نوآبادیاتی عہد کے زخم اور تاریخ بطور مضمون

  • August 10, 2019 8:27 pm PST
taleemizavia single page

آمنہ مفتی

تاریخ ایک ایسا مضمون ہے جسے تعصب کی عینک لگائے بغیر پڑھنا خاصا مشکل کام ہے، لیکن جب ایک بار تاریخ کو پڑھ لیا جائے تو تعصب کا چشمہ خود بخود اتر جاتا ہے، نظریات کی بیساکھیاں اور جبر کے کھوپے اترتے ہیں تو اسپِ خیال، دگڑ دگڑ، جانے کون کون سے بحرِ ظلمات میں جا نکلتا ہے اور ایسی وادیوں اور گھاٹیوں کی خبریں لاتا ہے کہ قلب و نظر جو پہلے ہی پے در پے امتحانات کی ضد میں رہتے ہیں، نت نئے عذاب میں مبتلا ہوتے ہیں۔

کالو نیل دور، شاید تاریخ کا تاریک ترین دور نہ تھا مگر چونکہ، ماضی قریب کا قصہ ہے اس لیے اس دور کے فرعونوں کی حماقتیں ابھی وقت کی دھول میں نہیں دبیں۔ وہ لوگ ابھی زندہ ہیں، جنھوں نے اپنی آنکھوں سے کالو نیل دور کاخاتمہ بالعیب دیکھا اور وہ لوگ بھی زندہ ہیں جو اس دور کی پالیسیوں، قوانین اور جبر کا آ ج تک شکار ہیں۔

بیسویں صدی کے وسط میں کالونیل دور تقریباً اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ ہٹلر نامی بلا نے انگریز بہادر کی کمر ایسے توڑی کہ اسے پورے کرّے سے اپنا باسن افراتفری میں سمیٹ کر بھاگنا پڑا۔

یوں جاتے ہوئے وہ اپنا سبھی کچھ لے گئے سوائے اپنی بنائی ہوئی فوجوں، عدلیہ، سکولوں، عمارتوں، ریلوے لاینوں، پلوں، سپتالوں، بابوؤں، سیاسی جماعتوں اور نانصافیوں کے۔

سامان باندھتے ہوئے وہ ہر ہر علاقے کی جی دار نسلوں کو مار کے، ان کی جگہ نااہلوں اور جی حضوری کرنے والوں کو سرفراز کرکے ایک گندی اشرافیہ بنا گئے۔ دولت، پیسہ سمیٹا تو الگ سمیٹا، انسانوں کی بہت بڑی بڑی آ بادیوں کو اتنی بے دردی سے جلا وطن کیا کہ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

جن علاقوں سے بھی انگریز اور فرانسیسی گئے، وہاں ان کی چھوڑی ریلوے لائنوں پہ لوگ سر رکھ کے خودکشیاں کرتے ہیں، بابو سرخ فیتے کے آ گے کسی کی چلنے نہیں دیتے، فوجیں اپنے ہی لوگوں کو مارتی ہیں، عدالتی نظام، انصاف نہیں دیتا، تعلیمی نظام چوکور دماغ پیدا کرتا ہے اور پرانے پلوں کے نیچے آوارہ بلیاں بچے دیتی ہیں۔

ڈیڑھ سو سال کی شاندار حکومت، (جس میں انگریز نواب، سونا پھانکتے اور ہاتھیوں پہ ہوا خوری کرتے تھے )کرنے کے بعد، یہاں سے جاتے ہوئے کچھ ایس افراتفری اور بے زاری تھی کہ ساری بساط یوں ہی الٹی پلٹی چھوڑ کے چلے گئے۔ بہت باریکیوں میں جائے بغیر، صرف روہنگیا اور کشمیر پہ ہی غور کر لیا جائے تو اندازہ ہو جائے گا کہ جانے کی بہت گھبراہٹ تھی۔ 1947 میں جب پاکستان بنا تو اس وقت شمال مشرق میں اس کی سرحد، کشمیر تک اور بنگال میں برما کے صوبے ارکان تک پھیلی ہوئی تھی۔ ہندوستان کی آزادی چونکہ تقسیم کے ساتھ مشروط تھی اس لیے کہیں نہ کہیں تو سرحد کھینچنی ہی تھی۔

زمین تقسیم ہو جاتی ہے، خرابی تب ہوتی ہے جب انسان تقسیم کیے جاتے ہیں۔ آبادی کی حرکیات کو جاننے والے یہ بھی جانتے ہوں گے کہ جب لوگ کسی دباؤ کے بغیر فقط معاش کے لیے ادھر سے ادھر آتے جاتے ہیں تو کہیں بھی کوئی اقلیت جنم لے سکتی ہے جو حالات سازگار پا کر اکثریت میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے۔

بہت ممکن ہے کہ جن علاقوں میں کوئی ایک قوم اکثریت میں ہو اس سے فوری اگلے علاقے میں یوں نہ ہو، مگر اس سے اگلے علاقے میں پھر وہی قوم اکثریت میں ہو۔ اب ان انسانوں کو چن چن کر ایک ایک ڈبے میں بند تو کیا بھی نہیں جا سکتا، لیکن فارمولا یہ ہی تھا۔ اس فارمولے نے جو گل کھلائے وہ کس سے پوشیدہ ہیں۔

انسان میں بس جانے اور جیتے رہنے کی خواہش ہے، ملک پھر سے بس گئے لیکن بہاری، روہنگیا، کشمیری اور کشمیری پنڈت، یہ وہ انسان ہیں جو پھر کبھی نہ بس سکے۔

کشمیری اس لحاظ سے قدرے خوش نصیب ہیں کہ کم سے کم ایک خطے پہ ان کا دعویٰ تو ہے اور ساری دنیا ان کو اس خطے کا باشندہ سمجھتی ہے۔ بہاری غریب تو ایک بار اجڑ کے پاکستان آئے اور پھر دوسری بار اجڑ کے بے وطن ہو گئے، نہ بنگلہ دیش ان کو قبول کرتا ہے اور نہ ہی پاکستان۔

وہ ہی پاکستان جس کے پیٹ میں افغان بھائیوں سے محبت کا درد بہت شدت سے اٹھا تھا۔ خیر، روہنگیا ایک اقلیت تھی اور کولونیل دور میں ارکان کی اکثریت بن گئی۔ کشمیریوں کی طرح ان کی خواہش بھی مشرقی پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی تھی اور یہ ہی خواہش ان کی کم بختی کی وجہ بنی۔

آج سننے میں آیا کہ بنگلہ دیش، پانچ لاکھ روہنگیا کے لیے کیمپ بنائے گا۔ کیمپ کی زندگی کیا ہوتی ہے، مہاجرین کس کرب سے گزرتے ہیں، معاشرے کی بجائے ایک عارضی پناہ گاہ میں رہنے والوں کی کیا نفسیات ہوتی ہے؟ یہ سب کس کی نظر سے مخفی ہے۔

کیا عجلت میں لگائے گئے ان زخموں کو ناسور بنتا دیکھتے رہنا ہی ماضی کے کالونیل ممالک کا فرض ہے؟ ارکان کا مستقبل کیا ہو گا؟ کیا وہاں سے سارے روہنگیا بھگا دیے جائیں گے؟ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں رہنے والے ان لوگوں کا آ گے کیا ہو گا؟ بہاریوں کا نصیب کیا ہے؟ کشمیر کا مسئلہ کب تک لٹکے گا؟

یہ مسائل نہ آ ج پیدا ہوئے اور نہ ہی ایک دن میں سلجھائے جا سکتے ہیں لیکن ان کو جب کبھی بھی سلجھانا ہو گا، پورا کولونیل دور دوبارہ سے پڑھ کر اس دور کی ہر پالیسی کو بدل کر، اپنے اپنے خطے کے مزاج، موسم ، تہذیب اور انسانوں کے جذبات کو سمجھ کر اگر مسائل حل کیے جائیں گے تو ہی یہ ناسور ٹھیک ہوں گے۔ تب بھی داغ تو رہ جائیں گے اور داغ کبھی بھی اچھے نہیں ہوتے۔


amna

آمنہ مفتی ناول نگار ہیں اور وہ زبان و ادب کے حلقوں میں منفرد پہچان رکھتی ہیں، اُن کا یہ کالم بی بی سی اُردو پر بھی شائع ہوچکا ہے۔

  1. Well said by Amna Mufti mufti. It all has been narrated about colonial history,british imperialism & hegemony & tyrany of time for the people.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *