اسلامی جمعیت طلباء عروج سے زوال تک

  • January 24, 2018 12:23 pm PST
taleemizavia single page

ندیم ایف پراچہ

اسلامی جمعیت طلباء پاکستان میں سب سے بڑی اور زیادہ منظم طلباء تنظیم ہے۔ ملک میں ستر کی دہائی سے لیکر نوے کی دہائی تک ہماری یونیورسٹیوں، کالجوں کے نوجوان کو سیاسی اسلام کا نظریہ سیکھانے کا آئیڈیولوجیکل انجن رہی ہے۔ بنیادی طور پر یہ جماعت اسلامی کے بطن سے پیدا ہوئی ہے ،فیلڈ مارشل ایوب خان کے مارشل لاء کے بعد جمعیت کی طلباء سیاست کو عروج ملا۔

اس وقت پاکستان کی یونیورسٹیوں میں بائیں بازو کی طلباء تنظیمیں طاقتور تھیں اور ان کا طلباء پر بہت زیادہ اثر بھی رہا جس میں ڈیموکریٹک سٹوڈنٹس فیڈریشن اور نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن نمایاں تھیں۔

اسلامی جمعیت طلباء کو ہدایات ہمیشہ سے ہی جماعت اسلامی کی قیادت سے ملتی رہی ہیں اور ایوب حکومت کے خلاف مزاحمت میں یہ نمایاں رہی ہے اسی دوران جمعیت نے تعلیمی اداروں میں بائیں بازو کی طلباء تنظیموں کی برتری کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔

جماعت اسلامی نے جمعیت کو طلباء یونین کے انتخابات میں طاقت دینے کے لیے بھاری فنڈنگ کرنا شروع کر دی یوں جمعیت آہستہ آہستہ تعلیمی اداروں میں دائیں بازو کی سیاست کےباعث الیکڑول فورس بن کر اُبھری۔

گویا طلباء یونین کے انتخابات میں جمعیت کو 1960ء میں پاکستان کی دو بڑی یونیورسٹیوں، کراچی یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں ملنے والی کامیابی کے بعد زیادہ مضبوط بن کر اُبھری۔

اسی دوران اچانک بائیں بازو کے نظریات کو اُس وقت طاقت ملی جب پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان اور بنگالی نیشنلسٹ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں اپنا اثر پیدا کیا۔ اب جماعت اسلامی اور جمعیت نے پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کے خلاف پراپیگنڈہ مہم چلائی اور اس کے لیے ریلیاں نکالی گئیں اور جماعت اسلامی کے سربراہ ابو الاعلی موددودی کے تحریر کردہ لٹریچر کو تقسیم کرنا شروع کر دیا۔

یہ لٹریچر بائیں بازو کے نظریات کے خلاف، صوبائیت، قوم پرستی کے خلاف تھا کیونکہ اس وقت سندھی، پشتون، بلوچ اور بنگالی قوم پرستوں کی تحریک زور پکڑ رہی تھی۔ دائیں اور بائیں بازو کے نظریات کی اس جنگ میں یونیورسٹیاں مرکز بنیں اور طلباء اس جنگ کا ایندھن بنے۔

ایوب خان کے استعفیٰ کے بعد جب جنرل یحییٰ خان کو 1969ء میں حکومت ٹرانسفر ہوئی تو جماعت اسلامی اور جمعیت کو بہت بڑی سپورٹ ملی اور بائیں بازو کے نظریات کو ختم کرنے کے لیے یحییٰ خان نے ان دونوں جماعتوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔

اگرچے ایوب حکومت کی طرح یحییٰ کی حکومت بھی سیکولر نظریات پر تھی لیکن مورخین کا ماننا ہے کہ 1970ء کے عام انتخابات کے دوران یحییٰ نے جمعیت اور جماعت اسلامی کو معاشی اور لوجسٹک سپورٹ فراہم کی۔

جماعت اسلامی کو حکومت اور حکومتی پریس کی جانب سے حمایت حاصل تھی لیکن اس کے باوجود سیکولر اور بائیں بازو کی نظریاتی جماعتوں سے انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری جانب اسلامی جمعیت طلباء نے ملکی یونیورسٹیوں میں خود کو تیزی سے منظم کرنا شروع کر دیا یوں طلباء تنظیموں میں جمعیت ایک منظم اور طاقتور تنظیم کے طور پر سامنے آئی۔

ستر کی دہائی میں جمعیت کے طاقتور ہونے کی بڑی وجہ این ایس ایف میں بڑھتے اندرونی اختلافات اور گروپنگ بھی تھی، پیپلز پارٹی کی طلباء تنظیم پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن، ریڈیکل سندھی، بلوچ اور پشتون طلباء تنظیموں نے پروگریسو ووٹ کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کر دیا جس کی وجہ سے سٹوڈنٹ یونین کے الیکشن پر بھی اثرات مرتب ہوئے۔

ساٹھ کی دہائی کے بعد چھوٹے شہروں سے طلباء کی بڑی تعداد ملک کے بڑے شہروں کے کالجوں اور یونیورسٹیز میں پڑھنے کی غرض سے آنا شروع ہوئی اور اس نئے رجحان کا سب سے زیادہ فائدہ جمعیت نے اُٹھایا۔ جمعیت نے ان طلباء کے لیے سٹڈی سرکل منعقد کرنا شروع کیے اور انہیں اپنے نظریات پڑھائے اور سیکھائے۔ جمعیت نے یہ تنظیمی صلاحیت پروگریسو طلباء تنظیموں سے سیکھی تھی اور اب سٹڈی سرکل کے رواج کو جمعیت نے موثر انداز میں استعمال کرنا شروع کر دیا۔

دیہی علاقوں سے شہروں میں پڑھنے کے لیے آنے والے طلباء کی مدد سے جمعیت کو نئے رجال کار پیدا کرنے کا بھر پور موقع ملا اور اس پر انتہائی منظم انداز میں جماعت اسلامی کی نگرانی میں جمعیت نے کام کرنا شروع کر دیا۔ نئے آنے والے طلباء کو سٹڈی سرکل میں مدعو کیا جاتا جہاں پر جمعیت کے سینئر حضرات ان طلباء کو مودودی کا لٹریچر دیتے، رہنمائی کرتے اور ان کی سرپرستی کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی۔

وسط ستر کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹ میں ناقابل شکست جماعت کے طور پر اُبھری جبکہ اسلامی جمعیت طلباء کو ملک بھر کی سٹوڈنٹ یونینز پر مکمل کنٹرول حاصل تھا جبکہ بائیں بازو کی طلباء تنظیمیں متعدد گروپس میں تقسیم ہو کر اپنی طاقت کھو چکی تھیں۔

ستر کی دہائی گواہ ہے کہ جمعیت زیادہ شدت پسند نظریات کی حامل ہوتی چلی گئی جس کی بنیاد ساٹھ کی دھائی میں رکھی گئی تھی۔

اکہتر میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے دوران جمعیت نے پاکستانی فوج کا نہ صرف ساتھ دیا بلکہ بنگالی قوم پرستوں کے خلاف متعدد کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔

ریاست پاکستان نے مشرق میں قوم پرستوں کے خلاف دو تنظیمیں کھڑی کیں جس میں البدر اور الشمس شامل ہیں اور ان دونوں شدت پسند تنظیموں میں جمعیت کے کارکنان تھے۔

ان تنظیموں کے عسکری ونگ تھنڈر سکاڈ کہلانے لگے جن کا مشن تعلیمی اداروں میں کارروائیاں کرنا تھا اور جمعیت کے مخالفین پر پُرتشدد واقعات میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ تھنڈر سکاڈ کی پُر تشدد کارروائیوں کا جمعیت کی ساکھ پر بہت منفی اثر مرتب ہوا اور اس کے نتائج سٹوڈنٹ یونین کی سیاست پر بھی ہوئے۔

اُنیس سو چوہتر میں جمعیت نے پنجاب میں احمدی مخالف تحریک میں بھی بڑھ کر حصہ لیا اور اس تحریک نے مطالبہ کیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔ تحریک کے دوران پُر تشدد واقعات، احمدیوں کے کاروبار اور ان کی عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا جانے لگا اور حکومت پر دباؤ ڈالا گیا کہ انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔

جمعیت کے تشدد پسندانہ سرگرمیوں کے باعث اُنیس سو پچھتر کے سٹوڈنٹ یونین الیکشن میں کراچی یونیورسٹی اور لاہور کے کالجوں میں جمعیت کو شکست ہوگئی۔

جمعیت کی اُس وقت چاندی ہوگئی جب اس دوران ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جماعت اسلامی کی قیادت میں پاکستان نیشنل الائنس بنا جو دو سال میں مضبوط تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ پی این اے کے پلیٹ فارم سے جماعت اسلامی نے 77ء کے الیکشن میں بھٹو پر دھاندلی کا الزام لگایا گیا جس کے بعد بھٹو کی حکومت کا خاتمہ اور نظام مصطفیٰ کا مطالبہ زور پکڑ گیا۔

پی این اے کی تحریک کو کراچی اور لاہور میں جمعیت نے منظم کیا اور طلباء کے ذریعے سے جمعیت نے ریلیاں نکالیں، ہنگامے کیے اور متعدد بار پولیس کے ساتھ جھڑپیں بھی ہوئیں۔

جولائی 1977ء میں بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد جب ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالا تو طلباء سیاست میں تشدد شامل ہونے کے باعث خود حکومت کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

جماعت اسلامی نے ضیاء کی آمریت کے دوران کیبنٹ میں شمولیت اختیار کی اور پاکستانی معاشرے کو اسلامائز کرنے کی مہم کا آغاز کیا گیا۔

اسی طرح ضیاء آمریت کے خلاف طلباء کی آواز کو دبانے کے لیے اسلامی جمعیت طلباء نے آمریت کا ساتھ دیا۔ جمعیت کی اس حمایت کا اثر ان کے ووٹ بنک پر ہوا اور یونیورسٹیوں، کالجوں میں جمعیت کے حامیوں میں کمی ہونے لگی۔

ستر کی دہائی میں جمعیت نے جو طاقت حاصل کی تھی اب 1978ء سے 1983ء کے دوران زوال کی طرف بڑھنے لگی، آئے روز ہنگامے، تعلیمی اداروں میں مخالف تنظیموں کے ساتھ کشیدگی اور افغانستان کے جہاد میں امریکیوں کی حمایت نے تاریخ کا رُخ ہی بدلنا شروع کر دیا اور جمعیت اس کو ٹھیک طرح سے بھانپ ہی نہ سکی۔

چنانچہ 1983ء میں سٹوڈنٹ یونین کے الیکشن میں ملک بھر کے تعلیمی اداروں سے جمعیت کو شکست ہو گئی اور جمعیت کے بنیاد پرست نظریات نے جیتنے والے اُمیدواروں کو بھی یونیورسٹیوں میں شکست سے دو چار کر دیا۔ جمعیت کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا تھا جس کا اُنہیں تصور بھی نہیں تھا۔

ملک بھر میں سٹوڈنٹ یونین کے آخری الیکشن تھے اس دوران ہی جمعیت اور جماعت اسلامی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ضیاء آمریت کی حمایت، افغان جہاد کے لیے افرادی قوت کی فراہمی اور جہادی کیمپوں میں اثر پذیری نے دونوں تنظیموں کی ساکھ ہی ختم کر دی۔

اس کے بعد ضیاء الحق نے سٹوڈنٹ یونین پر ہی پاپندی عائد کر دی۔ یہ پاپندی جمعیت کے علاوہ باقی تمام تنظیموں پر لگائی گئی اور جمعیت کو ایک بار پر یونیورسٹیوں، کالجوں میں آزادی سے کام کرنے کا موقع مل گیا۔ لیکن اس کا جمعیت کو کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوسکا کیونکہ جمعیت کو طلباء کیمونٹی نے بڑے پیمانے پر رد کر دیا تھا۔

کراچی میں تو آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹس آرگنائزیشن نے بھی جمعیت کی پوزیشن کو بہت کمزور کر دیا۔ پنجاب میں ضیاء آمریت سے جنم لینے والی پاکستان مسلم لیگ کی طلباء تنظیم مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن نے جمعیت کے خلاف قوت آزمائی شروع کر دی۔ 1987ء سے 1994ء کے درمیان جمعیت، ایم ایس ایف اور جمعیت اے پی ایم ایس او کے درمیان جھڑپیں، ہنگاموں کے متعدد واقعات ہوئے۔

جب ضیاء حکومت کا 1988ء میں خاتمہ ہوا تو پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو نے طلباء یونین پر پاپندی ختم کر دی۔

طلباء یونین کے 1989ء کے الیکشن پنجاب اور خیبر پختونخوا میں منعقد ہوئے جہاں جمعیت کو شکست ہوئی صرف پنجاب یونیورسٹی کے علاوہ جمعیت کو پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن، ایم ایس ایف اور انجمن طلباء اسلام سے شکست ہو گئی۔

اس شکست کے بعد تھنڈر سکاڈ ختم ہوگیا لیکن ایک سال بعد جمعیت نے اللہ ٹائیگر کے نام سے عسکری ونگ بنایا جس کا کام یونیورسٹیوں میں کلچرل تقریبات پر غنڈہ گردی کر کے توڑ پھوڑ کرنا ہوتا تھا اور اللہ ٹائیگر کلچرل تقریبات کو غیر اسلامی تصور کرتا تھا۔ جماعت اسلامی نے اُنیس سو نوے میں اللہ ٹائیگر پر خود سے پاپندی لگا دی۔

اسلامی جمعیت طلباء جنرل پرویز مشرف کی آمریت کے دوران بھی زیادہ تر خاموش رہی اگرچے یہ دو حکومت اسلامی مفادات کے خلاف تھا۔ اس کے بعد جمعیت اور جماعت اسلامی نے امریکہ مخالف ریلیاں نکالنا شروع کیں حالانکہ افغان جہاد میں جماعت اسلامی نے امریکی مفادات کا تحفظ کیا اور بطور اتحادی امریکہ کے لیے کام بھی کیا۔

اسلامی جمعیت طلباء کے اندرونی دھڑوں میں ایسے گروپس کا بھی وجود رہا ہے جو اسلامی شدت پسندی کے حامی ہیں اور اُسامہ بن لادن اور طالبان کی کھل کر حمایت کرتے رہے ہیں۔

جمعیت کا اب ملک کی اکثر بڑی جامعات میں کنٹرول نہیں رہا اور طلباء کی اکثریت میں جمعیت کی مقبولیت کا گراف مسلسل نیچے گر رہا ہے۔ جمعیت میں نظریاتی طلباء کی کمی اور مفاد پرست افراد کے ٹولے نے قبضہ کر لیا ہے اور جماعت اسلامی اب بھی جمعیت کو اپنا حقیقی اثاثہ سمجھتی ہے اگرچے جماعت کو اب جمعیت سے رجال کار بڑی تعداد میں میسر نہیں ہیں۔


بشکریہ ڈان نیوز

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *