شگاگو یونیورسٹی میں طلباء کے فریڈم آف ایکسپریشن پر پاپندی عائد

  • August 30, 2016 10:01 pm PST
taleemizavia single page

قراۃ العین فاطمہ، لاہور

شگاگو یونیورسٹی نے اپنے نئے طلباء کے نام خط میں خبردار کیا ہے کہ یونیورسٹی کی حدود میں تعلیمی آزادی کے نام پر ایسے موضوعات پر بحث، سرگرمی یا لکھنے کی اجازت نہیں ہوگی جس میں دوسروں کے جذبات کے مجروح ہونے کا اندیشہ ہو۔

ایسے تصورات کی یونیورسٹی انتظامیہ حمایت نہیں کرے گی۔

یہ اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ آئندہ مہینے یونیورسٹی میں آنے والے نئے طلباء رات گئے تک کیمپس ٹھہر سکتے ہیں، نئی دوستیاں اور مشکل لیکچرز کو سمجھنے کے بہانے وہ شام کے بعد بھی کیمپس میں ہی رک سکتے ہیں۔

ایک طرف امریکہ کی دیگر یونیورسٹیوں میں بحث و مباحثوں کی کھلی اجازت ہے اور اس میں کوئی روک ٹوک نہیں وہیں شگاگو یونیورسٹی اپنے طلباء پر یہ پاپندی لگا رہی ہے۔

شگاگو یونیورسٹی نے بذریعہ خط اس حالیہ رجحان کی مخالفت کر دی ہے۔

شگاگو یونیورسٹی کے ڈین سٹوڈنٹ افیئرز جے ایلیسن نے فرسٹ ایئر کے نئے داخل ہونے والے طلباء کے نام لکھے گئے اس خط میں کہا ہے کہ؛

آپ کو کیمپس کے طلباء سے سخت مباحثے، گفت و شنید اور یہاں تک کے اختلافات کی توقع رکھنی چاہیے۔ بعض اوقات یہ سب کچھ آپ کے لیے چیلنج اور حتیٰ کہ تکلیف کا باعث بن سکتا ہے۔

یونیورسٹی کی تعلیمی آزادی کے عزم کے عنوان سے لکھے اس خط میں کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی نام نہاد ٹرگر وارننگ کی حمایت نہیں کرتی۔

ٹرگر وارننگ کا مطلب ایسے مواد کی تشہیر، بحث ومباحثہ اور سرگرمیاں ہیں جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہونے اور پریشان کن کرنے کا اندیشہ ہوتا ہے اس کی پیشگی اطلاع دی جاتی ہے، یہ اطلاع زبانی بھی ہوسکتی ہے اور تحریری بھی۔

اس خط میں آگے چل کر مزید کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی نہ تو مدعو کیے جانے والے شہرت یافتہ مقررین کی دعوت کو منسوخ کرتی ہے اور نہ ہی دانشور کی اہمیت کو نظر انداز کرتی ہے۔ اگرچے بعض افراد عجیب و غریب خیالات اور نقطء نظر کو کھل کر بیان کرتے ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے جگہیں مختص کر دی گئی ہیں جہاں پر ایسے موضوعات پر بحث کی جاسکتی ہے جہاں پر طلباء بغیر کسی خوف، ڈر حتیٰ کہ رنگ و نسل اور مذہب کے فرق کے باوجود مباحثہ کرسکتے ہیں۔

اس عجیب و غریب خط کے بعد سماجی رابطوں کی سائٹ پر نئی بحث کا آغاز ہوا ہے۔ جس میں خط کی حمایت اور مخالفت دونوں شامل ہیں۔

کالج بنیادی طور پر مباحثہ کی جگہ ہوتی ہے جہاں پر طلباء مختلف آئیڈیاز پر گفتگو کرتے ہیں اور یہی اُن کے سیکھنے کا بہترین ذریعہ ہے اب اگر انتظامیہ ٹرگر وارننگ کی حوصلہ شکنی کر کے مباحثہ کے ماحول کو کیوں نقصان پہنچانا چاہتی ہے؟ لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ اب ترجیحات اور اقدار بدل رہی ہیں۔

مغربی ورجینیا کے شعبہ عمرانیات کے پروفیسر جیسن مینگ کی جانب سے کرسچیئن سائنس مانیٹر کو کی جانے والی ای میل میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ کئی سالوں کے دوران امریکہ کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اظہار رائے کی آزادی کی پاپندیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔

مزید براں مدعو مقررین پر پاپندی لگائی جارہی ہے۔

طلباء اور اساتذہ کو کیا کہنا چاہیے اور کیا نہیں کہنا چاہیے اس پر بھی حد بندی ہورہی ہے۔ اس سے طلباء اور خاص طور پر متحرک طلباء کو دبانے کی کوشش ہورہی ہے۔

مینگ کا کہنا ہے کہ یہ حالیہ تبدیلی ہے ۔ جس سے مائیکرو ایگریشن کا تصور وجود میں آیا ہے۔ جس سے مراد ہے کہ کسی کے ارادی یا غیر ارادی طور پر کیے گئے اعمال کو جارحانہ طور پر لیا جاتا ہے ۔

دراصل ٹرگر وارننگ 2013ء میں عوامی بحث کا اہم موضوع بنا۔

یہ 1990ء میں کی گئی سیاسی درستگی ، دوسروں کی توہین نہ کرنے کی خواہش، اب بقول تعلیمی مبصرین کبھی توہین نہ کرنے کی خواہش میں تبدیل ہورہی ہے۔

امریکی پروفیسرز اور ناقدین کے مطابق اعلیٰ تعلیمی اداروں میں یہ رجحان مالی حقائق کی وجہ سے بڑھا ہے۔ جس سے بری صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

وہ بھی ایسی دُنیا میں جہاں پر رائے کو مستحکم بنانے اور فروغ دینے کے لیے آن لائن دانشوروں کی چیمبر موجود ہیں۔

تجزیہ نگاروں کے خیال میں کالج میں داخلہ لینے کے لیے طلباء کی تعداد میں اضافہ اور حکومتی فنڈز میں کمی کی وجہ سے کالجوں اور جامعات میں مقابلہ شروع ہوگیا ہے۔

اس مقابلے بازی کی وجہ سے ایسی صورتحال ہوگئی ہے جس میں طلباء کے ساتھ گاہگوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔

جس میں طلباء کو سیکھانے کی بجائے انہیں مطمئن کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔

تعلیم میں انفرادی حقوق کی بنیادوں میں پالیسی اصلاحات نافذ کرنے کے ادارے کے ڈائریکٹر اظہر مجید کا کہنا ہے کہ کالج انتظامیہ کی طرف سے شگاگو یونیورسٹی میں آنے والے طلباء کو بھیجا گیا خط ان طریقوں کی ناپسندیدگی کی عکاسی کرتا ہے۔

ابھی تک تمام اداروں میں یہ واحد ادارہ ہے جو یہ موقف لیے ہوئے ہے۔

اظہر مجید کے مطابق انتظامی پہلو کے لحاظ سے یونیورسٹیاں یہ سمجھ رہی ہیں کہ اس طرح کے مطالبات کو ماننا آزادی اظہار اور تعلیمی آزادی کے لیے خطرہ ہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *