این سی اے: رجسٹرار کی غیر قانونی تعیناتی، پروفیسرز کی بھرتیوں میں فراڈ

  • March 24, 2017 5:12 pm PST
taleemizavia single page

لاہور/آمنہ مسعود

نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کے بورڈ آف گورنرز کی مدت ختم ہوگئی۔ بورڈ آف گورنرز کے آخری اجلاس میں پروفیسرز کی ضوابط کے خلاف بھرتیوں کی نشاندہی ہونے کے بعد بورڈ نے ان بھرتیوں کی منظوری سے انکار کر دیا ہے۔

نیشنل کالج آف آرٹس میں پروفیسر، ایسوسی ایٹ پروفیسر، اسسٹنٹ پروفیسر، لیکچررز کی بھرتیوں میں بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے جس کے بعد این سی اے کے بورڈ آف گورنرز نے اپنے آخری اجلاس میں ان بھرتیوں کی حتمی منظوری روک دی ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ این سی اے میں لیکچررز کی بھرتیوں کے لیے اُمیدواروں کے انٹرویوز تاحال نہیں کیے گئے جبکہ پراسیس مکمل کیے بغیر بھرتیاں کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

نیشنل کالج آف آرٹس کی تاریخ میں یہ اپنی نوعیت کا منفرد سیکنڈل ہے۔

بورڈ آف گورنرز کے ذرائع نے بتایا ہے کہ این سی اے آرڈیننس 1985ء کے ضوابط کے برعکس سلیکشن بورڈز کیے گئے اور ان بورڈز میں سروس ریگولیشنز رولز 1995ء کی بھی سنگین خلاف ورزیاں کی گئی ہیں۔ بورڈ آف گورنرز کے ممبران کو پرنسپل ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری نے ضوابط سے متعلق لاعلم رکھا اور ان عہدوں پر تقرریوں کی حتمی منظوری کے لیے ایجنڈا بھی رکھ دیا گیا۔

پرنسپل کالج ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری نے بورڈز کے ممبران کو یہ بھی نہیں بتایا کہ عدالت نے سلیکشن پر حکم امتناعی جاری کر رکھا ہے اور پرنسپل سے جواب داخل کرنے کی ہدایات بھی جاری کی جا چکی ہیں۔

بورڈ کے ممبران کو ان بے ضابطگیوں کی اطلاع ملتے ہی اس سلیکشن کے عمل کو روک دیا گیا ہے۔ بورڈ ممبر چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان ڈاکٹر مختار احمد نے اجلاس کے دوران پرنسپل کے ساتھ سخت برہمی کا اظہار کیا اور بورڈ کو حقائق سے لاعلم رکھنے پر سرزنش کی۔

دوسری جانب عدالت نے این سی اے کے پرنسپل سے ان بھرتیوں کے لیے دیے جانے والے اشتہارات میں ضوابط پر بھی جواب مانگ رکھا ہے۔

این سی اے نے اساتذہ اور ملازمین کی بھرتیوں کے لیے 26 مارچ 2016ء ، اور گیارہ فروری 2017ء کو اشتہارات دیے تھے جس میں این سی اے کے ضوابط کے برخلاف شرائط اشتہار میں دی گئیں۔ بھرتیوں کے لیے 2016ء کے اشتہار پر پروفیسر ارم ضیاء نے حکم امتناعی بھی حاصل کر رکھا ہے۔

این سی اے آرڈیننس کے مطابق پروفیسر کیلئے پندرہ سے 18 سال کے تجربے کی شرط کے ساتھ پی ایچ ڈی کی ڈگری جبکہ ایسوسی ایٹ پروفیسر کے لیے ایم فل کے ساتھ 18 سے 20 سال تک کے تجربے کی شرط عائد ہے۔

این سی اے میں پرنسپل اور پروفیسر کی بھرتی کے لیے ایم اے کی ڈگری کے ساتھ 20 سے 22 سال تک کا تجربہ کی شرط عائد ہے۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ این سی اے کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں گزشتہ اجلاس کے میٹنگ منٹس بھی منظوری کے لیے پیش نہیں کیے گئے تھے جس پر ممبران نے غصے کا اظہار کیا۔ بورڈ آف گورنرز کی مدت پوری ہوگئی ہے اور اب نئے بورڈ کی تشکیل کے لیے کالج انتظامیہ کی جانب سے سفارشات کیبنٹ ڈویژن کو ارسال کی جائیں گی۔

ذرائع نے بتایا ہے کہ انچارج شعبہ فلم اینڈ ٹیلی اسسٹنٹ پروفیسر ماجد سعید کو پروفیسر کے عہدے پر تعینات کرنے کے لیے شارٹ لسٹ کر لیا گیا تھا اور بورڈ سے اس کی منظوری لینا باقی تھی۔ ماجد سعید نے ایم اے کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور گیارہ سال کا تدریسی تجربہ ہے جبکہ پروفیسر کے عہدے پر سلیکشن کے لیے 20 سے بائیس سال تک کا تجربہ ہونا لازمی ہے۔

اسی طرح ایم اے ملٹی میڈیا آرٹس کے اسسٹنٹ پروفیسر ظفر اقبال کو بھی پروفیسر کے عہدے پر تعینات کیا جارہا تھا جو اب روک دیا گیا ہے۔ پروفیسر ظفر اقبال کی عمر اس وقت 58 برس ہے اور وہ دو سال بعد اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہوجائیں گے۔ این سی اے کے ضوابط کے مطابق اُنہیں اس عمر میں پروفیسر کے لیے بھرتی نہیں کیا جاسکتا۔

کوالٹی اینہانسمنٹ سیل کے ہیڈ وسیم احمد کو کنٹریکٹ پر تعینات کیا گیا تھا، کوالٹی اینہاسمنٹ سیل کا عہدہ بیسوویں گریڈ کے آفیسر کے لیے مختص ہے اور یہ عہدہ بورڈ آف گورنرز سے باقاعدہ منظور شدہ ہے۔ وسیم احمد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے پرنسپل کالج نے اُنیسوویں گریڈ کے لیے ڈائریکٹر کیو ای سی کے عہدے کا اشتہار دے دیا جس کی بورڈ سے منظوری بھی نہیں لی گئی۔

وسیم احمد کا عملی تجربہ اور تعلیم گریڈ بیس کے برابر نہ ہونے کی بناء پر اُنہیں ڈائریکٹر کیو ای سی کے عہدے کیلئے شارٹ لسٹ کر لیا ہے اور پرنسپل نے غیر قانونی طریقے سے وسیم احمد کو رجسٹرار این سی اے کے عہدے پر بھی تعینات کر دیا ہے جبکہ این سی اے کے آرڈیننس کے مطابق کنٹریکٹ ملازمین کو رجسٹرار کا چارج نہیں دیا جاسکتا۔

پرنسپل ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری کے خلاف این سی اے میں ان غیر قانونی بھرتیوں اور تعیناتیوں پر عدالت میں درخواستیں بھی دائر کی جاچکی ہیں۔