سی ایس ایس میں 98 فیصد اُمیدوار کیوں فیل ہوئے؟

  • October 15, 2016 5:18 pm PST
taleemizavia single page

منور صابر

سی ایس ایس یعنی مقابلے کا امتحان دراصل برطانوی راج کے دوران انگریزوں نے برصغیر میں مقامی آبادی کے ذریعے اپنی حکمرانی کو زیادہ مضبوط طریقے سے مسلط اور موثر کرنے کے لئے متعارف کرایا گیا۔

سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے بیوروکریٹس بننے والے افسران کو نچلے درجے کے افسران انہیں نوری مخلوق سمجھتے ہیں۔ مارشل لاء کا دور ہو یا جمہوری حکومتوں کا دور، ہر دو صورت میں ان افسران کے اختیارات لا محدود ہی رہتے ہیں۔

اگر حکومت جمہوری ہو تو واضح اکثریت ان پڑھ یا کم تعلیم یافتہ وزراءکی ہوتی ہے اور بیوروکریسی اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتی ہے اور یوں اگر مارشل لاءکا دور ہو تو ڈکٹیٹر لوگوں پر اپنا رعب جمانے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کی خاطر اسی بیوروکریسی کے مرہون منت ہوتے ہیں اور بیوروکریسی بھی اس بات پر خوش رہتی ہے کہ جرنیل کو خوش رکھیں گے تو ایم پی اے ایم این اے کو کسی خاطر میں نہیں لائیں گے۔

اسی لئے اللہ کی ذات کے بعد پاکستان کے لوگوں کا مقدر اسی بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور بنیادی طور پر صدا زمینی بادشاہ یہی بیوروکریٹ ہوتے ہیں۔

اسی لئے ڈاکٹر اورانجینئر باوجود ایف ایس سی کا میرٹ بنانے اور ہاؤس جاب سمیت دیگر ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد بھی سی ایس ایس افسر بننے کے لیے تگ و دو کرتے رہتے ہیں اور یوں ہر سال تقریباً 20 ہزار اُمیدوار قسمت آزمائی کرتے ہیں۔

اس منزل کے حصول کے لئے پرائیوٹ اکیڈمیوں کو رخ کرتے ہیں یا کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ کے پاس گروپس کی شکل میں ٹیوشن حاصل کرتے ہیں ۔

واضح رہے کہ یہ پاکستان کا واحد امتحان ہے جس کے نتائج کی خبر قومی میڈیا پر نمایاں طور پر نشر ہوتی ہے ۔ اس سال بھی یہ خبر زیادہ نمایا ں طریقے سے شائع اور نشر ہوئی کیونکہ امتحان پاس کرنے والوں کی تعداد صرف 200 ہے۔

بیوروکریسی میں نئے افسران کی تعیناتی کی نشستیں بھی کم و بیش اتنی ہی موجود ہیں۔ گویا صرف انٹرویو پاس کرنا ضروری ہے ان نتائج کے بعد پاس شدہ تمام اُمیدواروں کو اپنی سلیکشن یقینی نظر آرہی ہے۔

پاس ہونے والے امیدواروں کی تعداد میں کمی کی وجوہات بہت نمایاں ہے یہ پہلا امتحان تھا جو نئے سلیبس اور قواعد و ضوابط کے مطابق لیا گیا ۔ کیونکہ 2015ء کے امتحان میں بہت سارے مضامین یا تو امتحان سے خارج کر دیئے گئے یا ان کے نمبر 200 سے کم کر کے 100 کر دئیے گئے۔

اگر پھر بھی بات نہ بنی تو کچھ مضامین کو کسی ایک گروپ میں اس طرح سے رکھ دیا گیا کہ کوئی طالبعلم 100 نمبر سے زیادہ کا مضمون چن نہ سکے۔

اس کی سب سے بڑی مثال عربی اور فارسی کے مضامین تھے جو کہ عام طور پر تیار کرنے آسان ہوتے تھے اسی طرح ان مضامین کے ماہر پروفیسر نمبر لگاتے ہوئے اپنا ہاتھ بہت نرم اور کھلا کر دیتے تھے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان مضامین کو چنُے مگر اب ایسا ممکن نہیں رہا۔

نئے قوانین کے مطابق انٹرنیشنل ریلیشنز اور سیاسیات تقریباً لازمی مضامین کی حیثیت اختیار کر گئے ہیں اور یہ دونوں مضامین کی تیاری امیدوار ذاتی تیاری سے نہیں کر پاتا۔ کیونکہ ان مضامین پر عبور حاصل کرنے کےلئے ایک سے زیادہ کتب کی ضرورت اور مشکل قسم کے نظریات یعنی زیادہ پڑھائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔

اسی طرح نئے قوانین کے مطابق جینڈر سٹڈیز ،ٹاؤن پلاننگ ، اینتھرو پالوجی اور دیگر نئے مضامین متعارف کرائے گئے جس کی وجہ سے اس امتحا ن کے نالج کا معیار مزید بڑھ گیا اور قدرے سائنٹیفک ہوگیا۔ یہی وجہ تھی کہ اس سال امتحان میں شرکت کرنے والے اُمیدواروں کی تعداد گزشتہ سالوں کے مقابلے میں 10 ہزار سے بھی کم رہی جبکہ داخلہ بھیجنے والوں کی تعداد گزشتہ سالوں کی طرح 20 ہزار ہی تھی۔

شاید بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ سی ایس ایس امتحان منعقد کرنے والوں کی ااندرون خانہ ایک پالیسی ہے کہ فیڈرل پبلک سروکس کمیشن پاس ہونے والے امیدواروں کی تعداد خود کم رکھتا ہے۔ تاکہ سائیکلوجیکل ٹیسٹ اور انٹرویوز منعقد کرنے آسانی رہے اور مطلوبہ افسران کی تعداد بھی مل جائے۔

جس طرح مشہور ہے کہ ایک سابقہ چیئرمین نے رزلٹ مرتب کرنے والے افسران سے کہا کہ مجھے پاس ہونے والے اُمیدواروں کو جمعہ بازار نہیں لگانا۔ یہاں یہ امر واضح کرنا کلیدی ہے کہ آپ سی ایس ایس کا نتیجہ جاری ہونے کے بعد کسی اُمیدوار کو یہ بھی اختیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے نمبروں کی دوبارہ گنتی کے درخواست دے سکے۔

سی ایس ایس امتحانات کے سابقہ ریکارڈ کے مطابق اوسطا 500 اُمیدوار کامیاب قرار پاتے رہے ہیں تاہم اس سال یہ تعداد صرف 200 رہ گئی ہے۔

سی ایس ایس کے امتحان میں انگلش ایسیزکے پرچے کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔اس امتحان میں 60 سے 70 فیصداوسط اُمیدوار اسی مضمون کی وجہ سے فیل ہوجاتے ہیں۔اس سال بھی سب سے زیادہ فیل ہونے کی بڑی انگلش ایسیز کا پرچہ ہی وجہ بنا ہے۔

اس کے بعد انگریزی کے پرچے میں کمپوزیشن اینڈ گرائمر سے متعلق سوالات ہوتے ہیں اور رواں سال اس پرچے میں بھی فیل ہونے والے اُمیدواروں کی اکثریت شامل ہے۔

یہ دونوں پرچے سی ایس ایس طلباء کی تحریری امتحان میں کامیابی میں بڑی رکاوٹ ہیں تیسرا مضمون اسلامیات کا ہے جس میں امیدواروں کے فیل ہونے کا خطرہ نہ صرف زیادہ ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات اسلامیات میں فیل ہونے والوں کی تعداد انگلش میں فیل ہونے والے تناسب سے بھی بڑھ جاتی ہے۔

امیدوا ر مسلمان ہونے کے ناطے یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے دین کا مکمل پتا ہے اور اس پر ہم لکھ ہی لیں گے مگر کم لوگ یہ دھیان کرتے ہیں کہ اسلامیات کے پیپر کےلئے دیگر مذاہب پر بھی گرفت ہونا ضروری ہوتا ہے۔اسی طرح صرف ایمانیات اور عبادات ہی نہیں بلکہ اسلامی کلچر ، معاشی نظام ، سیاسی نظام ،مسلم امہ کو درپیش مسائل سے متعلق سوالات کئے جاتے ہیں اور یوں امیدواروں کی ایک بڑی تعداد اسلامیات میں بھی فیل ہوجاتی ہے ۔

اس کے بعد اس سال ٹاﺅن پلاننگ کے مضمون میں حیران ، پریشان اور غیر فہم نتیجہ آیا ہے۔ جیسے کئی امیدواروں کو 100 میں سے 10 نمبر بھی نہیں دیئے گئے جو بلاشبہ ناانصافی ہے اور سی ایس ایس کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ لازمی مضامین کی بجائے ایک آپشنل مضمون میں امیدواروں کی بڑی تعداد کو اس مقابلے کی دوڑ سے باہر کر دیا گیا ہے۔

یہاں تک کہ جو انگریزی کے دونوں پرچوں میں پاس ہوگئے تھے وہ محض ٹاﺅن پلاننگ کے پرچے کی وجہ سے مقابلے کی دوڑ سے باہر ہوگئے اور یوں سی ایس ایس کے امتحان میں پاس ہونے والوں کی تعداد کم ترین یعنی صرف 200 رہی۔

بیوروکریسی میں انٹری کا صرف واحد قانونی راستہ سی ایس ایس کا امتحان ہی ہے اور اس شعبے کا چناؤ اس لیے کیا جاتا ہے کہ مستقبل بھی محفوظ ہے اور طاقت بھی میسر آجاتی ہے۔ لیکن سی ایس ایس کا امتحان کا نتیجہ ہمیشہ حکومتی پالیسی کے ہی تابع ہوتا ہے۔


munwer-sabir

منور صابر پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ جغرافیہ میں بطور اُستاد تعینات ہیں۔ اُنہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔سی ایس ایس کے اُستاد کے علاوہ وہ کالم نگار اور پاکستان کے سیاسی، معاشی اور تعلیمی نظام کے ناقد ہیں۔اُنہوں نے یہ کالم خصوصی طور پر تعلیمی زاویہ کے لیے لکھا ہے۔

  1. منور صابر صاحب آپ نے ٹھیک کہا یہاں تو بادشاہت افسر شاہی کی ہے۔ سیاستدان تو بیوروکریسی کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ دونوں ملکر ملک کو لوٹتے ہیں لیکن بدنام صرف سیاستدان ہوتا ہے۔

  2. بیوروکریسی مڈل کلاس لوگوں کے لیے زیادہ کشش کا باعث ہے۔ کیونکہ اُن کے پاس ترقی کا صرف یہ واحد راستہ ہے۔ بیوروکریٹ ترقی کرنے کا شارٹ کٹ ہے۔

  3. I think due to policy 98% have been failed. Otherwise those can’t be failed who passed English paper.

  4. Its good analysis and guidance for those who are failed. Wish you best of luck for those who passed this tough exams. Best wishes for you!

  5. بلاشبہ بیوروکریسی مڈل کلاس کے لیے پرکشش ہے پر آج کے دور کا المیہ یہ ہے کہ جس طبقے کے بچوں نے افسر شاہی میں آنا ہے پہلے تو اول دن سے ان کو ایک خاص ماخول فراہم کیا جاتا ہے اور دوسرا اگر ُپ بہترین نہیں بلکہ اچھے سٹوڈینٹ ہیں تو آپ کو اس کی تیاری کے لیے اچھے خاصے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے-

  6. Good information. Sir if you can tell till which age one can give this exam. Tell about ways how to set in exam when u r already 33 to 35. Ways & means to cover age.

  7. I think its a good job but not good enough because you are still doing a job and you are under some Person and not fully independent ,
    I mean you have to go with flow , it does not matter too much that you have power.
    If you want power then win the hearts of people ,
    They will become your power .
    Thankx

  8. i think it is nice , comprehencive and research base note which is i think never written by any educationist regarding recent css poor results and its reasons. very nice job by dr, munawar.

  9. The most significant thing actually is how CSP,s can serve the country better and how CSS exam can be made meaningful and useful for the nation. Before we discuss the ways for betterment I would like to point out the main fault in the current style appart from what was then or is now the percentage of candidates who may pass the exam.You know we are right now breathing in the age of specialization but in CSS we prepare a team comprising officers who need not be specialist in any field.We simply induct them anywhere we want.An arts graduate is inducted as secretary science & technology and vice versa.If we want improvement we must bring radical changes ,for example we can introduce CSS exam meant for a particular category of officers required in various branches of government i.e education,health,science & technology,commerce ,agriculture,industry .While doing so we can reserve a general group ad well for deployment in various other branches of administrative nature.Qualification for each category must be accordingly.If we do this we can have better stuff to serve the purpose.

  10. سی ایس ایس میں ناکامی کی بڑی وجہ ہمارے کمزور تعلیمی ادارے ہیں۔

  11. منور ”صاحب آپ نے ٹھیک کہا سیاستدانوں کو تعلیم پر زور دینا چاہئیےتاکہ تعلیم کی کمی پوری کی جا سکے اور سیاست دانوں کے بچوں کی طرح باقی بچے بھی تعلیم کے ہر میدان میں کامیاب ہیں

  12. Qualification mandatory krney ki itni zarurat nahi hy.albata just exam ko specialized bnaya ja skta hy…ta k gr aik science graduate arts group mey jana chahta hy tou wo arts consisting exam subjects rakh k exam pass kr ley…
    Or fail krney ki zimeydaar FPSC hi nahi hy.. It shows the level of poor education imparted to youth by institutes.

  13. It is to b noted that the undeniable reality which is responsible for such miserable result is because of our educational system. After matric,enter or graduation we r left with the no information that what actually is CSS. When we do have any thing to do then we go for CSS which is really childish. So as to make it better for our next generation is to make a CSS subject as compulsory from 6 class to ten.

  14. Sir aap nay bhe 1999 main css ka exam diya tha angraiz ki shani bureaucracy main dakhil honay k liay jis pa aap tanqeed kar rahay Hain. Magar ap css khud to pass nah kar sakay ab css ki academy main parhatay Hain. Masha Allah

Leave a Reply to IQRA HASHMI Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *