کامسیٹس ڈبل ڈگری جعلسازی در جعلسازی

  • December 5, 2016 12:20 pm PST
taleemizavia single page

یاسر صدیقی

کامسیٹس انسٹیٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لاہور کیمپس میں فال دو ہزار دس سمسٹر سے شروع ہونے والے ڈبل ڈگری پروگرام کا کیس عدالتِ عالیہ میں زیرِ سماعت ہے اور قوی امید ہے کہ پندرہ دسمبر کو ڈویژن بنچ کے حتمی فیصلے کا اعلان کر دیا جائے گا۔ گزشتہ دو سال سے عدالت میں جاری رہنے والی بحث صرف اس حد تک محدود تھی کہ یہ پروگرام شروع کرنے کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان اور پاکستان انجنیئرنگ کونسل کی پیشگی اجازت حاصل نہ کی جا سکی۔

دونوں اداروں کی جانب سے داخل کردہ جوابات سے واضح ہے کہ اس پروگرام کے بنیادی تصور سے ان کا اختلاف ایسا شدید اور مستقل نوعیت کا ہے کہ اسے مستقبل میں بھی کبھی اجازت ملنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن کا کہنا ہے کہ قانونی طور پر ایک چار سالہ پروگرام کے عوض صرف ایک ڈگری اور ایک ٹرانسکرپٹ جاری کیا جا سکتا ہے۔ کم از کم تیس فیصد اضافی مضامین پڑھائے بغیر دوسری ڈگری کے اجراء کا کوئی جواز نہیں۔ لنکاسٹر یونیورسٹی کی ڈگری کے باب میں ایچ ای سی کو یہ اعتراض بھی ہے کہ یہ ڈگری خود برطانوی ریگولیٹرز سے منظور شدہ نہیں، لہذا ایچ ای سی اسے منظور نہیں کر سکتا۔

واضح رہے کہ ریگولیٹرز کے باہمی معاہدے کی رو سے لنکاسٹر یونیورسٹی کی برطانیہ میں جاری کی جانے والی ڈگری چونکہ برطانوی ریگولیٹر سے منظور شدہ ہوتی ہے لہذا اسے ایچ ای سی بھی منظور کرتا ہے۔

پاکستان انجنیئرنگ کونسل کو لنکاسٹر ڈگری پر دو بنیادی اعتراضات ہیں؛ ایک یہ کہ یہ ڈگری برطانوی انجنیئرنگ کونسل سے منظور شدہ نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ یہ تین سالہ ڈگری ہے جبکہ پاکستانی انجنیئرنگ کی ڈگری چار سالہ پروفیشنل ڈگری ہے۔ پی ای سی واشنگٹن اکارڈ کی سگنیٹری ہونے کے باعث بین الاقوامی معاہدے کی پابند ہے جس کے اغراض و مقاصد میں انجنیئرنگ کی تعلیم کو گلوبل سٹینڈرڈائزیشن کی طرف لے جانا شامل ہے۔

اس معاہدے کے تحت پاکستان میں حاصل کی جانے والی انجنیئرنگ کی انڈر گریجویٹ کی چار سالہ پروفیشنل ڈگری برطانیہ میں جاری کی جانے والی ایم اینج کی چار سالہ ڈگری کے برابر قرار دی گئی ہے۔ ڈبل ڈگری پروگرام میں لنکاسٹر یونیورسٹی کی جانب سے بی اینج آنرز کی ڈگری جاری کی جا رہی ہے جو کہ تین سالہ پروفیشنل ڈگری ہے لہذا پی ای سی کے لئے ناقابلِ قبول ہے۔

انجنیئرنگ کی تعلیم کے لئے پاکستان کی نامور ترین یونیورسٹیز میں یو ای ٹی، لاہور، این ای ڈی یونیورسٹی، کراچی، نسٹ، اسلام آباد، یو ای ٹی، ٹیکسلا، جی آئی کے، صوابی، پیاس، اسلام آباد، اور یو ای ٹی، پشاور وغیرہ شامل ہیں۔ کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انجنیئرنگ کا شعبہ اپنی فیکلٹی اور انفراسٹرکچر کے لحاظ سے مذکورہ بالا یونیورسٹیز کا عشرِ عشیر بھی نہیں۔ ان یونیورسٹیز میں سے بعض کی تاریخ ایک صدی سے زیادہ طویل ہے۔

ماہِ اگست دو ہزار پندرہ میں ایچ ای سی کی جانب سے اسلام آباد میں وائس چانسلرز کی ایک کانفرنس منعقد کی گئی اور اس میں بالخصوص انجنیئرنگ یونیورسٹیز کے وی سیز کو کامسیٹس کے ڈبل ڈگری پروگرام پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ خطاب کرنے والے تمام معززین نے اس پروگرام کو ناقابلِ قبول اور کھلی دھوکہ دہی قرار دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کامسیٹس اپنے گریجویٹ کو لنکاسٹر کی اضافی ڈگری پکڑا کر مارکیٹ میں اس کے یو ای ٹی ، نسٹ اور پیاس کے گریجویٹ سے بہتر ہونے کا ایک جعلی تاثر قائم کرنا چاہتا ہے جو کہ خلافِ حقیقت بھی ہے اور ممکنہ آجروں کو دھوکہ دینے کے مترادف بھی۔

ڈبل ڈگری فراڈ کا معاملہ محض ایچ ای سی اور پی ای سی کی پیشگی اجازت نہ لینے تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے ذریعے حکومتِ پاکستان کے ہر ہر ادارے کو بائی پاس کرکے ان گنت قوانین کی کھلی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ میں نے اس سلسلے میں ابتدائی طور پر چھ سوالات متعین کئے ہیں، جن کے جوابات حاصل کرنے کے لئے ایف آئی اے اور عدالتِ عالیہ میں درخواست دائر کی جا چکی ہے؛

اول؛ یہ پروگرام شروع کرنے کے لئے کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ کے بورڈ آف گورنرز نے ایچ ای سی اور دیگر پروفیشنل کونسلز کی پیشگی اجازت کے حصول کی شرط عائد کی تھی جسے ملحوظِ خاطر نہیں رکھا گیا۔واضح رہے کہ ادارے کے اپنے چارٹر کے مطابق بھی ادارہ صرف ایچ ای سی کے منظور شدہ پروگرامز چلانے کا مجاز ہے۔

دوئم؛ یہ پروگرام شروع کرنے کے لئے ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور پاکستان انجنیئرنگ کونسل کی پیشگی اجازت حاصل نہ کی گئی۔ بعد ازاں بھی دونوں اداروں نے اس پروگرام کو کبھی منظوری نہ دی، اسی لئے اس پروگرام کو سپرنگ دو ہزار پندرہ سمیسٹر سے ختم کردیا گیا۔

سوئم؛ ڈیوئل ڈگری کا کاروبار چلانے کے لئے لنکاسٹر یونیورسٹی کی سیکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے پاس باقاعدہ رجسٹریشن نہیں کروائی گئی۔ لنکاسٹر یونیورسٹی سے کوئی سیکیورٹی طلب نہ کئے جانے کے باعث آج پاکستانی طلبہ کےادا شدہ ملینز آف پاؤنڈز داؤ پر لگ چکے ہیں۔

چہارم؛ بھاری مقدار میں قیمتی زرِ مبادلہ بیرونِ ملک منتقل کرنے کے لئے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے اجازت نہ لی گئی۔حبیب بینک لمیٹڈ، پنجاب یونیورسٹی برانچ میں لنکاسٹر یونیورسٹی کے نام پر ایک فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوا کر اس میں برٹش پاؤنڈز جمع کئے گئے جبکہ اس پروگرام کو متعلقہ اداروں کی منظوری حاصل نہ تھی۔

پنجم؛ لنکاسٹر یونیورسٹی کی پاکستانی حدود کے اندر فراہم کی جانے والی خدمات پر حاصل ہونے والی خطیر آمدن کو فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سامنے ڈکلیئر کرکے اس پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا اور یوں قومی خزانے کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا گیا۔

آخر میں لنکاسٹر یونیورسٹی، یو کے کے پاکستان میں آپریشن کے لئے فارن آفس سے کلیئرنس حاصل نہ کی گئی اور ایک نجی انتظام کے تحت ایک بیرونی یونیورسٹی کو پاکستانی طلبہ کے تعلیمی اور تدریسی معاملات تک رسائی دی گئی۔ کل کلاں کو اگر کوئی اسرائیلی یا بھارتی یونیورسٹی بھی ایسے ہی کسی نجی انتظام کے تحت پاکستانی طلبہ کے تعلیمی اور تدریسی معاملات تک رسائی حاصل کرلے تو کیا اسے بھی گوارا کرلیا جائے گا؟


yasir-siddiqui

یاسر صدیقی ایٹمی انجینئر ہیں وہ اٹامک انرجی کمیشن میں نو سال خدمات دے چکے ہیں، کامسیٹس میں سات سال بطور اُستاد تعینات رہے اور متاثرہ طلباء کے لیے عدالت میں کیس لڑا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *