تعلیم کب بوجھ بن جاتی ہے؟

  • April 4, 2017 11:05 pm PST
taleemizavia single page

حنظلہ عماد

ایف ایس سی کرنے والے طالبعلم سے اگر پوچھا جائے کہ آپ کیوں ایف ایس سی کر رہے ہو؟ تو اس کا روایتی جواب یہی ملتا ہے کہ ڈاکٹر بننے یا پھر انجینئر بننے کے لیے۔اب اگر اسی طالبعلم سے ایک اور سوال یہ پوچھ لیا جائے کہ ڈاکٹر اور انجینئر ہی کیوں بننا چاہتے ہیں تو پھر روایتی جواب ملتا ہے کہ؛

ابو کی خواہش ہے، امی چاہتی ہیں، دادی کا خواب ہے، رشتے داروں میں فلاں کزن ڈاکٹر ہے، انجینئر ہے اس لیے میرا بھی اُن سے مقابلہ ہے اور میں بھی وہی بننا چاہتا ہوں۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ ان میں سے اکثر طلبا کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی اپنی خواہش کیا ہے۔

طالبعلم کی صلاحیت کی پرکھ کیے بغیر والدین اپنی خواہش اور صلاحیت کو اپنے بچے پر نافذ کر دیتے ہیں اور بچے اپنی صلاحیتوں کی جان کاری کیے بغیر گھر والوں کی خواہش کی پوجا شروع کر دیتے ہیں حتیٰ کہ اس کی خاطر اپنی قربانی بھی دے چھوڑتے ہیں جس کا نقصان بسا اوقات خود اسی خاندان کو بھی پہنچتا ہے۔

اب اگر طالبعلم ایف ایس سی میں محنت کے بعد امتیازی نمبر نہیں لے پاتا یا مقابلہ زیادہ ہونے کی بناء پر میڈیکل، انجینئرنگ میں داخلہ نہیں ہوتا تو خواب پھر خواب ہی رہ جاتے ہیں چاہے یہ خواب طالبعلم کے اپنے ذاتی ہوں یا پھر اہل خانہ کے۔

محض یہی نہیں بلکہ یوں بھی ہوسکتا ہے کہ موصوف کی طبعی صلاحیتیں ہی ڈاکٹر اور انجینئرز بننے کے مواقف نہ ہوں۔ گویا اب یہی طالبعلم کسی اور شعبے میں قسمت آزمائی کرتا ہے اور یوں نئے راستوں کی تلاش شروع ہوجاتی ہے اور وہی زندگی کا مقصد ٹھہر جاتا ہے۔

اب سکول سے لے کر کالج تک کی تعلیم میں اس طالبعلم کو نہ تو کیرئیر کونسلنگ میسر ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے مستقبل کی منصوبہ بندی میں تعلیمی ادارے کا کوئی عمل دخل ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ ہماری یونیورسٹیز میں بھی طلباء کو کم و بیش یہی مسئلہ درپیش ہوتا ہے۔

اب اگر ڈاکٹر اور انجینئر بننے کی خواہش پوری نہیں ہوئی تو پھر جنرل یونیورسٹی کا رُخ اختیار کیا جاتا ہے۔ اب وہاں اگر داخلہ مل جائے تو پھر ایک نئی آزمائش شروع ہوجاتی ہے۔ یہاں مقصد صرف داخلہ لینا تھا سو وہ پورا ہوگیا اب اس مضمون کا اس کی زندگی، ذاتی دلچسپیوں، مزاج اور ذہن سے میلاپ رکھتا ہے یا نہیں اس کا اندازہ تو شاید دو یا تین سمیسٹرز بعد ہی ہوتا ہے۔

پھر ایک سٹیج آتی ہے کہ یہی طالبعلم یہ سوچتا ہے چلو ڈگری مکمل کر لیتے ہیں پھر دیکھیں گے کیا کرنا ہے چنانچہ وقت گزاری کے ساتھ ساتھ امتحان پاس ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر ڈگری مل جاتی ہے۔

ڈگری کے بعد یہی شخص اب دوبارہ سے اپنی منزل کی تلاش کا آغاز کرتا ہے۔ چھوٹی بڑی ملازمت مل جائے تو دفاتر میں ذہن آزمائی کا امتحان ہوتا ہے وگرنہ مشین کی طرح پورا ہفتہ ملازمت کر کے اپنے ضمیر کو تسلی دینے کی ایکسرسائز کی جاتی ہے۔

گویا جس سکول، کالج اور یونیورسٹی کے سفر کو مکمل کر کے ایک گریجویٹ تیار ہوا اس کی ڈگری اس کے مزاج و صلاحیتوں سے میل نہیں کھاتی اور اگر ذہن سے میلاپ ہو بھی جائے تو آدمی اپنی ذات کا ہی غلام ہو کر رہ جاتا ہے۔

تعلیمی شعبے میں پسماندگی اپنی جگہ لیکن طالبعلم کی صلاحیت کی بناء پر اس کے لیے ڈگری کا انتخاب کرنے کا کوئی میکانزم تعلیمی سسٹم میں رکھا ہی نہیں گیا۔

اب ذرا تصویر کا دوسرا رُخ ملاحظ فرمائیے؛ درس و تدریس مقدس پیشہ ہے، تعلیم و تعلم انسانی شعور کا وسیلہ ہے۔ مشاہدہ میں آتا ہے کہ جو اُستاد سکول یا پھر یونیورسٹی میں تعینات ہے اُس کی خواہش تو انجینئر بننا تھی لیکن وہ سسٹم کے ہاتھوں اُستاد بن گیا اب اس میں اُستاد بننے کی صلاحیت تھی یا نہیں نہ تو سسٹم کو اس سے کوئی سروکار تھا اور نہ ہی خود اس حادثاتی طور پر اُستاد بن جانے والے فرد کو۔

علم کے شعبے میں پھر یہی اُستاد بڑے شاگرد پیدا کرنے سے عاری ہوتا ہے گویا اُستاد شاگرد پر اور شاگرد اُستاد پر بوجھ بن جاتا ہے اور اس کا نقصان قومی سطح پر پاکستانی سماج کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔

تعلیمی اعتبار سے سماجی انحطاط پذیری کے المیہ کا اندازہ یوں بھی لگا لیجئے کہ بڑے شہروں میں میڈیکل اور انجینئرنگ کی یونیورسٹیز میں زیر تعلیم ایسے طالبعلم بھی مل جاتے ہیں جو عملی شعبے میں ایک نئی قسمت آزمائی کی جدوجہد میں ہوتے ہیں۔ اب یہ طالبعلم اپنی اس ڈگری کے ساتھ لاء، سی ایس ایس کرنے کی خواہش کر لیتے ہیں، اب اسے کیا نام دیا جا سکتا ہے وہ آپ خود ہی طے کر لیجئے۔

اب جس ڈاکٹر اور انجینئر پر عوامی ٹیکسوں سےسرکاری وسائل خرچ ہوتے ہیں وہ جب ہر فن مولا بننے کی کوشش میں ہو تو اس کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے؟

ہر فرد کا ذہن اور صلاحیت کا ملکہ دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اگر کسی کا ذہن اور دلچسپی سیاست میں ہے تو اسے سوشل سائنسز پڑھنے دیجئے وہ اسی میں بھر پور دلچسپی سے اپنا نام پیدا کرے گا۔ اسے اگر اور کسی میدان میں بھیج دیا گیا تو وہ وقت کے ضیاع کے ساتھ قوم کے وسائل اور سرمایہ کے ضیاع کا باعث بھی بنے گا۔

اب اس سنگین مسئلے کا حل نہ تو میڈیا نے فراہم کرنا ہے اور نہ ہی اہل دانش اس پر کوئی رائے دیتے نظر آتے ہیں۔

اس بنیادی مسئلے کا حل صرف اس میں پوشیدہ ہے کہ سکول کی سطح پر ایسا سسٹم نافذ کیا جائے کہ جہاں پر بچوں کی درجہ بندی ان کی صلاحیتوں کی بناء پر کی جائے اور پھر سسٹم طے کرے کہ بچے کے محفوظ مستقبل کا کونسا بہتر راستہ ہوسکتا ہے۔

اس کے لیے سکول کی سطح پر کیرئیر کونسلنگ سنٹرز بنائے جائیں اور میکانزم وضح کیا جائے کہ کون سی صلاحیتوں کے حامل بچے انجینئرز بنیں گے، کون سی صلاحیتوں کے حامل بچے اُستاد۔

اسی میکانزم کا اگلا درجہ کالج کی سطح پر ہو اور وہاں کے کورسز، پروگرامز اور عملی مشقیں انہی صلاحیتوں کے نکھار کے لیے موجود ہوں گویا تعلیم بھی میسر ہے اور ساتھ میں معاشرے کے کارآمد افراد کی تیاری بھی کی جارہی ہے۔

یونیورسٹیوں میں بھی اسی طرح کے کیرئیر کونسلنگ سنٹرز ہوں جہاں پر طالبعلم کو یہ معلومات دی جائیں کہ وہ جس کورس میں زیر تعلیم ہے اس سے متعلق کہاں کہاں ملازمت یا پھر نئے آئیڈیاز پر کام کے مواقع موجود ہیں۔

ان یونیورسٹیوں سے طلباء کو ملازمت کی خاص ذہنیت سے بھی آزادی دینے کا بندوبست ہو تاکہ طالبعلم اینٹرپرینورشپ کا راستہ بھی اپنائیں اور روزگار کے نئے راستے متعین ہوسکیں۔

تعلیم کو سماجی ضروریات کے تابع بنانے کے لیے تعلیمی سسٹم پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے اور اس کے لیے بڑے شہروں کے تعلیم یافتہ افرادکو باقاعدہ مہم شروع کرنی چاہیے اور اس کے ذریعے سے سیاستدانوں پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ تعلیمی امور پر اہم تبدیلیاں کریں۔


حنظلہ عماد ایم فل سکالر ہیں اور وہ کیرئیر کونسلنگ میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *