فاٹا انضمام کے بعد مدارس کا مستقبل کیا ہوگا؟

  • June 27, 2018 5:13 pm PST
taleemizavia single page

دلاور خان وزیر

پاکستان کے پرانے قبائلی علاقوں میں تعلیم حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ دینی مدارس رہے ہیں۔ یہاں کے پہاڑی علاقوں میں 80 فیصد والدین اپنے بچوں کو دینی مدارس ہی بھیجتے ہیں۔

اب جب کہ قبائلی علاقوں کا انضمام خیبرپختونخوا میں ہو گیا ہے تو سوال یہ ہے کہ ان مدارس کو صوبائی محکمہ تعلیم کے زیر انتظام لانا صوبائی حکومت کے لیے کتنا آسان یا مشکل ہو گا۔

فاٹا سیکٹریٹ کے مطابق قبائلی علاقوں میں 584 دینی مدارس ہیں جن میں 273 لڑکوں، لڑکیوں کے 121 اور 190 مخلوط مدارس شامل ہیں۔ ان مدرسوں میں ایک لاکھ 82 ہزار 662 طلبا زیرِ تعلیم ہیں جن میں ایک لاکھ 22 ہزار 672 طلبا جبکہ 59 ہزار 995 طالبات شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں؛ اسلام آباد میں مدارس کی تعداد میں اضافہ

فاٹا سیکٹریٹ کے ایک سنیئیر اہلکار کا کہنا تھا کہ ان طلبا میں سے 44 ہزار دو سو طلبا دوسرے مرحلے میں سرکاری سکولوں میں جاتے ہیں باقی صرف دینی مدرسوں تک محدود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان دینی مدرسوں میں دو ہزار سے زیادہ تربیتی عملہ کام کرتا ہے جن میں 364 خواتین اساتذہ شامل ہیں۔ ان میں 1100 افراد لڑکوں کے مدرسوں اور 370 اساتذہ لڑکیوں کے مدرسوں میں جبکہ 645 اساتذہ مخلوط مدرسوں میں اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔

مدارس کے لیے نئی پالیسی

ایڈیشنل سیکٹری ایجوکشن خیبر پختونخوا عرفان اللہ خان نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں دینی مدرسوں کے لیے جو پالیسی ہے وہی پالیسی فاٹا میں بھی لاگو ہوگی لیکن وہاں پر یہ کام آسانی سے نہیں ہوسکتا ہے اور اس کے لیے مزید وقت درکار ہے۔

جانیئے: مذہبی نصاب کی سائنسی مخالف وجوہات

واضح رہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے ان مدرسوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایک فارم متعارف کرایا ہے جس میں 40 سے زیادہ سوالات پوچھے گئے ہیں۔ جن میں پانچ بہت اہم ہیں؛

غیر تدریسی عملے کی تفصیلات

غیر ملکی اساتذہ کی تفصیلات

طلبہ/طالبات کی درجہ دار تفصیلات

غیر ملکی طلبہ/طالبات کی تفصیل

بینک اکاونٹ اور ذرائع آمدن شامل ہیں۔

قبائلی علاقہ مذہبی طور پر انتہائی قدامت پسند مانا جاتا ہے۔ اکثر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا کم از کم ایک بچہ دینی تعلیم سے بھی مستفید ہو۔

سکولوں کے مقابلے میں مدارس کو ترجیح

قبائلی علاقوں میں شدت پسندی کی لہر کے دوران کئی والدین نے مقامی مدارس کی بجائے پشاور اور دیگر علاقوں کے مدارس کو ترجیح دی۔ تاکہ ان کے بقول وہ انتہائی پسندی سے محفوظ رہیں۔ سکول کے اخراجات بھی والدین کے اس فیصلے کی بڑی وجہ ثابت ہوئے ہیں۔

وانا میں عبدالمجید نامی شخص نے بتایا کہ ان کے تین بیٹے ہیں اور بچوں کے فیس کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتے تو اس لیے اپنے بچوں کو مدرسے میں بھیجتے ہیں کیونکہ مدرسے میں فیس ادا نہیں کرنا پڑ،ی اور کھانا پینا بھی مفت ملتا ہے۔ مہمند حلیم زئی کے رہائشی اکبر شاہ نے کہا کہ غربت ہے اسی لیے ان کے خاندان کے تمام بچے بچیاں مدرسے جاتے ہیں۔

مدارس کی رجسٹریشن

ان دینی مدرسوں میں سے 277 مدرسے فاٹا سیکٹریٹ کے ایجوکشن برانچ کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ باقی 307 مدرسے فاٹا سیکٹریٹ کے کاغذات میں شامل نہیں ہیں۔

جو مدارس فاٹا سیکٹریٹ کے ساتھ رجسٹرڈ بھی ہیں وہ بھی صرف کاغذات میں ہیں باقی کسی بھی مدرسے پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں اور ہر مدرسہ اس کا مالک خود اپنی مرضی سے چلاتا ہے۔ البتہ زیادہ تر مدارس کا وفاق المدارس کے ساتھ اندراج ہو چکا ہے اوران کے امتحانات میں بھی باقاعدگی کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔

لازمی پڑھیں؛ مروجہ نظام تعلیم دو انتہائیں

ان مدرسوں میں 569 مدرسے دیوبندیوں کے، پانچ اہل تشیع، چار بریلوی، تین اہل حدیث اور تین ربطتول مدارس کے ہیں۔

سب سے زیادہ دینی مدارس جنوبی وزیرستان میں ہیں جن کی تعداد دو سو سے زیادہ ہیں، دوسرے نمبر پر شمالی وزیرستان ہے جہاں 92 مدارس نے اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس طرح باجوڑ میں 85، کرم میں 53، مہمند میں 50 خیبر میں14 اورکزئی میں 8 اور ایف آر کے علاقوں میں 82 مدرسے شامل ہیں۔
کیا مدارس کی انتظامیہ تعاون کرے گی؟

ضلع مہمند قبائلی علاقہ میں دارالعلوم عبداللہ ابن معسود کے مہتمم مولانا عبداللہ نے کہا کہ وہ اس بات پر خوش ہے کہ قبائلی علاقے خیبر پختونخوا کے ساتھ شامل ہو گئے لیکن جہاں تک دینی مدرسوں کے لیے فارم متعارف کرانے کا تعلق ہے وہ دوسرے علما سے مشورہ کرنے کے بعد فیصلہ کرینگے کہ وہ اس کو مانتے ہیں یا نہیں۔

خیبر پختونخوا کے محکمہ تعلیم میں ایک اہلکار نے بتایا کہ خیبر پختونخوا میں بھی اکثر مدرسوں نے پوری معلومات دینے سے انکار کردیا ہے اور قبائلی علاقوں میں اس طرح کے معلومات دینے کے لیے مدرسے کے مالکان تیار نہیں۔

جنوبی اور شمالی وزیرستان میں افغان رہنماء جلال الدین حقانی کے دینی مدرسے بھی تھے لیکن چند سال پہلے انھوں نے ان مدرسوں پر اپنا کنٹرول ختم کرلیا ہے اور تمام مدرسے مقامی علما کے پاس آگئے ہیں۔ جلال الدین حقانی کے مدرسوں کے علاوہ دیگر مدرسوں میں بھی ہزاروں کی تعداد میں افعانستان سے تعلق رکھنے والے طالب علم زیر تعلیم ہیں۔

ان مدرسوں کا کوئی منظم فنڈ نہیں اور مختلف طریقوں سے پیسے جمع کر کے مدرسے کے نظام کو چلاتے ہیں۔ چندہ اکھٹا کرنا، علاقے کے امیر لوگوں سے پیسے لینا قریبی آبادی بازاروں اور دوکانداروں سے مہینے کے حساب سے پیسے جمع کرنا شامل ہیں۔

ضرور پڑھیں؛ عالمی انتہا پسندی کے فروغ میں کونسا مذہب ذمہ دار؟

پرانے قبائلی علاقوں میں شدت پسند طالبان نے تقریباً 800 سے زیادہ سرکاری سکولوں کو بم دھماکوں کا نشانہ بنایا لیکن خوش قسمتی سے کوئی بھی مدرس اس کے زد میں نہیں آیا البتہ امریکی ڈرون حملوں میں ایک درجن سے زیادہ دینی مدرسے نشانہ بنے ہیں۔

ان میں سے سب سے بڑا جانی نقصان باجوڑ میں ڈمہ ڈولہ کے ایک مدرسے میں ہوا، جب 2006 میں ایک امریکی حملے سے 60 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان مدرسوں میں غیر معیاری تعلیم کی وجہ سے اکثر طالب علموں کا تعلیمی سلسلہ درمیان میں ٹوٹ جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ بہتر مستقبل کے لیے دوسرے راستے تلاش کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

فوجی آپریشنز سے پہلے ان مدرسوں میں طلبا کی تعداد دگنی تھی لیکن آپریشوں کی وجہ سے تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔

امید کی جا رہی ہے کہ فاٹا انضمام کے بعد حالات میں بہتری آئے گی جس سے دینی مدارس میں بھی طلبا کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ ان مدرسوں کو مرکزی قومی دھارے میں لانا اور تعلیم کے معیار کو بہتر کرنا صوبائی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہوگا۔


بشکریہ بی بی سی اُردو

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *