پاکستان میں “تعلیم یافتہ” ہونے کا مغالطہ

  • June 4, 2017 3:05 pm PST
taleemizavia single page

وقاص عالم انگاریہ

تعلیم حاصل نہیں کرو گے تو نوکری بھی نہیں ملے گی اور نوکری نہیں ملے گی تو گھر کی کفالت کیسے کروگے؟ یہ ایک ایسا مفروضہ یا نصیحت ہے جو برسا برس نسل در نسل منتقل ہو رہی ہے۔

یہ حکم تو مردوں پر صادر تھا، عورتوں اور لڑکیوں کے لیے یہ جملہ آج بھی عام و خاص کی زبان پر ہے کہ ‘لڑکیوں کو پڑھ کر کیا کرنا ہے، آخر میں تو ان کی شادی ہی ہوگی۔

ہمارے معاشرے میں لفظ ‘تعلیم’ بڑا اختلافی لفظ ہے۔ اس کی تعریف ہے کیا؟ آیا یہ کتابوں کے رٹنے کا نام ہے؟ یا ڈگریوں کو جمع کرنے کا یا کتابوں اور تجربات پر اپنی زندگی کھپانے کا؟ یہ کمانے کی کنجی بھی سمجھی جاتی ہے اور تخلیقِ کردار کا ذریعہ بھی۔

سوال یہ ہے کہ تعلیم کیا ہے؟ کیا یہ پیسہ کمانے کا ذریعہ ہے؟ ڈگری کا مل جانا؟ یا پھر تعلیم ان تمام مادی تقاضوں سے پاک ہے؟ یہ تعلیم نامی بیماری ہے کیا؟

مارک ٹوین نے کہا تھا کہ “میں نے کبهی اپنی تعلیم کو اپنی اسکولنگ سے خلط ملط نہیں کیا۔اس بات کو پڑهنے پر یہ گمان آنا واجب ہے کہ تعلیم کسی ادارے، سکول، کالج یا یونیورسٹی کی محتاج نہیں، البتہ یہ تمام تو صرف ذرائع گردانے جا سکتے ہیں۔

اگر تعلیم اسکول، کالج اور یونیورسٹی کا نام نہیں تو کیا ہے؟ چلیں اس بات کو اس دانشور کی ذاتی رائے تسلیم کر بھی لیں تب بھی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم ان اداروں کی محتاج کُلی طور پر نہیں ہوسکتی، کیوں؟ کیونکہ اس کا ثبوت خود اس دانشور کی ذات ہے جو ایک ادبی دانشور کی حیثیت سے دنیا بهر میں شہرت رکھتا ہے لیکن اس نے کبھی کوئی فارمل تعلیم حاصل نہیں کی۔

ادب کا کبھی یہ باقاعدہ طالب علم نہیں رہا، ادب میں ماسٹرز نہیں تھا بلکہ فلاڈیلفیا کی ایک دکان میں پڑنٹر آپریٹر تھا، وہی مارک ٹوین جو آج امریکا کا سب سے زیادہ پسند کیے جانے والا مصنف ہے، جس کا ناول امریکی ادب کا شاہکار سمجھا جاتا ہے۔

اسی طرح نصابی تعلیم یا وہ تعلیم جو اسکول اور کالجوں میں پڑھائی جاتی ہے وہ کامیاب انسان بنانے کا ذریعہ سمجھی جاتی ہے۔ بالکل یہ بات ٹھیک ہے مگر ذرا غور کریں کہ کیا واقعی ایسا ہے بھی یا نہیں؟ عالمی نصابی تعلیم کو ایک طرف رکھ کر اگر ہم صرف پاکستان کا تعلیمی معیار دیکھیں تو ہمیں “تعلیم اور کامیاب” والی تھیوری بری طرح فیل ہوتی نظر آئے گی۔

ملک میں تین کروڑ 74 لاکھ 62 ہزار نو سو طلباء نصابی تعلیم سے منسلک ہیں۔ان کا تعلق سائنس، آرٹس، کامرس اور میڈیکل سے ہے۔ یونیورسٹی طالب علموں کی تعداد بھی کوئی خاصی کم نہیں بلکہ 4 لاکھ 45 ہزار ہے، یہ تعداد ملک میں رائج نصابی تعلیم کے ذریعے ہی کامیاب بننا، امیر بننا اور سب کچھ بننا چاہتے ہیں مگر جب لاکھوں، کروڑوں لوگوں کا اس نصابی تعلیم سے منسلک رہنے کے باوجود معاشرے میں جمود کی کیفیت، عدم برداشت، دہشتگردی، غربت اور بے روزگاری نہ صرف موجود ہے، بلکہ بہت پختگی کے ساتھ اپنی جڑیں پیوست کیے ہوئے ہے۔

اڑسٹھ فیصد شرح خواندگی کے حامل ملک پاکستان میں 53 لاکھ لوگ بے روزگاری کے دلدل میں پھنسے ہیں۔

چلیے! یہ بھی مان لیتے ہیں کہ تعلیمی نصاب جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہو، لیکن ان پیپر میگزین تو اس کی تردید اس بات سے کرتا ہے کہ 49 فیصد لوگ انگریزی بولتے ہیں اور لکهتے ہیں اور پاکستان سب سے زیادہ انگریزی بولنے والے ملکوں میں سے ایک ہے، پھر ماجرہ کیا ہے؟

پاکستان میں سب سے بڑے سرمایوں اسٹیل اور بینکنگ کے بعد ہسپتال اور تعلیمی صنعت ہے۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹی سے کروڑوں لوگ منسلک ہیں۔ انسان میں کچھ صلاحیتیں قدرتی اور جبلی ہوتی ہیں۔ کچھ اچھے پینٹر، اچھے تکنیکی صلاحیتوں کے مالک اور کچھ اپنا ہنر اپنی بلوغت میں دریافت کرتے ہیں کہ وہ اسپورٹس میں اچهے ہیں یا سائنسی فنون میں یا پهر تخلیقی ہنر میں۔

اسکولوں کا آغاز دراصل انہی جبلی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر فرد کو معاشرے کے سُدهار اور ارتقا کے عمل میں شامل کروانے کے لیے ہوا تها۔ لیکن یہ مقصد رفتہ رفتہ معدوم ہو گیا اب یہ باقاعدہ ایک صنعت کا روپ دهار چکے ہیں۔

اب اس کا مقصد صرف فرد کو معاشرے کے سدهار یا ارتقائی عمل میں اپنا کردار ڈالنے کے بجائے ریاست کو سستے مزدور مہیا کروانا ہے۔ اس تعلیمی صنعت نے معاشرے کو گریڈز اور نمبروں کا اکهاڑہ بنا دیا ہے جو تخلیقی صلاحیتوں کا قاتل بهی ہے اور جمود کا سبب بهی ہے۔

یہ 3 کروڑ 74 لاکھ 62 ہزار 9 سو طالب علم اربوں روپے کے منافع کا ذریعہ ہے، اس پرافٹ گیم نے معاشرے کا توازن ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہاں محض اپلائیڈ سائنس کے علاوہ کسی دوسرے شعبے کی گنجائش نہ ہونے کے برابر ہے۔

ریاست نے تعلیم کو انفرادی کوشش اور محنت کا لیبل دے دیا ہے کہ ہر شخص پڑهے اور انجینئر، ڈاکٹر، اکاونٹنٹ بننے کے لیے انجینئرنگ، میڈیکل اور کچھ نہ ہو تو کامرس ضرور پڑهے۔ اس رجحان کی اگر کوئی پیروی کر رہا ہو تو اسے بالکل حیرت نہیں ہوگی کہ ریاست کس طرح ان تعلیمی اداروں کے درمیان مارکس اور گریڈ کی دوڑ میں اچهے اور ہائی گریڈ انجینئر اور اکاونٹنٹ وغیرہ دریافت کرتے ہیں جن کا آخری مقصد اچهے نمبروں سے اچهی نوکری ہوتا ہے۔

مگر کیا ایک لاکھ 70 ہزار 9 سو ننانوے سالانہ انجینئرز کے لیے فیکٹریاں، فرمز اور کمپنیاں موجود ہیں؟

اتنی بڑی کامیاب انجینئرز کی کھیپ اور پھر میڈیکل اور کامرس کے گریجوئٹس کی اتنی بڑی منڈی ہونے کے باوجود 53 لاکھ لوگوں کا بے روزگار ہونا یا تو ریاست کی واضح ناکامی ہے یا پهر ماجرہ انفرادی کامیابی کے نام پر مزدوروں کا ایک سستا جهرمٹ پیدا کرنا ہے جن کا واحد مقصد ریاست کو کم سے کم تنخواہ پر زیادہ سے زیادہ منافع دے سکیں۔

کئی انجینئرز، کامرس گریجوئٹس اور آرٹس گریجوئٹس آپ کو ٹهیلے لگاتے، پان کی کیبن لگائے، کپڑوں کی دکان میں تهان کے تهان انڈیلتے اور ہوٹلوں میں بیرے ملیں گے۔ آرٹس کے بارے میں تو ایک جملہ تو کافی عام ہے کہ بھئی، “آرٹس پڑھ کر کیا بهوکا مرنا ہے۔” یہ رویہ معاشرے کا اجتماعی رویہ بن چکا ہے۔

ملک میں اگر انفراسٹرکچر کے کسی بڑے منصوبے کا اعلان ہو تو سول انجینئرنگ کا رجحان شروع ہو جاتا ہے۔ سی پیک منصوبے کے بعد سول انجینئرنگ میں داخل شدہ طلبہ کی تعداد 12 لاکھ ہو چکی ہے، جو محض 4 سال کا دورانیہ ہے۔ ان میں کئی اچهے پینٹر، شاعر اور سائنسی دلچسپی رکهنے والے لڑکے ہیں جو فکرِ معاش کے سبب اپنے رستے سے ہٹ کر رجحان کا حصہ بن رہے ہیں کہ شاید یوں ان کا مستقبل بهی سنور جائے۔

رجحان سازی (ٹرینڈ سیٹنگ) ایک ایسا ہتهیار ہے جس کے ذریعے نوجوانوں کو اس دلدل میں دهکیلا جاتا ہے کہ وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو قتل کر کے ریاست کی “ڈمانڈ” پر پورا اتر سکیں۔

کیا وجہ ہے کہ ملک میں 2010ء تک محض دس ہزار کمپیوٹر گریجوئٹس تهے؟ کیونکہ ریاست کی ڈیمانڈ نہیں تهی۔ اب صورتحال مختلف ہے، اب ٹرینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر سائنس کے علاوہ سول انجینئرنگ، ڈینٹل انڈسٹری اور فارمیسی کا ہے جن کے داخل شدہ طلبہ کی تعداد کسی بهی دوسرے شعبے کے مقابلے سب سے زیادہ ہے۔

اس تصویر کو ذرا اب ملک کی اجتماعی حالت سے جوڑیں۔ پاکستان کس کھیل میں سب سے آگے ہے؟ یا پهر تھیوریٹیکل سائنس کی کون سی دریافت کا سہرا پاکستان کے سر ہے؟

چلیے، سیاسی میدان میں کون ایسا قابل شخص آپ کی نظر میں ہے جو سیاسیات پڑھ کر آیا ہو؟ یا کوئی اچها ماہرِ معاشیات، عمرانیات یا نفسیات؟ پاکستان کی کوئی بڑی پیٹرولیم فرم ہے؟ ان سب کو چهوڑیے، پاکستان کے لوگوں میں ادبی دلچسپی کتنی باقی رہ گئی ہے؟

ان شماریات کو اگر زیرِ بحث لائیں تو بات کہاں سے کہاں نکل جائے۔ حقیقت مگر یہی ہے کہ نصابی تعلیم کی ایک سیدهی لکیر سے ہٹ کر تعمیری کردار پاکستان میں ناپید ہوچکے ہیں۔ یہاں تخلیقی صلاحیتیں فکرِ معاش کے اندهیروں میں گم ہو چکی ہے، فنونِ لطیفہ اور ادب کچھ عرصے میں اب صرف کتابوں میں ہی ملے گا۔

ریاست پاکستان چند بڑے سرمایہ داروں، تعلیم فروشوں اور عالمی اشاروں کی محتاج بن چکی ہے۔ دہشت گردی، بڑهتی ہوئی شدت پسندی، عدم برداشت، تکفیریت اور کند ذہنی، سب کی وجہ بھی یہی ہے۔

یہ سلسلہ تب تک یوں ہی جاری رہے گی جب تک ہمارے سرپرست اس کهیل کو سمجھ نہیں جاتے اور بچوں کو ان کی صلاحیتوں کی بنیاد پر معاشرے کے لیے کار آمد نہیں بناتے۔

ریاست کب سیاسیات، ریاضیات، فلکیات، کیمیا، حیاتیات، ادب، مصوری، موسیقی، اسپورٹس اور تاریخ پڑهنے والوں کے لیے بهی ایسے ہی رجحان سازی کرے گی، جس سے طالب علم اپنے شوق کا قتل کرنے کے بجائے اپنی جبلی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر معاشرے میں توازن پیدا کر سکیں۔ کب یہ سرمائے کی بهوک کو نظر انداز کر کے حقیقتاً افراد کو کامیاب بنانے کے لیے تعلیم دیں گے۔


بشکریہ ڈان نیوز

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *