بھارت 2030ء ویژن کے تحت یونیورسٹیز کی عالمگیریت کا خواہاں

  • January 4, 2017 9:00 pm PST
taleemizavia single page

رپورٹ: طیبہ چوہدری

بھارت کی ایک ارب تین کروڑ کی آبادی کا نصف پچیس سال کے لگ بھگ ہے۔ دو ہزار تیس تک بھارت میں چودہ کروڑ افراد کالج میں ہم پلہ ہوں گے اور یوں بھارت تعلیم یافتہ افرادی قوت پیدا کرنے میں دُنیا بھر میں نمایاں ہوگا لیکن بھارت کو اس وقت اعلیٰ تعلیم کی پالیسی بنانے کے لیے چیلنجز کا سامنا ہے کہ وہ آبادی کی تقسیم کو مد نظر رکھتے ہوئے موثر تعلیمی ڈھانچہ تشکیل دے۔

بھارت میں جب اُنیس سو پچاس میں تعلیمی سروے کیا گیا تو اُس وقت 0.4 فیصد لوگ اعلیٰ تعلیم کے حصول کا رجحان رکھتے تھے جبکہ دو ہزار پندرہ میں یہ تناسب تیئس فیصد ہوگیا ہے۔ بھارتی حکومت دو ہزار بیس تک یہ تناسب 30 فیصد تک پہنچانا چاہتی ہے۔ اس وقت بھارت کے کالجوں میں ہر سال طلباء کے داخلوں کی شرح میں ایک فیصد اضافہ ہورہا ہے۔

دنیا بھر میں چائنہ اور امریکہ کے بعد طالبعلموں کے داخلوں کی شرح میں اضافہ کے لحاظ سے تیسرا بڑا اعلی تعلیمی نظام رکھنے والا ملک بھارت ہے۔ دو ہزار تیرہ کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں تین کروڑ 23 لاکھ طالبعلم اعلیٰ تعلیمی پروگرام میں داخل تھے اب بھارت اپنی یونیورسٹیوں میں معیار تعلیم، شرح داخلہ بڑھانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہا ہے۔

بھارت میں تقسیم ہند کے وقت بیس یونیورسٹیاں اور پانچ سو کالجز تھے اور دو ہزار کی سرکاری رپورٹ کے مطابق بھارت میں سات سو اٹھائیس یونیورسٹیاں اور بیس ہزار سینتیس کالجز ہیں۔

بھارت اب اپنی یونیورسٹیوں کو انٹرنیشنلائزیشن یعنی عالمگیریت کی طرف لے کر جارہا ہے۔ ویسے ہندوستان میں غیر ملکی طلباء کا یہاں آنا نیا نہیں ہے۔ ٹیکسلا کی نالندہ یونیورسٹی اس خطے کی قدیم ترین یونیورسٹی ہے جہاں غیر ملکی طلباء بھی بڑی تعداد میں زیر تعلیم تھے۔

اب بھارت کی گزشتہ بیس سالوں سے غیر ملکی طلباء کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مختلف اندازوں کے مطابق’ تین لاکھ بھارتی طلباء ہر سال بیرون ملک روانہ ہوتے ہیں جبکہ بھارت کی طرف آنے والے طلباء کی تعداد بائیس ہزار سے پچیس ہزار کے درمیان ہے۔ چین بین الااقوامی طلباء کو اپنی طرف متوجہ کر کے ایک نئے دور کا آغاز کر رہا ہے اسکا ہدف 2020ء تک تین لاکھ تیس ہزار طلباء سے پانچ لاکھ طلباء ہے۔ سنگاپور 90،000 اور ملائیشیا 2020ء تک 2 لاکھ طلباء کا ہدف لیے ہوئے شاندار بین الاقوامی تعلیم کی منازل بن گئے ہیں۔

بھارتی نقطہ نظر سے مقام ارتکاز اس بات پر ہے کہ وسائل سے تعمیری طاقت کیسے قائم کی جائےتاکہ وسائل کی رسائی میں اضافہ ‘ اعلی کوالٹی اور تنوع کی حوصلہ افزائی ہو’اور ساتھ ساتھ اعلی تعلیم کی عالمی مارکیٹ سے وابستگی تجارتی سہو لتوں کی طرح کم نہ ہو بلکہ بڑھے۔

اس سلسلے میں’ حکومت کے موجودہ اقدا مات میں ‘ نئی تعلیمی پالیسی مثبت قدم ہے معیار تعلیم کے ذریعے مکمل طاقت’ ایک اساسی موضوع ہے رپورٹ’تعلیمی میدان میں’ انتہائی اہم تبصرے اور مخصوص اقدامات فراہم کرتی ہےاور ریگولیشن ، سیلف گورننس و اصلاحات جیسے مسائل کو مدنظر رکھتی ہے تاکہ قومی سطح کے اداروں کو مضبو ط تر بنایا جا سکے۔

خصوصا بین الااقوامی اعلی تعلیم کے دائرے میں’ رپورٹ طلباء کی تغیر پزیری میں عدم توازن کوتسلیم کرتی ہے اور تجویز دیتی ہے کہ “منتحب غیر ملکی جامعات ‘جو200 سب سے اعلی درجے پر ہیں’ انکی حوصلہ افزائی کی جائے اور انکی موجودگی کے ذریعے اشتراک کے ساتھ بھارتی یونیورسٹیوں کو مزید آگے بڑھایا جائے”۔ بیرون ممالک یونیورسٹیو ں کیلئے ممکن بنایا جائے کہ بھارت میں زیر تعلیم طلباء کو اپنی ڈگریوں سے نوازیں تاکہ یہ ڈگریاں بیرون ملک میں معقول درجہ ٖحاصل کر سکیں ۔

اعلی تعلیمی اعتراضات و نوازشات کےلحاظ سے’عالمگیریت میں ‘ بہترین سہولیات میں اضافی صلاحیت،اعلی رسائی،مشترکہ نصاب تعلیم، نصابی تنوع، اظہار تدریس اور آموزش کے نت نئے طریقوں کی تلاش،قابلیت کی بڑھتی موازنت، نظم و نسق اور بندوبست کی تعلیم کے لئے درکار نظام، ذہین اور باکمال لوگوں کی نقل مکانی، اتحاد ثقافت، تلاش کی بڑھتی قابلیت اور مختلف خیالات کا تبادلہ،بین الااقوامی و بین مضا مین گروہ اور نئے تعلیمی ماحول کی تخلیق شامل ہے۔

خطرات و دعوے کوالٹی مہیا کرنے کی فکر میں ہیں۔اسی خطے میں’بڑھتی ہوئی فیسوں کی بہم رسانی اور امتیازات کی پہنچ ایک نیا نظام تشکیل دیتی ہے جو راستی و رسائی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ بھارت میں اعلی تعلیم ‘ تعلیم و قومی دونوں سطحوں پر ایک جامع اور عالمگیر حکمت چاہتی ہےتاکہ تعلیمی مرکز کی جغرافیائی مقامات کی ترکیب میں اضافہ وتعمیر ہو اور نامور غیر ملکی اداروں کو اجازت دی جائے۔

تاکہ وہ اپنی تو ضیح قائم کر سکیں اور انڈیا میں مشترکہ اقدامات کے ذریعے ڈیزائن کو حقیقت میں بدلا جا سکے، نئے آفس ، جگہوں اور مشترکہ ریسرچ کو بڑھایا جا سکے اور عالمی و علمی سرگرمیاں منعقد کر کے صلاحیت ومہارت پیدا کر نے میں مدد ملے۔ اسطرح طلباء کی نقل و حرکت کو کم کر کے برآمداتی کمائی کو پر کشش بنایا جا سکتا ہے۔

ایسی مربوط حکمت عملی کا قیام عمل میں لایا جائے جو چھوٹے شہروں کی تعمیر کے لیے حکومت کی مدد کرے۔

بین الاقوامیت سازی کا دوسرا پہلو کسی کیمپس یا مقامی ادارے کے ساتھ ترکیبی شراکت داری میں بیرون ملک بھارتی اداروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ بین الااقوامی اعلی تعلیم کے اداروں کے ساتھ اشتراکیت’ باکمال درجہ بندی کے مینار اور باربار دہرائی گئی ثقافتی تحقیقات کو لا متناہی مواقع فراہم کرتی ہے۔

چونکہ متعدد بھارتی اداروے تحقیق میں مصروف ہیں تو عالمی منظوری کا مستحق ہونا اور اس بات کی ترجمانی کرنا ضروری نہیں۔ آبادیاتی تقسیم کی قوت کو عالمی مارکیٹ میں مسابقت حاصل کرنے اور اقتصادی ترقی کو برقرار رکھنے کے لئے اعلی تعلیم کو نہ صرف درآمداتی بنیادی ڈھانچے اور وسائل کی ضرورت ہے بلکہ اپنے قدم جما کر تحقیقی صلاحیتوں کو ابھارنا پڑے گا۔

قابلیت کی تعمیر اور معیار میں اضافے کے لئے بھارت کو ایسی یونیورسٹیوں کی ضرورت ہے جن کا عالمی سطح پر مربوط جال ہو۔

بھارت جس طرح ‘معشیت کو ادار کرنے اور اسے دنیا بھر میں پیش کرنے کے لئے کوشاں ہے ‘اعلی تعلیمی شعبہ بھی مضبوط بین الاقوامی شراکت داری سے بہرہ ور ہو گا اس سلسلے میں بھارت عالمی طلباء کی آبادی اور بین الاقوامی تعلیمی اداروں کو سہولیات بکثرت فراہم کرتا ہے۔

نیز بھارتی تنظیمیں کام کے تجربے اور فیض کے لئے اجتماعی ، عوامی اور سماجی شعبوں میں تجددانہ اور انگیزندہ سہولیات مہیا کرنے میں پیش پیش ہیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *