بلڈ کینسر کے خلاف مدافعتی خلیوں کا کامیاب تجربہ

  • December 27, 2016 10:29 pm PST
taleemizavia single page

ویب ڈیسک

نیویارک کے علاقے کوپر سٹون کے رہائشی ارنسٹ لیوی اپنے بیٹے کے ہمراہ جنوبی افریقہ میں سال دو ہزار گیارہ میں منعقد ہونے والا ورلڈ کپ دیکھ کر واپس آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

ارنسٹ لیوی کی عمر اس وقت چھہیتر برس کی ہو چکی تھی اور انہیں حرام مغز اور خون کے سرطان میں مبتلا ہونے کی تشخیص کی گئی تھی۔ کینسر کی یہ قسم ہڈیوں کے گودے کو متاثر کرتی ہے اور اس میں مبتلا ہونے والا شخص پانچ برس سے زیادہ مدت تک نہیں جی سکتا۔

لیوی نے اس حوالے سے ابتدائی تشخیص کے بعد بیتھ اسرائیل ڈیکونس میڈیکل سینٹر میں اس مرض کے علاج کے لئے تیار کی جانیوالی ویکسئین کے کلینکل ٹرائلز میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔

کیموتھراپی کے ابتدائی راؤنڈ کے بعد انہیں اور اس تجربے میں شامل دیگر مریضوں کو ایک تجرباتی ویکسئین دی گئی جو امیونوتھراپی کی ایک قسم ہے جس کے ذریعے مدافعتی خلیوں کو ری ایجوکیٹ کیا جاتا ہے کہ وہ کینسر کے خلیوں کو بیرونی حملہ آور تصور کریں اور ان پر حملہ کر کے انہیں ختم کر دیں۔

اس دوا کے تجربے کے بعد مرتب کئے جانیوالے نتائج سے ظاہر ہوا کہ اس ویکسئین کے استعمال کے بعد مدافعتی خلیوں نے کینسر کے خلیوں کے خلاف زبردست کردار ادا کیا ہے اور لیوی سمیت مریضوں کی اکثریت میں سے کینسر کے خلیوں کو نہ صرف کمزور کیا بلکہ انہیں دوبارہ طاقتور ہونے سے بھی روک دیا ہے۔

اس حوالے سے سے بیتھ اسرائیل کے ڈائریکٹر آف کینسر ویکسئین پروگرام ڈیوڈ ایویگان کا کہنا ہے کہ جن سترہ مریضون پر اس ویکسئین کے تجربات کیے گئے ہیں ان کی اوسط عمر تریسٹھ سال تھی جس میں لیوی بھی شامل ہے اور ان میں سے بارہ مریض چار برس گزرنے کے باوجود مرض میں مسلسل کمی کے مرحلے میں ہیں۔

اس حوالے ہونے والے تجربات کے نتائج پر مبنی مفصل رپورٹ حال ہی میں معروف جریدے سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن میں شائع ہوئی ہے۔

کینسر کی اس قسم کے علاج کے روایتی طریقوں کے تحت اس مرض کا علاج کمیوتھراپی کے ذریعے کیا جاتا ہے تاہم اس بات کا امکان موجود ہوتا ہے کہ ابتدائی علاج کے بعد کینسر دوبارہ عود آتا ہے اور عمررسیدہ افراد میں کینسر کے دوبارہ طاقتور ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

تھیرا پیوٹک کینسر ویکسئین کے ذریعے مدافعتی خلیوں جنہیں ٹی سیلز کہا جاتا ہے کو فعال اور طاقتور بنایا جاتا ہے اور انہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ کینسر کے خلیوں کو تلاش کریں اور ان کے خلاف کام کریں۔

اس کے ساتھ ساتھ مریض کے جسم میں اینٹی باڈیز کی پیداوار میں کو نہ صرف بڑھایا جاتا ہے بلکہانہیں کینسر کے خلیوں پر منڈھ دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب ایویگان اور ان کے ساتھیوں نے لیوکیما سیلز حاصل کر کے پرسنلائزڈ ویکسئین تیار کی اور پھر انہیں اس وقت تک فریز کر دیا جب تک مریض کمیو تھراپی کراتا ہے۔

پھر سائنسدانوں نے کینسر سیلز کے خلاف ٹی سیلز کو بھرپور طاقت سے استعمال کیا۔ اس طریقہ علاج کے تحت ویکسئین دس روز میں تیار ہو جاتی ہے اور اسے تین سے چار ہفتے تک ہفتے بعد استعمال کرایا جاتا ہے۔

کینسر کے علاج کا پرسنلائزڈ طریقہ بہت اہم ہے اور ڈاکٹر ایویگان کا کہناہے کہ اگرچہ اس وقت کلینکل ٹرائلز بہت کم تعداد میں مریضوں پر کئے گئے تاہم ان تجربات سے حاصل ہونے والے نتائج مستقبل کے لئے نہایت اہم ہیں اور اب تحقیق کار ان تجربات کا دائرہ کار وسیع کریں گے اور اس میں مزید مریضوں کو شامل کیا جائیگا اسی طرح پرسنلائزڈ ویکسئین دیگر اقسام کے کینسر کے مریضوں پر بھی استعمال کی جائیگی اور نتائج مرتب کئے جائیں گے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *