مشال خان کے والد قتل کا مقدمہ مردان سے کیوں منتقل کرانا چاہتے ہیں؟

  • June 11, 2017 8:38 pm PST
taleemizavia single page

ویب ڈیسک

صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں فائرنگ اور تشدد سے ہلاک کیے گئے طالبعلم مشال خان کے والد نے پشاور ہائی کورٹ میں درخواست استدعا کی ہے کہ مقدمہ کسی اور شہر منتقل کیا جائے۔

مشال خان کے والد اقبال خان کے وکیل لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے یہ درخواست پشاور ہائی کورٹ میں دی ہے۔ اقبال خان کا کہنا ہے کہ انھیں اور ان کے وکلا کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ مردان میں مقدمے کی سماعت سے نقص امن کا خطرہ ہو سکتا ہے اس لیے انھوں نے یہ درخواست پشاور ہائی کورٹ میں دی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے درخواست میں یہ اختیار پشاور ہائی کورٹ کو دیا ہے کہ وہ مردان کے علاوہ کسی بھی ضلع میں یہ مقدمہ منتقل کر دیں کیونکہ مردان کے انسداد دہشت گردی کی عدلت میں سماعت کے دوران ان کے ساتھ بھی چالیس پچاس افراد ہوں گے جبکہ چھپن گرفتار ملزمان کے رشتہ دار اور عزیز موجود ہوں گے جس سے حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔

عبدالولی خان یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے طالبعلم مشال خان کے قتل کے الزام میں اس وقت کوئی ستاون افراد گرفتار ہیں جن میں یونیورسٹی کے طالبعلم اور ملازمین شامل ہیں۔ مشال خان کو 13 اپریل کو یونیورسٹی میں ہجوم نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد اور فائرنگ کرکے ہلاک کر دیا تھا۔

مشال خان کے والد اقبال خان کے وکیل لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ درخواست پر کارروائی آئندہ چند روز میں متوقع ہے۔

دوسری جانب دو روز پہلے گرفتار افراد کے رشتہ داروں نے مردان میں ایک احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ مقدمہ یہیں مردان کی عدالت میں ہی سنا جائے۔

مشال خان کے قتل کے حوالے سے سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیا تھا اور مشترکہ انکوائری کمیٹی قائم کی گئی تھی جس کی رپورٹ کے مطابق مشال خان کا قتل ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا ہے اور اس میں توہین مذہب کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

پولیس نے اس واقعہ کی تحقیقات کی ہیں تاہم ویڈیو کلپس میں پولیس اہلکاروں کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جس پر انگلیاں اٹھائی گئی تھیں۔ اس بارے میں اعلی سطح پر پولیس اہلکاروںکے خلاف بھی انکوائری کا حکم دیا جا چکا ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *