچے کو اس ترمیم کی مطابقت میں تشکیل دینا

نئی پالیسی، نصاب، امتحانات اور تعلیمی معیار کو ترتیب دینا تھا، اخراجات کی کمی سمیت دیگر رکاوٹوں کو دور کرنا تھا۔

مگر کچھ نہیں ہوا اس اثناء میں دو ہزار تیرہ کے الیکشن آگئے۔ نیو لبرل ازم ایجنڈے کی پہلے مرحلے کی تکمیل کے لیے بیوروکریسی کو اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے چُنا گیا۔ پنجاب میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت پرائیویٹ کیمپسز کھولے گئے۔ سرکاری سکولوں کو کھولنے پر پاپندی عائد کر کے پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کی فنڈنگ میں اضافہ کیا گیا اور پیف کی پالیسی کو تشکیل دینے میں بین الاقوامی ڈونرز ایجنسیاں یعنی یو ایس ایڈز، یوکے ایڈز یعنی ڈیفیڈ کا کردار زیادہ متحرک ہوجاتا ہے۔


akram-soomro-2

محمد اکرم سومرو میڈیا اسٹڈیز کے اُستاد ہیں وہ آج کل لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف کیمونیکیشن اسٹڈیز میں تعینات ہیں، وہ شعور کے ساتھ تنقیدی سوچ پر یقین رکھتے ہیں۔

  1. It is difficult to accept or reject the viewpoint of the writer. The article has analytical merit and has a clear tilt towards conventional approach of education provisions based on state funding but does not explain why are we having low education standards under current settings of state patronage of education. How can state institutions deliver high standards od education under current settings? Why is current system failed to deliver high standard of education?

    1. The debate on education standard is always there. Since you are doctor I think you should write on education standards, this will be great contribution. I think taleemi zavia will also publish it.

  2. اکرم سومرو جی آپ نے حقائق پر ممبنی ایک اچھا کامضمون لکھا ہے۔ ملینیم گولز کے تحت ایجوکیشن فار آل میٹرک تک سکول میں ایجوکیشن مفت دی جارہی ہے پر اب پیف کے تمام سکول دے کر ریاست اپنی جان چھڑا رہی ہے۔ ہائر ایجوکشن تو پچاس فیصد سے زیاد آ بادی اس کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتی۔ نجی جامعات غیر میعاری ایجوکیشن مہنگے داموں کھلم کھلا بیچ رہے ہیں۔

Leave a Reply to Dr. Tauseef Aized Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *