جمعیت کے پشتون کونسل پر الزامات

  • March 27, 2017 1:43 pm PST
taleemizavia single page

احمد ذوالفقار

لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلباء اور پشتون کونسل کے درمیان اختلافات اس قدر شدید ہوگئے ہیں کہ جماعت اسلامی کی قیادت کو بھی اس میں گودنا پڑا اور حتیٰ کہ بلوچستان کے سیاسی نمائندوں اور پختون خوا کی طلباء تنظمیں بھی مظاہرے کرنے لگی ہے۔

پنجاب یونیورسٹی میں اکیس مارچ کا تصادم اپنی نوعیت کا منفرد ہنگامہ تھا اس بار جمعیت نے پشتون کلچرل ڈے پر حملہ کیا اور ایک پُرامن تقریب کو تشدد کی نظر کر کے یونیورسٹی کا تعلیمی ماحول تباہ کیا گیا جس کے بعد کی صورتحال تاحال کشیدہ ہے۔

جمعیت اور جماعت اسلامی اپنا مدعا میڈیا کے ذریعے سے بار بار پیش کر رہی ہے اور بیک وقت میڈیا پر الزام بھی لگا رہی ہے کہ رپورٹنگ یکطرفہ ہے کیونکہ میڈیا پر یہ دکھایا گیا کہ جمعیت نے کس طرح سے پشتونوں کی ثقافتی تقریب پر حملہ کیا اس لیے یہ رپورٹنگ یکطرفہ ہوگئی اور پھر جماعت اسلامی کی قیادت سے لے کر جمعیت کے کارکنوں نے الزامات کی ایک لمبی فہرست پیش کر کے یونیورسٹی میں فساد کو جائز قرار دینے کی مسلسل کوشش کر رہی ہے۔

اسلامی جمعیت لاہور کے ناظم جبران بٹ (وہ جماعت اسلامی کے رہنما حافظ سلمان بٹ کے صاحبزادے ہیں) نے جو من گھڑت اور سراسر جھوٹے الزامات پشتون کونسل جامعہ پنجاب پر لگائے ان کی حقیقت بیان کرنا ضروری ہے۔

سب سے پہلے میں واضح کرنا چاہوں گا کہ جمعیت کے ساتھ پشتون کونسل کے کوئی بھی نظریاتی یا سیاسی اختلافات نہیں ہیں اور نہ ہی پشتون کونسل کا تعلق کسی سیاسی پارٹی یا تنظیم سے ہے۔ یہ تنظیم صرف اور صرف ایجوکیشن کو پروموٹ کرنے کیلئے اور دور دراز پسماندہ علاقوں سے آنے والے پشتون طلباء کی راہنمائی کیلئےاوران کو سہولیات دینے کیلئے بنائی گئی ہے اس کے علاوہ یہ تنظیم کوئی مقصد نہیں رکھتی۔

جمعیت نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران پشتون کونسل کو جمعیت کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔ یہ الزام محض اس لیے لگایا جاتا ہے کہ دو ہزار آٹھ کے بعد جمعیت کی پنجاب یونیورسٹی سے اجارہ داری ختم ہوئی۔ یونیورسٹی کے ہاسٹلز سے ان کے قبضے ختم ہوئے، جمعیت کے ہاسٹلز سے دفاتر بند کرائے گئے۔

جمعیت کی یونیورسٹی میں تقریبات پر پاپندی لگائی گئی، ان کی فنڈنگ کے تمام ذرائع روکے گئے اور تشدد میں ملوث جمعیت کے کارکنوں کو یونیورسٹی سے نکالا گیا ان کے خلاف کارروائیاں کی گئیں۔ جمعیت آج اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں کا بدلہ اس جھوٹے الزام سے لینا چاہتی ہے جو حقائق کے منافی ہے۔

بنیادی طور پر یہ اجارہ داری کی جنگ ہے جس پر جمعیت اور جماعت اسلامی پر بہت بڑی کاری ضرب لگی ہے۔

پنجاب یونیورسٹی کے چیئرمین ہال کونسل کے گھر پر حملہ، فائرنگ اور گاڑی پر حملہ کس نے کرایا؟ ماس کیمونیکیشن ڈیپارٹمنٹ پر حملہ کر کے توڑ پھوڑ کس نے کی؟ ہاسٹل میں بلوچ طالبعلم کے کمرے کو کس نے آگ لگائی؟ جب ان واقعات کی پشت پر جمعیت ملوث پائی گئی تو ان کے خلاف کارروائی ہوئی جس پر اب انہوں نے اپنی توپوں کا رُخ مجاہد کامران کی جانب کر لیا ہے۔ شاید جمعیت اب یہ بھی الزام لگا دے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر دو ہزار سات میں جمعیت نے نہیں بلکہ مجاہد کامران نے حملہ کرایا تھا۔

جنوری سے لے کر مارچ کے مہینے تک ہاسٹل میں تصادم کی بنیاد کون تھا؟ نماز جمعہ کے بعد پشتون طلباء پر جب جمعیت حملہ آورہوئی تو پشتون طلباء نے بھی اس کا جواب دیا اور جب یونیورسٹی، پولیس اُن کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی تو پھر ہنگامہ شدید ہوگیا۔

حتیٰ کہ جمعیت مجاہد کامران سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ الزام عائد کر دیا کہ پشتونوں کو فنڈنگ کی جاتی ہے۔ اگر گزشتہ دو سالوں میں ہونے والی لڑائیوں کا جائزہ لیں تو اس کی ابتداء جمعیت سے ہوئی اور پشتونوں پر حملے کیے گئے، کمال منطق ہے پشتونوں کو کیا فنڈنگ مار کھانے کے لیے ملتی ہے؟ یا اس فنڈنگ سے پشتون اسلحہ کی خریداری کر رہے ہیں؟

پھر جمعیت اور جماعت اسلامی کی جانب سے انتہائی خوفناک پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے جس کی بنیاد پر صرف بغض اور تعصب پر ہے۔ الزام یہ ہے کہ جمعیت کے خلاف پشتونوں کی تعداد بڑھانے کے لیے یونیورسٹی میں غیر قانونی داخلے ہوئے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ جمعیت ایسے طلباء کی فہرست ہی پیش کر دے جن کے داخلے غیر قانونی ہوئے ہیں؟ یا پھر جمعیت یہ واضح کر دیے کہ ہاسٹل میں کمروں پر غیر قانونی قبضہ پشتونوں کا ہے؟ میں یہ وضاحت کر دوں کہ پشتونوں کے داخلے بلوچستان حکومت کی نامینیشن کی بنیاد پر ہوتے ہیں اور یہ نامینیشن حکومت خود کرتی ہے اس میں بلوچستان کا وہ کوٹہ بھی شامل ہے جو پنجاب حکومت کی جانب سے وہاں کے طلباء کو دیا گیا ہے۔ کیا جمعیت اور جماعت اسلامی بلوچوں، پشتونوں کی تعلیم حاصل کرنے کی دُشمن ہے؟ یا پاکستان میں صوبائیت کے نفرت کے بیج بونا چاہتی ہے؟

بلکہ میں یہاں واضح کر دوں کہ دو سو کے قریب ایسے پشتون طلباء کا ریکارڈ اب بھی یونیورسٹی کے پا س موجود ہے جن کے داخلے نہیں ہوسکے کیونکہ وہ میرٹ پر نہیں تھے، جمعیت اپنے حامی اساتذہ کے ذریعے سے یہ فہرست اور رسیدیں بھی حاصل کر لے تو شاید تھوڑی تسلی ہوجائے۔

پنجاب یونیورسٹی نے پشتون، بلوچ اور فاٹا پر احسانات کیے ہیں وہاں کے نوجوان کو تعلیم کے راستے دیے ہیں یہ محض یونیورسٹی کا نہیں بلکہ پنجاب حکومت کا بھی احسان ہے کہ ان طلباء کی سرپرستی کی گئی۔ جمعیت تو گورنمنٹ سائنس کالج اور اسلامیہ کالج سول لائنز میں اپنے کارکنوں کو تین تین دفعہ ماسٹر ڈگری پروگرام میں داخلے کراتی ہے تاکہ اُنہیں استعمال کیا جاسکے اور یوں نوجوانوں کی زندگیاں تباہ کی جارہی ہیں۔

جمعیت اور جماعت اسلامی نے اس ملک کے خلاف ایک نئی سازش کا آغاز کر دیا ہے اور ان پشتون اور بلوچ طلباء کو بار بار قوم پرستی کا طعنہ دے رہی ہے اور ان پر الزام لگایا جارہا ہے کہ یہ طلباء قوم پرست ہیں اور پاکستان کے خلاف ہیں اس لیے جمعیت پر فرض ہے کہ وہ انہیں محب وطن پاکستانی بنائے۔ حالانکہ ان طلباء نے نہ تو کبھی ملک دُشمن سرگرمی میں حصہ لیا بلکہ ملک دُشمن عناصر کے خلاف آواز بھی اُٹھائی۔ 23 مارچ کو پنجاب یونیورسٹی میں واحد یہ پشتون کونسل اور بلوچ کونسل ہی تھی جس نے قومی پرچم کے سائے تلے بلند آواز میں قومی ترانہ پڑھا اورامن پسند ہونے کے پیغام دیا۔

سائنس کالج سے جمعیت کا کارکن فارغ ہوتا ہے تو اسلامیہ کالج سول لائنز میں جاکر داخلہ لے لیتا ہے اور اسلامیہ کالج سول لائنز سے فارغ ہوتو سائنس کالج داخلہ دلوا دیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ان دونوں کالجوں میں جمعیت نے اپنے دفاتر بنا رکھے ہیں اور کالج پرنسپلز بے بس ہیں۔ میں تو حکومت پنجاب سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ان کالجوں سے جمعیت کے دفاتر بند کرائے جائیں اور کالجوں میں کئی کئی سالوں سے زیر تعلیم جمعیت کے کارکنوں کی جانچ پڑتال کی جائے اور ان کالجوں کے ہاسٹلز سے جمعیت کا قبضہ ختم کرایا جائے۔

پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت پر مکمل پاپندی اور جماعت اسلامی کے سیاسی لیڈروں کی بھی یونیورسٹی میں ان کی تقاریب پر پاپندیاں عائد کی جائیں یہ یونیورسٹی تعلیم کے لیے ہے کسی خاص نظریہ کے تحفظ اور جماعت اسلامی کے مفادات کے فروغ کے لیے نہیں بنائی گئی۔

اسی طرح پنجاب یونیورسٹی کے طلباء کے علاوہ کسی بھی دوسرے کالج اور یونیورسٹی کے طالبعلموں پر پاپندی عائد کی جائے تاکہ وہ یونیورسٹی کے تعلیمی ماحول کو تباہ کرنے کے لیے اندر داخل ہی نہ ہوسکیں۔

چنانچہ میں یہ بھی انتہائی ذمہ داری سے کہتا ہوں کہ پشتون کونسل سے وابستہ ایک بھی ایسا طالبعلم جس کا تعلق پنجاب یونیورسٹی سے نہیں ہے اُس کی نشاندہی کی جائے، تصاویری ثبوت فراہم کیے جائیں اور اُس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

پنجاب یونیورسٹی سے نفرتوں کوختم کرنا ہے اور تو پھر کسی بھی تنظیم کی اجارہ داری کو ختم کرنا ہوگا، یہاں نام نہاد مذہبی تصورات کے نام پر طلباء پر تشدد، اذیتیں، مذہب کے نام پر تنظیمی جھنڈوں تلے سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ ریاستی اداروں اور پنجاب حکومت کو یونیورسٹی کے معاملات کی نگرانی کرنا ہوگی اور فساد پھیلانے والوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائے، چاہے اس کا تعلق جمعیت سے ہو یا پشتون کونسل کے ساتھ۔


احمد ذوالفقار پشتون کونسل کے ممبر ہیں اور وہ انسٹی ٹیوٹ آف کیمونیکیشن اسٹڈیز پنجاب یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں۔

  1. حسینہ واجد، مجاہد کامران زندہباد. امریکی، برطانوی، سعودی غلامی، سرمایہ داریت مردہباد

  2. ہم نے پنجاب یونیورسٹی اور سائنس کالج کو پچھلے 22سال سے ریکھا ہے آپ نے جو بیان کیا ہے اصل حقیقت اس سے بڑھ کے کہیں زیادہ ہے۔ جن چیزوں پر یہ لڑکوں کی کھال اتارتے تھے استریاں لگاتے تھے ان کی جدید یونیورسٹیوں میں جا کر دیکھیں تو ان کے اپنے کارکن ان معاملات میں ملوث نظر آتے ہیں اگر مظاہرہ کرنا ہو تو کبھی
    یو ایم ٹی لاہور کا چکر لگا لیں
    جیسے آرمی نے مودودی صاحب کی کتابوں پر پابندی لگائی ہے تمام اداروں میں میرا خیال ہے ریاستی اداروں کو چاہیے کہ جماعتی اسلامی ذہنیت کے تمام پروفیسر اور سٹاف کو جبری ریٹائر کردیا جائے اگر اس ملک کو بچانا ہے اور معتدل لوگوں کو بھرتی کرنا چاہئے کیونکہ یہ ناسور ہیں اس سوسائٹی کہ

  3. مجاہد کامران اور راحیل شریف دونوں نے ایک ہی کام کیا بس دونوں سے ایک غلطی ہوئی انہوں نے مسائل کئ وجہ کو جڑ سے نہیں اکھاڑا اگر آنے والے ان کی اس غلطی سے سیکھیں تو دیرپا نتائج حاصل ہو سکتے ہیں ۔ ہونیورسٹی سے جمیوت اور ملک سے جماعت اسلامی ان کا قلع قمع بہت ضروری ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *