نوآبادیاتی تعلیمی نشانی: کانووکیشن میں گاؤن پہننے پر پاپندیوں کا آغاز

  • April 22, 2019 10:53 pm PST
taleemizavia single page

رپورٹ: عنیزہ بتول

انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی ممبئی کی انتظامیہ نے مقامی کھڈی کے کپڑے پر مشتمل 3 ہزار 500 کانووکیشن ڈریسز تیار کرنے کا ﺁرڈر دے دیا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ ﺁف ٹیکنالوجی مبمئی کا شمار بھارت کی نامور یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ یونیورسٹی نے کانووکیشن کی تقریب میں مغربی قرون وسطیٰ کے طرز پر مبنی سیاہ گریجویشن جامہ اور مارٹر بورڈز پر پاپندی عائد کر دی ہے۔

یونیورسٹی کی گریجویشن کی تقریب میں ہندوستانی ملبوسات کا استعمال کیا جائے گا جس کے لیے ہاتھ سے تیار کردہ کپڑوں پر مشتمل ایسا ڈیزائن تیار کیا جائے گا جس کے ذریعے طلباء میں قوم پرستی کا احساس پیدا ہو۔

یونیورسٹی انتظامیہ کہتی ہے اس سے بھارت میں ہینڈ لوم کی مقامی صنعت بھی ترقی کرے گی۔ بھارت کی اس یونیورسٹی نے ایک نئی روایت کی بنیاد رکھ دی ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے سیکرٹری جسپال سندھو نے وائس چانسلر کے نام لکھے خط میں کہا کہ ہینڈ لوم کے تیار کردہ کپڑے ملک کی امیر ثقافت اور ورثہ کا حصہ تھے۔

دیہی لوگوں کے لیے یہ صنعت معاش کا اہم ترین ذریعہ تھی۔ مقامی سطح پر گاؤن کی تیاری کے رجحان سے یہ صنعت دوبارہ بحال ہوگی اور یہ کپڑے موسم سرما میں زیادہ ﺁرام دہ ہوں گے۔

یہ خیال پہلی بار تب ابھرا تھا جب سابق صدر مرحوم اے پی جے عبد الکلام نے لکھنئو کی یونیورسٹی میں کانووکیشن خطاب میں کہا تھا کہ گاؤن کو اب جانا چاہیے، یہ ایک برطانوی گاؤن ہے ہم اس کی بجائے ایک سادہ ہندوستانی کپڑا ہونا چاہیے۔

یونیورسٹی کے ڈائریکٹر دیوانگ کاکھڑ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ کھڈی کے کپڑے کواپنانے کا مقصد یہ تھا کہ طلباء میں قوم پرستی کا احساس پیدا کیا جاسکے۔ ہاتھ کتائی یا کھڈی کے کپڑے کو ملک میں فروغ دینے کی ابتداء مہاتما گاندھی کے دور میں ہوئی جب برطانوی سامراج کے خلاف ہندوستان کی آزادی کی تحریک زوروں پر تھی۔

کھڈی کے کپڑے کو برطانوی سامراج کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کیا گیا تھا کیونکہ برطانیہ صنعت کا تیار کردہ کپڑا ہندوستان میں درآمد کر کے اسے مہنگے داموں فروخت کر رہا تھا جس سے کھڈی کا کپڑا تیار کرنے والی مقامی صنعتیں تباہ ہونا شروع ہوگئی تھیں۔

کھڈی پر کپڑا تیار کرنے کی صنعت اب صرف دیہاتوں تک محدود ہے اور اس صنعت سے وابستہ ہندوستانیوں میں اکثریت خواتین کی ہے۔ تاہم نوآبادیاتی طرز عمل کی اس روایت سے خود کو آزاد کرنے کی کوشش میں احتجاج کا سامنا بھی ہے کہ یہ مختلف فرقوں اور مذاہب کے طلباء پر ہندو مذہبی لباس عائد کرنے کے مترادف ہے۔

اس سے پہلے 2010ء میں چھتیس گڑھ یونیورسٹی میں مارٹر بورڈ یعنی کانووکیشن کیپ کی جبہ روایتی پگڑی نے لے لی۔ دولت مشترکہ کے بیشتر ممالک میں سیاہ گاؤن بطور تعلیمی لباس یورپی روایات کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ برطانیہ کی سابق نوآبادیات رہنے والے ممالک میں بھی کانووکیشن کے لباس میں تبدیلی کر دی گئی ہے۔

جاپان، کینیڈا، فلپائن میں گریجویشن تقریب کے لیے لباس کو روایتی اور مقامی کلچر کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب کانووکیشن کے رسمی ہڈ کی جگہ ان ممالک نے اپنی اپنی کانووکیشن ٹوپیاں بنا لی ہیں۔ پاکستان کے تمام سرکاری تعلیمی اداروں میں یعنی یونیورسٹیوں اور کالجوں کے کانووکیشن میں یہی برطانوی تعلیمی لباس رائج ہے اور اسی لباس کو پہن کر ہمارے طلباء تعلیم مکمل کرنے کے بعد کانووکیشن میں ڈگریاں وصول کرتے ہیں۔

بھارت نے نوآبادیاتی یا غلامی کے دور کی نشانی کو ترک کرنے کی غرض سے اپنی یونیورسٹیوں میں کانووکیشن لباس کو مقامی کلچر کے ساتھ مربوط کر دیا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *