تخت چھیننے کی جنگ، دارا شکوہ، اورنگزیب سے کیسے ہارا؟

  • December 16, 2017 1:01 pm PST
taleemizavia single page

افسر احمد

سال رواں فروری میں لٹینس کی ایک سڑک کا نام ڈل ہوزی روڈ سے تبدیل کرکے دارا شکوہ کے نام پر رکھ دیا گیا۔ اپریل میں دارا کی سوچ کو بنیاد بنا کر دہلی میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا، جس کے پیچھے ایک دلیل دی جا رہی ہے کہ دارا شکوہ اورنگزیب کے مقابلہ میں بہتر شخص تھا، مگر کیا واقعی ایسا تھا؟ تاریخ کے صفحات ایسا نہیں کہتے، مغلوں کی دارالحکومت رہی آگرہ کی مٹی میں بھی بہت کچھ ایسا پوشیدہ ہے ، جو اس لحاظ سے حیران کر دینے والا ہے۔

مغل شہزادہ دارا شکوہ بادشاہ شاہجہاں کے انتہائی قریب تھا اور اس کے اگلا بادشاہ بننے کا پورا امکان تھا ، مگر ایسا ہو نہ سکا۔ اس کی وجہ اس کی بدمزاجی، غرور اور جنگی مہارت میں کمزوری تھی ۔ دارا کی شکست کی وجہ اورنگزیب سے زیادہ وہ شخص تھا ، جس نے جنگ کے دوران عین وقت پر دارا شکوہ کو دھوکہ دے کر اپنی جوتوں سے ہوئی پٹائی کا بدلہ لے لیا۔ دارا کی ایک غلطی نے اسے ہندوستان کی سلطنت سے دور کر دیا۔ یہ بات 1657 کی ہے ، جب شاہجہاں کے مرنے کی افواہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلنے لگی تھی اور چاروں شہزادے نے بادشاہ بننے کی تیاری کر لی تھی۔
اورنگ زیب کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی ، وہ خود شاہجہاں کے لئے ڈر پیدا کرنے والی تھی

شاہجہاں کو معلوم تھا کہ اس کی سلطنت میں اقتدار کے لئے 4 بیٹوں کے درمیان جنگ روکنی تقریبا ناممکن سی بات ہے۔ تاہم وہ کسی بھی قیمت پر جنگ کو روکنا چاہتے تھے، جس کی وجہ سے شاہجہاں نے اپنی سلطنت کو 4 حصوں میں تقسیم کر دیا۔ شاہ شجاع کو بنگال دیا گیا، اورنگ زیب کو دکن یعنی جنوب کا علاقہ ملا، مرادبخش کو گجرات دیا گیا اور دارا کے حصہ میں کابل اور ملتان آیا۔

غور کرنے والی بات ہے کہ دارا شکوہ کو چھوڑ کر سب نے اپنی اپنی ذمہ داریاں سنبھال لیں ، لیکن دارا بادشاہ کے پاس ہی رہا۔ چاروں نے خود کو مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، شجاع ، مرادبخش اور اورنگ زیب جہاں فوجی طاقت حاصل کر رہے تھے وہیں دارا کی کوشش تھی کہ کسی طرح شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر تخت پر قبضہ کرلیا جائے۔ طویل وقت تک دارا اور باقی تین بھائیوں کے درمیان شہ اور مات کا کھیل چلتا رہا۔ دارا نے شاہجہاں کو اعتماد میں لے کر کئی ایسے فرمان جاری کروائے، جس سے تینوں بھائی دارا کے تئیں بدظن ہوگئے۔

دارا وقت کے ساتھ ساتھ اتنا مضبوط ہو چکا تھا کہ اس نے شاہی دربار میں شاہجہاں کے قریب ہی اپنا تخت بنوا لیا تھا۔ وہ بادشاہ کی جانب سے احکامات جاری کرنے لگا تھا۔ دارا کو سب سے زیادہ خوف اورنگزیب سے تھا۔ اس نے ایک نہیں کئی مرتبہ اورنگزیب کے خلاف فرمان صادر کیا ، جس کی وجہ سے اورنگ زیب اور دارا کے درمیان دشمنی مزید گہری ہو گئی۔

دارا نے اپنے والد اور باقی بھائیوں کے درمیان نفرت بڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ وہ خفیہ طور پر بھائیوں کو بھیجے گئے یا پھر ان کی طرف سے آئے پیغامات کو شاہجہاں کو دکھا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ تینوں سازش کر رہے ہیں۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ خود شاہجہاں کو دارا شکوہ پر اعتماد نہیں تھا۔ اسے لگتا تھا کہ دارا اس کو زہر دینے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ اس وقت دارا اور اورنگ زیب کے درمیان جو خط و کتابت ہوئی ، وہ خود شاہجہاں کے لئے ڈر پیدا کرنے والی تھی۔

اسی درمیان ستمبر 1657 میں شاہجہاں کی طبیعت بگڑی اور یہ بتایا گیا کہ ان کی موت ہو چکی ہے۔ پورا دربارغافل ہو گیا، آگرہ کے عوام الجھن میں پھنس گئے اور کئی دنوں تک دکانیں بند رہیں۔ چاروں شہزادوں کے درمیان بادشاہ بننے کے لئے کھلی جنگ شروع ہو گئی۔

شاہجہاں کو پتہ تھا اب خون بہنے کا وقت آ چکا ہے۔ اس نے اپنے سب سے قریبی دو سرداروں کو بلایا۔ اس میں سے ایک کا نام قاسم خان تھا۔ قاسم شاہجہاں کا باوثوق لیکن دارا سے انتہائی نفرت کرتا تھا ، اس نے کافی ہچکچاتے ہوئے اس ذمہ داری کو قبول کیا۔ دوسرے سردار تھے راجا جے سنگھ۔

دارا نے دونوں جنرلوں کو اعتماد میں لیا۔ فوج کے ساتھ جاتے وقت دارا نے انہیں انمول تحفے دیے۔ شاہجہاں نے دارا کو مشورہ دیا کہ اورنگ زیب سے نمٹنے میں تحمل کا ثبوت دے۔ اورنگ زیب کو ایک کے بعد ایک کئی پیغامبر بھیجے گئے ، لیکن کوئی لوٹ کر نہیں آیا۔

وقت جیسے جیسے آگے بڑھ رہا تھا دارا اور اورنگزیب کے درمیان تصادم کے آثار مزید یقینی ہوتے جا رہے تھے۔ دارا کو اس کے ساتھیوں نے کافی روکا کہ وہ جلدبازی نہ کرے، لیکن دارا جسے لگتا تھا کہ شاہی خزانہ، بھاری فوج اور باپ کا ساتھ ، جب تک اس کے ساتھ ہے ، تو اسے کوئی نہیں ہرا سکتا، اس نے کوچ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔

اس نے پوری فوج کو تیار ہونے کا حکم دیا اور خود اپنے والد شاہجہاں کے سامنے رخصتی کے لئے حاضر ہوا۔ دکھی باپ نے بیٹے کو گلے لگالیا۔ شاہجہاں نے کہا کہ ٹھیک ہے بیٹا، اگر تم نے راستہ منتخب کر ہی لیا ہے ، تو اوپر والا تمہاری خواہشوں کی حفاظت کرے۔ لیکن ساتھ ہی رنجیدہ ہوتے ہوئے کہا کہ اگر تم جنگ ہارتے ہو تو سوچ لینا کہ میرا سامنا کس طرح کر پاؤ گے۔ والد کی باتوں سے زیادہ متاثر ہوئے بغیر دارا نے آگرہ سے 20 میل دور چمبل کی جانب کوچ کر دیا۔

وہاں پہنچنے کے بعد دارا نے خیمے گاڑنے کا حکم دیا، لیکن اورنگزیب تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے آگرہ سے 5 میل دور جمنا کے کنارے اپنی فوج کے ساتھ آ چکا تھا۔ دارا کو جب یہ خبر لگی تو اس نے جو مورچہ بندی کی تھی ، اسے چھوڑ کر وہ مقابلہ کرنے کے لئے آگے بڑھ گیا۔

آخر کار جمنا کے کنارے پر دونوں فوجیں ساموگڑھ میں آمنے سامنے ہوگئیں ۔ ساموگڑھ کو اب فتح آباد کہا جاتا ہے۔ دونوں فوجیں تقریبا تین دن تک ایک دوسرے کے سامنے ڈٹي رہیں۔اس دوران شاہجہاں نے ایک کے بعد ایک کئی فرمان دارا کو بھیجے، سب میں ایک ہی پیغام تھا کہ وہ جلدبازی نہ کرے اور سلیمان شکوہ کا انتظار کرے۔ والد کی فکر سے بے پرواہ دارا نے ایک ہی جواب لکھا کہ ‘میں اورنگ زیب اور مراد بخش کو هاتھ پاؤں باندھ کر آپ کے سامنے جلد پیش کروں گا۔ ویسے بھی کافی دیر ہو چکی ہے۔ دارا نے اورنگ زیب کا مقابلہ کرنے کے لئے کافی مضبوط منصوبہ بندی کی تھی۔

دارا نے پہلی قطار میں بھاری توپیں لگائی تھیں، جنہیں لوہے کی زنجیروں سے باندھ دیا گیا۔ تاکہ دشمن کے توپ آگے نہ بڑھ سکیں۔ اس کے پیچھے اونٹوں کی قطار تھی ، جن پر ہلکا بارود لدا ہوا تھا، اس کے پیچھے شاہی فوج کے پیادہ پا دستے تھے۔ اورنگ زیب اور مراد بخش نے بھی تقریبا اسی طرح کا منصوبہ بنا رکھا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ کچھ توپ خانے اورنگ زیب نے چھپا کر رکھے تھے۔

دارا نے اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کیا تھا۔ سامنے توپ والا حصہ تھا۔ دائیں خلیل اللہ خان کی قیادت میں 30 ہزار کی تعداد والی فوج تھی ،جبکہ بائیں کی ذمہ داری رستم خان دی گئی ، جس کے ساتھ راجا چھترسال اور رام سنگھ روتیلا جیسے دو مضبوط کمانڈر تھے۔

دارا کی توپ نے پہلے حملہ شروع کیا، جس کا جواب توپ سے ہی دیا گیا، لیکن کچھ ہی دیر میں بھاری بارش ہونے کی وجہ سے توپیں خاموش ہو گئیں۔ بارش تھمتے ہی توپیں پھر گرجنے لگیں۔دارا جنگ کے دوران انتہائی فعال نظر آ رہا تھا، وہ گھوم گھوم کر اپنے سرداروں کا جوش بڑھا رہا تھا ۔ دارا اپنے خوبصورت ہاتھی سیلن پر سوار تھا۔ دارا دشمنوں کی توپوں کی جانب بڑھ رہا تھا۔ اس کا ارادہ کسی بھی طرح اورنگ زیب کو قابو میں کرنے کا تھا ۔

جلد ہی دارا کے ارد گرد لاشوں کا انبار لگ گیا۔ نہ صرف سامنے والوں کی بلکہ ان کی بھی جو اس پيچھ چل رہے تھے۔ دارا کی فوج پر بار بار حملہ ہو رہا تھا ، لیکن وہ تب بھی بے خوف حکم دے رہا تھا۔ حملے میں شدت دیکھ کر توپ کو زنجیروں سے آزاد کر دیا گیا، لیکن اس کی وجہ سے دشمن فوج پہلی قطار توڑنے میں کامیاب ہوگئی ، توپیں ہٹتے ہی دونوں جانب کی فوجیں آپس میں بھڑ گئیں اور جنگ خوفناک ہوتی چلی گئی۔ اس دوران یہ بات غور کرنے والی ہے کہ دارا جنگ کی مہارت میں اورنگ زیب سے کمزور تھا۔ جنگ کے دوران دارا کی فوج میں ہم آہنگی کا فقدان بھی نظر آیا ۔

آسمان میں تیر وں کی بوچھار ہونے لگی ، لیکن 10 میں سے 2 ہی تیر نشانے پر لگ رہے تھے باقی زیادہ دور نہیں پہنچ رہے تھے۔ تیروں کے بعد تلواریں نکال لی گئیں اور جنگ کا چہرہ مزید سياه ہو گیا۔

جوش کے ساتھ آگے بڑھ رہے دارا نے دشمن کے توپوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ جنگ کے دوران دارا نے اورنگ زیب کو پکڑنے کی کافی کوششیں کیں ، لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکا۔ اورنگ زیب اس سے زیادہ دور نہیں تھا۔ دارا جانتا تھا کہ جنگ اس وقت تک پوری طرح جیتی نہیں جا سکتی ،جب تک اورنگ زیب کو نہ پکڑا جائے۔ لیکن دارا کی یہ بدقسمتی تھی کہ اسے پہلی بری خبر اس کے بائیں جانب سے آئی۔ اس کے بائیں جانب کا مورچہ کمزور پڑ رہا تھا۔ اسے اپنے قابل اعتماد سپہ سالاروں سے پتہ چلا کہ رستم خان اور چھترسال مارے جا چکے ہیں۔

اس کے بعد رام سنگھ روتیلا نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کی گھیرا بندي کو توڑ دیا۔ دارا نے تب اورنگزیب کو پيچھے دھکیلنے کا خیال چھوڑ دیا۔ دارا بائیں جانب کی طرف بڑھا اور زبردست جنگ کے بعد دشمن کو بائیں جانبسے پیچھے دھکیل دیا۔ اس دوران راجا روتیلا نے زور دار جنگ کرتے ہوئے شہزادہ مراد بخش کو زخمی کر دیا۔ وہ ان کے ہاتھیوں کے بیڑے کے قریب پہنچ گیا ، لیکن مراد بخش نے اس کی اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ مراد چاروں طرف سے شاہی فوج سے گھر گیا ، لیکن اس نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ اس درمیان ایک تیر براہ راست آکر روتیلا کو لگی اور اس کی موت ہو گئی۔

اب صرف ایک ہی امید تھی کہ کسی طرح اورنگ زیب کو بھاگنے پر مجبور کر دیا جائے ، لیکن ایک دھوکہ نے نہ ایسا کرنے پر مجبور کر دیا۔ دائیں جانب کی کمان سنبھال رہے خلیل اللہ خان کی 30 ہزار کی فوج جو اکیلے اورنگزیب کا سامنا کر سکتی تھی خاموشی کھڑی تھی۔ خلیل اللہ دارا کو یہ یقین دلانے کی کوشش کر رہا تھا کہ وقت آنے پر وہ حملہ کریں گے ، مگر ایسا نہیںہوا ۔

چند سال پہلے دارا نے خلیل اللہ خان کی جوتوں سے پٹائی کر کے بے عزتی کی تھی۔ اس نازک گھڑی میں خلیل اللہ نے اپنی بے عزتی کا بدلہ دھوکہ دے کر لے لیا۔ خان نے بہانہ بنایا کہ اس کی فوج بعد میں حملہ کرے گی۔ اگرچہ اس کا ایسا کرنا کوئی سازش نہیں لگ رہا تھا۔

دارا اس کے بغیر ہی جنگ جیتنے کے قابل تھا۔ خان کو اس بات کا اندازہ تھا ، اس لئے دارا کی شکست یقینی بنانے کے لئے اس نے اپنے سرے کو چھوڑ کر کچھ ساتھیوں کو ساتھ لیا اور دارا کے قریب جا پہنچا۔ دارا اس وقت بری طرح گھرا مراد بخش کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھ رہا تھا۔
دارا کے قریب جا کر خلیل اللہ نے کہا ‘مبارک بعد حضرت سلامت الحمد للہ، آپ خوش رہیں، آپ کی صحت ٹھیک رہے، جیت آپ کی ہی ہوگی، لیکن میرے سرکار آپ اب بھی اس بڑے ہاتھی پر کیوں سوار ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ خطرے میں پڑ سکتے ہیں؟ خدا نہ کرے اتنے سارے تیروں میں سے کوئی تیر یا بارود کا گولہ آپ پر گرا تو کیا ہوگا؟ ‘

خلیل اللہ نے دارا سے مزید کہا کہ سرکار جلدی سے گھوڑے پر سوار ہوں اور محصور مراد بخش کو فرار ہونے سے قبل گرفتار کرلیں ۔ دارا خلیل اللہ کی باتوں میں آ گیا اور فوری طور پر اپنی جوتیاں پہنے بغیر ہی ننگے پاؤں گھوڑے پر سوار ہو گیا۔

تقریبا 15 منٹ بعد ہی اس نے خلیل اللہ خان کے بارے میں معلوم کیا ، لیکن وہ موقع سے جا چکا تھا۔ دارا نے اسے مار دینے کی بات کہی ، لیکن وہ ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ ہاتھی پر دارا کو نہ دیکھ کر شاہی فوج میں یہ افواہ پھیل گئی کہ دارا مارا گیا۔

چند منٹ میں فوج میں ہر کوئی اورنگزیب کے ڈر سے بھاگنے لگا۔ اورنگ زیب اب بھی اپنے ہاتھی پر سوار تھا۔ اگلے چند لمحوں میں پورا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ اورنگ زیب ہندوستان کا بادشاہ بن چکا تھا۔ دارا کو وہاں سے بھاگنا پڑا۔ بعد میں دارا پکڑا گیا اور قتل کردیا گیا ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *