پنجاب یونیورسٹی میں تصادم، پتھراؤ سے دس گارڈز چار طالبعلم زخمی

  • December 16, 2016 9:43 pm PST
taleemizavia single page

لاہور

پنجاب یونیورسٹی لاہور کے نیو کیمپس میں طلباء اور یونیورسٹی گارڈز کے درمیان تصادم کے باعث دس گارڈز زخمی ہوئے ہیں جن میں دو گارڈز کی حالت تشویش ناک بتائی جارہی ہے۔

یہ تصادم اُس وقت ہوا جب اسلامی جمعیت طلباء نے ہاسٹل نمبر ایک میں انتظامیہ کی اجازت کے بغیر سقوط ڈھاکہ پر تقریب منعقد کر رہی تھی۔ یونیورسٹی گارڈز نے تقریب رکوانے کی کوشش کی جس سے جمعیت کے کارکنوں اور گارڈز کے درمیان تلخ کلامی ہوئی جس کے بعد صورتحال کشیدہ ہوگئی۔

جمعیت کے کارکنوں اورگارڈز کے درمیان ہاتھا پائی کے بعد پتھراؤ شروع ہوا جو دو گھنٹے تک جاری رہا۔ اس پتھراؤ کے بعد صورتحال سے نمٹنے کے لیے یونیورسٹی کے سیکورٹی گارڈز اور پولیس کی نفری کو طلب کر لیا گیا۔

pu-attack1

اس پتھراؤ کے دوران یونیورسٹی کے بارہ گارڈز اور اسلامی جمعیت طلباء کے چار کارکن بھی زخمی ہوگئے۔

پولیس اہلکاروں کی اکثریت کے پاس سیفٹی شیلڈز نہ ہونے کی وجہ سے جمعیت کی جانب سے کیے گئے پتھراؤ کو دو گھنٹے تک نہ روکا جاسکا حتیٰ کہ ان کارکنوں نے ہاسٹل کی چھت پر چڑھ کر پولیس اور باہر موجود گارڈز پر پتھراؤ شروع کر دیا اس پتھراؤ کے دوران سڑک سے گزرنے والی کار پر پتھر لگنے سے خاتون شدید زخمی ہوگئی۔

پنجاب یونیورسٹی کی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر ساجد رشید جو یونیورسٹی کے ریذیڈنٹ آفیسر بھی ہیں وہ موقع پر پہنچ کر پولیس کو جمعیت کے کارکنوں کو گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا تاہم پولیس کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی جس پر ڈاکٹر ساجد رشید نے موقع پر موجود ایس پی اقبال ٹاؤن پر الزام عائد کیا کہ وہ جمعیت کے مشتعل کارکنوں کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔

pu-attack2

شام چار بجے سے لے کر رات نو بجے تک یہ صورتحال کشیدہ رہی تاہم اس دوران ایس پی اقبال ٹاؤن نے اسلامی جمعیت طلباء کے کارکنوں کے ساتھ ہاسٹل میں جاکر مذاکرات کرنے کی کوشش کی جس پر وہ ناکام رہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران بھی موقع پر پہنچ گئے اور ایس پی اقبال ٹاؤن سے مطالبہ کیا کہ وہ صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری کارروائی کریں۔

pu-attack3

اس دوران مجاہد کامران نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ جمعیت یونیورسٹی کی رٹ کو چیلنج کر رہی ہے اور دو گھنٹے تک جاری رہنے والے پتھراؤ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حملہ جمعیت نے منصوبہ بندی کے تحت کیا ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کے سینئر پروفیسرز کے ساتھ جمعیت کے کارکنوں کی بدتمیزی اور آج علی الصبح چیئرمین ہال کونسل ڈاکٹر عابد حسین کی سرکاری گاڑی کی توڑ پھوڑ کے بعد اساتذہ میں شدید غصہ ہے اور اس واقعہ کے دوران بھی اساتذہ کے ساتھ گالی گلوچ کی گئی ہے۔

pu-attack4

اسلامی جمعیت طلباء کے جو کارکن حملہ آور تھے ان کے چہروں پر نقاب تھے جس کے باعث ان کی شناخت ممکن نہیں تھی، دو گھنٹنے تک جاری رہنے والا یہ پتھراؤ رُکا تو جمعیت کے کارکنوں نے زندہ ہے جمعیت کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے اس صورتحال کے دوران ہاسٹل کے داخلی و خارجی راستوں کو بند کر دیا تاکہ حملہ آوروں کو باہر نکلنے سے روکا جائے تاہم اس تصادم کے دوران چیف سیکورٹی آفیسر کی گاڑی کو بھی پتھراؤ کے ذریعے توڑپھوڑ کا نشانہ بنایا گیا۔

اے ایس اے کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر محبوب حسین نے اس دوران میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت اساتذہ کی تذلیل کرتی ہے اگر حکومت نے حملہ آوروں کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کو حکم جاری نہ کیا تو وہ تدریسی بائیکاٹ کریں گے اور اپنے احتجاج کا دائرہ بڑھائیں گے۔

pu-attack5

اُنہوں نے کہا کہ سکندر کاکٹر کو جمعیت نے ہاسٹل میں غیر قانونی پناہ دے رکھی ہے اُس کا یونیورسٹی سے کوئی تعلق نہیں تاہم آج کے ہونے والے حملے میں وہ بھی ملوث ہے اور پولیس کو ان آوٹ سائیڈرز کے ساتھ مذاکرات کرنا قابل مذمت ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے چیف سیکورٹی آفیسرنے موقع پر موجود میڈیا کو بتایا کہ پولیس نے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ کرنے والے ڈی وی آر کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے اور اُنہیں خدشہ ہے کہ حملہ آوروں کی ریکارڈنگ غائب کی جائے گی۔

ایس پی اقبال ٹاؤن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ پولیس معاملے پر قابو پانے کی مکمل کوشش میں ہے اور جن مشتعل طلباء کے نام انتظامیہ کی جانب سے اُنہیں درخواست میں فراہم کیے گئے ہیں اُنہیں گرفتار کیا جائے گا تاہم فی الحال کشیدہ صورتحال پر قابو ضروری ہے۔

pu-attack6

اسلامی جمعیت طلباء پنجاب یونیورسٹی کے ترجمان نے میڈیا کو اپنے موقف میں بتایا کہ گارڈز نے پہلے جمعیت کے کارکنوں پر تقریب کے دوران حملہ کیا، پولیس جب تک ان گارڈز کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کرتی وہ اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ ترجمان کے مطابق کشیدہ صورتحال کی ذمہ دار یونیورسٹی انتظامیہ ہے۔

جمعیت کے ترجمان ابتدائی بیان میں کہا کہ یہ تقریب سقوط ڈھاکہ سے متعلق تھی تاہم چار گھنٹے بعد اپنے بیان میں کہا کہ جمعیت آرمی پبلک سکول پشاور کے شہداء کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تقریب منعقد کر رہی تھی جسے ثبوثاژ کیا گیا ہے اور اس تقریب کے لیے انتظامیہ کو درخواست بھی جمع کرائی گئی تھی حکومت اس واقعہ کی انکوائری کرے۔

اس تصادم کے دوران نیو کیمپس کے ہاسٹل نمبر ایک میں رہائش پذیر تین سو سے زائد طلباء محصور ہو کر رہ گئے جنہیں ہاسٹل سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *