پاکستان میں جعلی ادویہ کی فروخت، ڈرگ انسپکٹرز ناکام

  • March 5, 2018 12:13 pm PST
taleemizavia single page

ملتان

پاکستان میں جعلی اور غیر معیاری ادویہ کی فروخت ایک بڑا مسئلہ ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں ہرسال تقریبا 10 لاکھ افراد جعلی ادویہ استعمال کرنے سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈرگ انسپکٹرز اور ڈرگ ریگولیٹر اتھارٹیز کی ملی بھگت سے جعلی اور غیر معیاری ادویہ کی فروخت ہورہی ہےجبکہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے مطابق پاکستان میں تقریبا 57 ہزار رجسٹرڈ ادویہ فروخت کی جا رہی ہیں۔

ترجمان محکمہ صحت ساجد شاہ کے مطابق ادویات کی رجسٹریشن کا عمل تمام تر کوائف کی جانچ پڑتال کے بعد کیا جاتا ہےجبکہ ادویہ کا معیار یقینی بنانے کے لیے عالمی اسٹینڈرڈ کی ڈرگ ٹیسٹنگ لیبارٹریز بھی ملک میں موجود ہیںاور یہی کہنا ہے ماہرین دواسازی کا بھی مگر ان لیبارٹریز کا مفید استعمال ہوتا نظر نہیں آرہا۔

ماہرین دواسازی اور فارما انڈسٹری سے منسلک افراد کہتے ہیں ملک بھر میں جعلی ادویہ کے بنانے سے فروخت تک کا سب کو علم ہے، اس سارے دھندے میں مبینہ طور پر ڈرگ انسپکٹرز بھی ملوث ہیں۔

ڈریپ کے سینئر افسران کا کہنا ہے کہ جعلی ادویہ کا مطلب صرف غیر رجسٹرڈ ادویہ ہیں نا کہ ان کی پروڈکشن کا غیرمعیاری ہونا جبکہ ماہرین دواسازی کے مطابق ادویات کے دو قسم کے گریڈ ہوتے ہیں، ایک انسانوں کے لئے اور دوسرا جانوروں کے لیے تاہم ادویہ کی پیداواری لاگت کم رکھنے کے لیے جانوروں کے اسٹینڈرڈ کی اشیاء کو استعمال کیا جاتا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ادویات کے متعلق پالیسی مرتب کرنے یا نئی تحقیقات کے حوالے سے ڈریپ کو آگاہ بھی کیا جائے تو وہ کان نہیں دھرتے۔

دوسری جانب کسی بھی عالمی یا ملکی سیرپ یا گولی کی پیکنگ کا میٹریل با آسانی بازار سے حاصل کر کے اس میں لوکل سپلائر اپنی دوائی شامل کرکے با آسانی فروخت کرتے ہیں۔

ادھر فارما انڈسٹری کے صدر زاہد بختاوری کہتے ہیں ادویہ کا معیاری نا ہونا یا مارکیٹ سے غائب ہو جانے کے پیچھے بھی ڈریپ کی غفلت ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی دوا ساز انڈسٹری ان حالات میں بھی بہتری کی کوشش کررہی ہے جس کے سبب دنیا کے 40 ممالک میں پاکستانی ادویہ برآمد کی جارہی ہیں تاہم دوائوں کا معیار بہتر بنانے کے لیے ابھی بھی مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *