ایچ ای سی کے پی ایچ ڈی سکالرز کا معمہ

  • June 16, 2017 4:01 pm PST
taleemizavia single page

جنید احمد خان

تعلیمی میعار اور اعلی تعلیم کے حوالے سے بہت سی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔ پچھلے دنوں ہمارے ایک تعلیم دوست صحافی کی وساطت سے ایک مضمون ایچ ۔ای۔ سی کے حوالے سے پڑھنے کو ملا تب سے عجیب کشمکش میں ہوں۔

سمجھ میں نہیں آ رہا کہاں سے شروع کروں جنرل پرویز مشرف اور ڈاکٹر عطاء الرحمن کی تعریف کروں کہ جن کی کاوشوں سے آج بہر حال اعلی تعلیم اور اعلی تعلیمی اداروں کی بہتات ہے یا ان تلخ حقائق سے پردہ اٹھاوں کے کس طرح بعض تعلیمی ادارے ناسور کا کام کر رہے ہیں۔

حکومت پاکستان نے ایچ ای سی کے ذریعے سے یونیورسٹی اساتذہ کو مفت پی ایچ ڈی کرانے کے لیے منصوبہ لانچ ہوا جس کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ ہماری یونیورسٹیز کو ایسے اساتذہ دستیاب ہوں جو عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹیز میں پڑھنے کا تجربہ رکھتے ہوں۔

عوامی ٹیکسوں کے اس منصوبے نے متعدد سرکاری یونیورسٹیز کو اچھے ڈاکٹریٹ فراہم کر دیے اور کسی حد تک تعلیمی معیار پر بھی اس کا مثبت اثر ہوا۔ لیکن عوامی ٹیکسوں کے پیسوں پر جن اساتذہ نے فراڈ کیا ان کے خلاف ابھی تک کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے یہ ذکر کیوں نہیں کیا جاتا کہ پی ایچ ڈی اُدھوری چھوڑ کر غائب ہونے والے سکالر کی اصل ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟

کیا ایچ ای سی نے ان اداروں کو پوچھا گیا کہ ان کے سکالرز کیوں ناکام ہوئے؟ کیا ان سوپر وائزرز کو پوچھا گیا کہ آپ کے سوپر وائزی کیوں ناکام ہوئے؟ کیا ان اداروں میں ہونے والی تعلیمی بد انتظامی کا کوئی ذکر کیا ؟ کیا سکالرز کے ہونے والے تعلیمی استحصال کا ذکر کیا ؟ کیا روز بروز دریافت ہونے والے فراڈ تعلیمی اداروں کا ذکر کیا؟

کیا صرف نجی تعلیمی ادارے ہی غیر معیاری ہیں؟ یا ہماری ارض پاک کے جھنڈے کے سائے تلے کوئی سرکاری تعلیمی ادارہ بھی معیار پر پورا اُترتا ہے؟

کیا من پسند وائس چانسلرز اور آگے ان کی من پسند افراد کی تعیناتی کا بھی اس ناکامی میں کوئی ہاتھ ہے؟

کیا ایسے اعلی سرکاری تعلیمی اداروں کی بھی نشان دہی کی گئی ہے جن میں سینئر ترین پوسٹس پر بھی اسسٹنٹ پروفیسرز لگے ہیں اور انہیں اپنے قیام سے لے کر آج تک گوہر مقصود ملا ہی نہی یا من مانی کے خوف سے ڈھونڈا ہی نہی۔

یہ بھی پڑھیں؛ ایچ ای سی کی اربوں روپے کی فنڈنگ سے پی ایچ ڈی یافتہ کہاں غائب؟

اس طرح کے متعدد سوالات ہیں جس کا ہائر ایجوکیشن کمیشن سے جواب مطلوب ہے اور ایچ ای سی کو فیکلٹی ڈویلپمنٹ پروگرام سکالر شپ کی تمام تر تفصیلات کو پبلک کرنا چاہیے اور ٹیکسوں کی یہ رقم کہاں کہاں ضائع ہوئی اس کے گوشوارے بھی ایچ ای سی ویب سائٹ پر دستیاب ہونا ضروری ہے۔

ایچ ای سی کو چاہیے تو یہ تھا کہ وہ محکمہ خارجہ امور کی وزارت کو اعتماد میں لے کر ایسے تمام سکالرز کے خلاف کارروائی کا آغاز کرتی جو مختلف ممالک میں روپوش ہوئے ہیں۔ اُن ممالک کی ایمبیسیز کو حکومتی سطح پر خطوط لکھوائے جاتے اور پھر ان مطلوب اساتذہ کو پکڑ کر واپس پاکستان لایا جاتا۔

اب جو اساتذہ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے باوجود بے روزگار ہیں اُن کا حساب کتاب کون دے گا؟ ایچ ای سی ریگولیٹری ادارہ ہے اور اسے ایسی پالیسیاں مرتب کر کے حکومت کے ذریعے نفاذ کرانا چاہیے جو اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو تحفظ فراہم کر سکے۔

ایچ ای سی کو محض اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے کہ شوریٹی بانڈز کی مد میں درج رقم کی وصولی کر لی یا پھر جرمانہ عائد کر دیے۔ سزا تو ایسی مقرر ہونی چاہیے تھی کہ آئندہ والوں کے لیے سبق ہو لیکن افسوس کچھ بھی نہیں ہوا۔

بیرون ممالک کی پی ایچ ڈی تو اپنی جگہ لیکن یہاں پر تو مقامی یونیورسٹیوں میں سکالر شپ پر پی ایچ ڈی کرنے والے کہاں رہ گئے اس کا بھی تو ایچ ای سی کو معلوم نہیں ہے۔ کسی بھی پراجیکٹ کی کامیابی کے لیے اس کا بالآخر تجزیہ کرنا ہوتا ہے تاکہ یہ جان کاری ہو سکے کہ مطلوبہ نتائج برآمد ہوئے ہیں کہ نہیں۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن نے ویسے بھی آج تک صرف سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کو ہی ترجیح دی ہے لیکن سرکاری کالج کے اساتذہ سے کبھی کوئی سروکار ہی نہیں رہا گویا یوں لگتا ہے کہ ایچ ای سی ان اساتذہ کو اساتذہ تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔


junaid final

جنید احمد خان گورنمنٹ شالیمار کالج لاہور میں شعبہ علم التعلیم کے لیکچرر ہیں۔

  1. Well said. The anlysis a d concerns are close to the factual position. One more thing is sifarish culture encouraged by hec officials. They send their own children to foreign u iversitiers so as to make the hey while the sun is shining. These students maynot have the potential required to do phD but parents think k this is is the only way to settlle their child.
    D

  2. Very well written and well argued. I am in agreement almost 100%. Pakistanis as a nation are not known for a futuristic vision unfortunately. They fail to think beyond the next five or ten years and policies are not developed with any vision.
    Just to add to the narrative, I would say that this trend of opening universities left, right and centre is also a huge policy flaw. We are absolutely not thinking rationally as to where these graduates and post graduates will be employed. The demand and supply chain is not at all being looked into.
    NCA where I’m an associate Professor is also trying to shoot itself in the mouth by attempting to become a university without any justification for creating thousands of jobless graduates and I, on this forum, wish to appeal to HEC Chairman to stop the NCA authorities right now. It will be a disaster and this institution will then be used only for money making activities of various sorts.
    I hope this appeal will not fall on deaf ears.

  3. جناب خوشامدی یونیورسٹی میں حاوی ہیں کالج والوں کو ذلیل کرتے ہیں اور تین سال کو پانچ سال میں مکمل نہیں کرتے رشوت ان کی گھڑی میں پڑی ہے محکمہ تعلیم چھٹی دیتے ہوئے ذیل کرتا ہے میں نے اپنی جیب سے پی ایچ ڈی کی ہے جو چاہے مناظرہ کر لے

  4. Very deep observations and so many questions are still need to be answer.college teachers are neglected by HEC AND pHEC as well

  5. اس موضوع میں احباب کی دلچسپی اور سنجیدگی کا شکریہ
    بہت سے سوالات تشنہ جواب ہیں
    کیا ادارے ایچ ۔ای ۔سی۔ کو کسی خاطر میں لاتےہیں یا صرف دفتری و کاغذی کاروائی کے ذریعے سب اچھا کہا جا رہا ہے ؟
    کیا یونیورسٹیز یکساں پالیسی پر کاربند ہوں گی؟
    کیا نجی اداروں میں سرکاری یونیورسٹیز کے اساتذہ تعلیم بیچتے رہیں گے؟
    کیا یونیورسٹی اساتذہ سرکاری یونیورسٹیز میں بھی تعلیم و تعلم دوست ماحول دینے کو تیار ہوں گے؟
    کیا ایچ ۔ای۔سی۔ناکام سوپر وائزرز پر بھی گرفت کر سکے گا؟
    ایسے بہت سے سوالات ہیں جن پر سنجیدہ بحث و آگاہی کی ضرورت ہے احباب سے گزارش ہے کہ تعلیمی حلقوں میں اسے موضوع بحث بنائیں ۔

  6. Dear
    When we symbolize teacher on school teacher, college lecturer and university lecturer then how one can prove his priority may be only improvement in education standard.
    MPhil and MS are treated differently, federal and provincial teacher incentive still study leave rules are different.
    There is only “dang tapaou” policy and we are their payrolls.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *