علوم کا طبقاتی استعمال اور حکمران طبقہ

  • October 22, 2017 8:02 pm PST
taleemizavia single page

ڈاکٹر روبینہ سہگل

علم اور طاقت کا آپس میں گہرا رشتہ ہوتا ہے اس لیے اسے حاکم و محکوم دونوں استعمال کرتے ہیں۔ حکمران طبقہ اور طاقتور گروپ علم کو حکومت کرنے اور دوسروں پر کنٹرول کی غرض سے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح محکوم طبقے، عورتیں اور اقلیتیں علم کو آزادی کی تحریکوں میں استعمال کرتے ہیں۔

علم طبقاتی، صنفی اور دیگر جنگوں، کشمکش میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ لہذا یہ کہنا ممکن نہین ہے کہ سچ کیا ہے کیونکہ مختلف طبقوں کے افراد کیلئے سچ مختلف ہوتا ہے۔ عورتوں اور مردوں کیلئے سچ مختلف ہوتا ہے۔ لیکن اتنا ضرور کہنا پڑے گا کہ جہاں بھی جھوٹ، ظلم اور استحصال کا رشتہ موجود ہو ہر کسی کا سچ نہیں مانا جاسکتا بلکہ کُچھ انسانی قدریں بنیادی ہوتی ہیں۔

پرانے زمانے میں حکمران طبقے مذہب کا سہارا لیکر حکومت کیا کرتے تھے علم تک رسائی بھی انہی کے ہاتھ میں تھی۔ یہ اپنی دولت اور علم دونوں کی بنیاد پر حکومت کرتے تھے اور مذہب میں اس کا جواز تلاش کرتے تھے۔

چھاپہ خانوں کی دریافت و ایجاد کے بعد علم عام ہوا اور عام لوگوں کی پہنچ میں آگیا اس طرح محکوم طبقوں نے حاکموں کی علمی برتری کو چیلنج کیا اور متبادل علمی سچ تلاش کیے۔ اس کے نتیجے میں انقلاب آئے۔ مثلا فرانسیسی انقلاب، روسی انقلاب۔

پرانا علم حکومت کرنے کے لیے اور اپنا غلبہ جمانے کے لیےنا کافی ثابت ہوا چنانچہ نئے نئے علوم دریافت کیے گئے تاکہ حکمرانوں کی بالادستی کو قائم رکھا جا سکے۔

یہ پڑھیں؛ کیا طبقاتی تعلیم میں حکمرانوں کی بقاء کا راز ہے؟

اس عمل میں سائنس اور ٹیکنالوجی بھی بہت کار آمد ثابت ہوئے اور جو جدید علم حکمرانی کی غرض سے بے حد عام ہوتا جارہا ہے وہ ہے بزنس کی تعلیم۔ یعنی کاروباری اور تجارتی تعلیم۔

پاکستان میں 80ء کی دہائی سے بہت سے بزنس کے کالج اور ادارے کھل چُکے ہیں اور ہر شخص بزنس ایڈمنسٹریشن کر کے یعنی متوسط سطح کا مینجر بننے کا خواہاں ہے۔

بڑے بڑے بینک اور دیگر بین الاقوامی تجارتی و معاشی ادارے اس تعلیم سے آراستہ افراد کو بہت اچھی تنخواہیں دیتے ہیں اور ان کا رُتبہ کافی اُونچا ہوجاتا ہے۔

لاہور میں لمز جبکہ کراچی میں آئی بی اے اس کی بہترین مثال ہے۔ ایسے اداروں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ متوسط سطح کے مینجر تیار کیے جائیں جو مزدوروں کو بہتر طریقے سے کنٹرول کر لیں۔ جو انہیں خوش بھی رکھ سکیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کی پیداواری صلاحیت بھی بڑھا سکیں تاکہ کمپنی کو منافع ہو۔

اس کی تعلیم میں ایک طرف تو ٹیکنیکل اور سائنسی تصورات ہوتے ہیں جو بزنس سے متعلق بہتر منافع بنانے کے لیے ہوتے ہیں۔ انہیں مشینوں کے بارے میں بھی معلومات دی جاتی ہیں اور ایسے قواعد و ضوابط بھی بتائے جاتے ہیں جن سے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکے۔

لازمی پڑھیں؛ پاکستان کی اشرافیہ اور تعلیم کا حاکمیتی ماڈل

تکنیکی معلومات کے علاوہ ان کی تعلیم کا ایک اہم حصہ معاشرتی علوم، خاص طور پر نفسیات اور عمرانیات بھی ہوتا ہے۔ مقصد یہ ہوتا ہے کہ انہیں سکھایا جائے کہ وہ کیسے یہ اندازہ لگائیں کہ خریدار کیا خریدنا چاہے گا اور کیوں؟

کس طرح سے خریدار کو آمادہ کیا جائے کہ مخصوص چیز ضرور خریدے۔ خریدار کی نفسیات اور ضرورتوں کے بارے میں انہین تعلیم دی جاتی ہے ان کا کام ہوتا ہے کہ خریدار کو سائنسی طریقوں سے قائل کریں کہ وہ کوئی چیز ضرور خریدے۔

اسی طرح مستقبل کے مینجرز کو تعلیم دی جاتی ہے کہ مزدوروں کی نفسیات سمجھیں اور اس کے مطابق ان پر قابو حاصل کریں۔ ماضی میں مزدوروں اور محکوم طبقوں کو زبردستی سے طاقت سےاور ریاست کی طاقت سے مرعوب کیا جاتا تھا اور ڈرا کر رکھا جاتا تھا۔

آج کل پائیدار ترقی اور پائیدار انسانی ترقی کے تصوررات مقبول ہیں اب قابو کرنے کے طریقوں میں انسانی دوستی کے تصورات کا بہت عمل دخل ہے اور کنٹرول کرنے کے سائنسی طریقے اختیار کیے گئے گویا مزدور سمجھتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے تابعداری کر رہا ہے۔

تابعداری کو کام کے عمل کا اندرونی اور لازمی حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس قسم کے تکنیکی کنٹرول کا تصور بہت تحقیق کا موضوع بنا ہے اور اس میں نفسیات اور عمرانیات کے معاشرتی علوم کی بہت مدد لی گئی ہے۔

گویا ایک نیا اعلیٰ طبقہ تیار کیا جارہا ہے جو عام مزدوروں کو قابو میں رکھنے کی غرض سے تیار کیا جاتا ہے تاکہ اُوپر کے درجے کی انتظامیہ پالیسی بنا سکے اور خود کو دوسری چیزوں میں مصروف کر سکے۔ اس طرح تعلیم کو پوری طرح معیشت سے جوڑ دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں؛ کالونیل ازم اور یورپ کی مرکزیت کا نظریہ

یوں علم کو بالادستی کے لیے طبقاتی اغراض و مقاصد کے تحت استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس کی بہترین مثال ہمیں بزنس کی تعلیم میں ملتی ہے اور اسی لیے بزنس کے اداروں کو اس تعلیم کیلئے کثیر رقم کے عطیے دیے جاتے ہیں۔

جہاں ایک طرف حکمران طبقے اور طاقتور افراد علم کو بالادستی کی غرض سے استعمال کرتے ہیں وہاں دوسری طرف محکوم طبقے اور عورتیں متبادل علم کو بالادستی کے خلاف استعمال کرتے ہیں اور موجودہ نظام کو ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

جس طرح سرمایہ دار بہتر مینجر بنانے کے لیے تحقیق کرتے ہیں اور نیا علم پیدا کرتے ہیں اور بالادست علم کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں علم کی اس سیاست میں سماجی رشتے تبدیل ہوتے ہیں۔ اب انسانی حقوق کی تحریک نے انسانی حقوق کے علوم کو تمام نصاب میں رائج کرنے کی تحریک چلا رکھی ہے۔

موجودہ دور میں عورتوں کے حقوق کی تحریک ہو، اقلیتوں کی تحریک، ماحولیات پر تحریک، مزدوروں کے حقوق کی تحریک یا دیگر تحریکیں الگ الگ کام کر رہی ہیں گویا یہ تمام علوم بکھرے ہوئے ہیں اور منتشر ہیں جب تک یہ یوں منشتر رہیں گے شناخت، تشخص ، ذات اور پہچان منتشر ہوگی۔

اس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں اکثر متبادل یا مزاحمتی علم خود حکمران خیالات کا حصہ بن جاتا ہے۔ آج کل طاقتور ممالک کے طاقتور افراد بھی بسا اوقات انہی کے آلہ کار بن جاتے ہیں۔ طاقتور طبقوں اور افراد کی ہر دم کوشش ہوتی ہے کہ متبادل اور مزاحمتی تحریکوں کو اپنی سوچ میں اس طرح داخل کر لیا جائے کہ استحصالی نظام بھی ختم نہ ہو۔

اور یوں لگے گویا یہ نظام بہت ترقی پسند اور روشن خیال ہے اس لیے حکمت عملی کے تحت سیاستدان مزاحمتی زبان کو اپنا لیتے ہیں اور اس طرح تحریک کو غیر موثر کر دیتے ہیں۔ ہمیں علم اور طاقت کی اس سیاست کو بخوبی سجھنا ہوگا تاکہ ہم اس کے خلاف مزاحمت کر سکیں۔


  1. Wonderful explanation of a relation. Good point of view. Keep it up please. I would also like to thank you Taleemizavia. You people are doing great job.

  2. دونوں عالمی جنگوں کی قباہتوں نے عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد رکھی ،عالمی سرمایہ دارانہ اتحاد کی وجہ محنت کشوں کے حقوق کی تحریکیں تھیں خواہ وہ کسان تھے یا صنعتی مزدور دونوں لوہے کے آلات کی کنزیومر انڈسٹری سے جڑے ہوئے تھے ،سرمایہ داری نظام نے اس کنزیومر انڈسٹری کی اشکال کو تبدیل کر کے لوہے کے آلات کی ٹیکنالوجی کو ٹھیکے داری نظام میں تبدیل کر دیا جس وجہ سے مزدوروں کسانوں کی یونٹی اور حقوق کے شعور کو نقصان پہنچا مگر یہ نظام زیادہ عرصہ مزدوروں کسانوں کے حقوق سے نا کھیل سکا ،جب نجی سرمایہ داری میں ٹھیکے دار کا کلاس کریکٹر بنا تو اس کا ایک طرف تضاد مزدوروں کسانوں سے ابھر کر سامنے آیا تو دوسری طرف عالمی سرمایہ داری گماشتہ نظام سے بھی تضاد ابھر کر سامنے آیا ،روس اور چین کے اندر مارکسی جدلیاتی سائنسی اصولوں کی بنیاد پر عالمی سرمایہ داری گماشتہ نظام سے بچنے اور مقابلہ کے لیے اشتراکی نظام کے اندر عالمی سرمائے کو سوشلسٹ ریاستوں کے کنٹرول ٹرم اینڈ کنڈیشن کی بنیاد پر سرمایہ کاری کروائی تو کلاسیکل سوشلسٹ ریفارم اور محنت کے مشترکہ اصولوں کی وجہ سے چین جیسے ملک میں تیز ترین ترقی ہوئی ۔۔۔ اس تیز ترین ترقی کی رفتار کو دیکھتے ہوئے جرمن اور جاپان کی کنزیومر ٹیکنالوجی کو ہند چینی کے ممالک کے اندر چین سے ملحقہ گماشتہ ریاستوں کے اندر ڈیسپوز ایبل کم پائیدار ٹیکنالوجی کو ترقی دے کر مصنوعی معیشت کے پیداواری اصولوں سے جوڑ کر روس سے ملحقہ ریاستوں پر قبضہ کی لڑائی شروع کردی جس نے کنزیومر ٹیکنالوجی کے حصہ داروں میں اضافہ کر دیا اور جس کی وجہ سے یورپ کی غیر فوجی ویلفئیر ریاستوں کی ترقی کی شرح کا گراف نیچے آگیا عوامی مسائل میں اضافہ ہوا مصنوعی سماجی عمرانی سائنسی ثقافتوں کے نظام میں دراڑیں پڑنا شروع ہوئیں جس کی وجہ سے نیو کارپوریٹ اکانومی کو نا قابل تلافی نقصان بھی پہنچا اور یورپ کی عوام کو زمین سے جڑے وسائل اور بنیادی حقوق کے کے حقیقی رول اور ارتقاء کا پتہ چلا جس کے اندر قومی ریاست کی تشکیل نو کے جدید معاشی نظریے نے جنم لیا زندہ رہو اور زندہ رہنے دو جو عین سوشلزم ہے ،محترمہ جس نظام کی آپ نے بات کی ہے اور جس مصنوعی نظام سے وابستہ ثقافتوں نے ہمارے قیمتی وسائل کی بنیاد پر ہلڑ مچایا ہوا ہے ،یہ کنزیومر انڈسٹری کے بنا ادھورا ہے ،چین پاکستان کو کنزیومر انڈسٹری میں شراکت داری دینا چاہ رہا ہے تاکہ اس کی ملحقہ ریاست کے اندر امن قائم رہے ،عالمی سامراج اس ریاست کو مصنوعی معیشت اور بزنس کے اصولوں پر زندہ رکھنا چاہتا ہے جو کہ ناممکن ہے ٹیکنالوجی کا کوئی مذہب اور دیش نہیں ہوتا یہ چھوت کی طرح پھیلتی ہے اور اس کے آگے بند نہیں باندھے جاسکتے ،اس مصنوعی معیشت کے تمام کارپوریٹ ادارے زیادہ دیر عوام کی نفسیات کو کنٹرول نہیں کرسکتے آبادی بہت بڑی ہے طبقاتی تضاد انتہائی پیچیدہ ہیں معاشی کلاس کریکٹڑ انسانیت کے روپ میں سوالیہ نشان بھی بنا ہوا ہے اور وبال جان بھی ۔۔۔

Leave a Reply to Danish Butt Cancel reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *