وائس چانسلر تقرری کا اختیار پنجاب حکومت سے چھین لیا گیا: عدالت کا تفصیلی فیصلہ

  • December 6, 2016 10:22 pm PST
taleemizavia single page

لاہور

لاہور ہائیکورٹ نے یکم دسمبر کو وائس چانسلرز تقرری کیس کا ابتدائی فیصلہ سُنایا تھا جس کا تفصیلی فیصلہ آج جاری کر دیا گیا ہے۔ ستاسی صفحات پر مشتمل اس فیصلے کی سماعت دس مہینے تک جاری رہی جس کا فیصلہ جسٹس شاہد کریم نے سُنایا۔

تفصیلات کے مطابق عدالت نے 13 یونیورسٹیوں کے قوانین میں ترامیم غیر آئینی ہونے کی بناء پر کالعدم قراردے دیا گیا ہے۔ عدالت کے اس فیصلے کے بعد وائس چانسلرز تقرریوں کا اختیار ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ فیصلے میں پنجاب کی تیرہ سرکاری یونیورسٹیوں کے ایکٹ میں ترامیم کو بھی غیر آئینی قرار دیا گیا ہے۔

عدالت نے پنجاب حکومت اور محکمہ ہائر ایجوکیشن سے وائس چانسلرز تقرری کا اختیار چھین لیا ہے اور ان تقرریوں کے حوالے سے تمام نوٹیفکیشنز کو بھی کالعدم قرار دیا گیا ہے حتیٰ کہ عدالت نے پنجاب حکومت کی قائم کردہ سرچ کمیٹی بھی غیر قانونی قرار دے دی ہے۔

اس فیصلے کے مطابق وائس چانسلر کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد اسے توسیع دینا یا پھر قائم مقام عہدے پر تعینات کرنا بھی غیر قانونی ہے۔ اور اس ضمن میں جن چار سرکاری یونیورسٹیوں میں قائم مقام وائس چانسلرز تعینات کیے گئے ہیں انہیں عہدوں سے فارغ کر کے سات روز میں سینئر پروفیسر کو قائم مقام وائس چانسلر تعینات کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

عدالت نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک مہینے میں وائس چانسلر تقرری کے طریقہ کار کو وضع کریں اور ضوابط کو حتمی شکل دی جائے۔ عدالت کے حکم کے مطابق ایچ ای سی جن یونیورسٹیوں میں مستقل وائس چانسلرز کے عہدے خالی پڑے ہیں وہاں مستقل تعیناتیوں کے لیے ایک مہینے میں اشتہارات جاری کیے جائیں۔

عدالت نے اپنے اس فیصلے میں بارہ سرکاری یونیورسٹیوں کے ایکٹ میں ترامیم کو بھی کالعدم قرار دیا ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد کریم نے اپنے اس فیصلے میں یونیورسٹیوں کے ایکٹ میں جہاں وائس چانسلر تقرری کے “طریقہ کار” کا لفظ آیا ہے اسے حذف کرنے کا حکم دیا ہے۔

پنجاب یونیورسٹی ایکٹ اُنیس سو تہتر، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ایکٹ اُنیس سو چوہتر، بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ایکٹ اُنیس سو پچھتر، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ایکٹ اُںیس سو پچھتر، یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی ایکٹ اُںیس سو چورانوے، فاطمہ جناح ویمن یونیورسٹی راولپنڈی ایکٹ اُنیس سو ننانوے کی جن شقوں میں “طریقہ کار” کا لفظ آیا ہے اسے حذف کرنے کا حکم دیا ہے۔

عدالت نے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور آرڈیننس دو ہزار دو، لاہور کالج فار ویمن یونیورسٹی آرڈیننس دو ہزار دو، یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور آرڈیننس دو ہزار دو، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی فیصل آباد آرڈیننس دو ہزار دو، یونیورسٹی آف گجرات ایکٹ دو ہزار چار، ویمن یونیورسٹی ملتان ایکٹ دو ہزار دس، غازی یونیورسٹی، ڈیرہ غازی خان ایکٹ دو ہزار گیارہ میں بھی جہاں یہ شقیں موجود ہیں اُنہیں حذف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔

عدالت نے اپنے اس فیصلے میں کہا ہے کہ محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب نے سات اپریل دو ہزار پندرہ کو وائس چانسلرز تقرری کے لیے اشتہارات جاری کیے تھے اُنہیں کالعدم قرار دیا جاتا ہے کیونکہ محکمہ کا یہ اختیار ہائر ایجوکیشن کمیشن کے اختیارات سے بالا ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ اس نوٹیفکیشن کی بنیاد پر تین مارچ دو ہزار پندرہ کو جس سرچ کمیٹی کے قیام کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا وہ بھی کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن آرڈیننس دو ہزار دو کے سیکشن اکیس کے تحت وائس چانسلر تقرری کا طریقہ کار وضع کرے اور ایک مہینے میں تمام یونیورسٹیوں کے لیے الگ الگ سرچ کمیٹیاں بنانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔

عدالت کے اس حکم کے بعد یونیورسٹیوں میں نیا بحران پیدا ہونے کا اندیشہ ہے، ذرائع نے بتایا ہے کہ پنجاب حکومت اور پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن اس فیصلے کے خلاف عدالت میں انٹرا کورٹ اپیل کرنے جارہی ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *