بیوروکریٹ کیوں بننا چاہیے؟

  • January 13, 2017 4:55 am PST
taleemizavia single page

عمران چغتائی

غلاموں کے خواب کیسے پیدا ہوتے ہوں گے؟ ذہن میں سب سے پہلے یہی بات آتی ہے، آزادی۔ مگر اب ایسا ہوتا نہیں اور پاکستان میں ہوتا ہوا دکھائی بھی نہیں دیتا۔

ہمارے ملک کے بیشتر نوجوان تعلیمی دور میں جب کچھ بننے کا عزم کرتے ہیں تو فوری بیوروکریٹ بن جانے کا خیال پیدا ہوتا ہے اور پھر بیوروکریٹ یا پھر بابو بننے کے خوابوں کی حسرت پوری کرنے کے لیے صرف ایک پختہ ارادہ ضروری ہے اور چلو چلو سی ایس ایس کا امتحان پاس کرنے کی ہمت باندھو۔

آپ اچھا اُستاد، اچھا ڈاکٹر، اچھا وکیل یا پھر دیگر روایتی شعبہ زندگی میں ترقی نہیں کر پارہے اور شارٹ کٹ یعنی مختصر ترقی کے راستے کی تلاش ہے اور اپنی طے کردہ منزل مقصود تک پہنچنا چاہتے ہین تو کوئی بات نہیں، سی ایس ایس کا راستہ اپنائیں اور ترقی پائیں۔

اس راستہ پر چلنے کیلئے کوئی سائنسی فارمولا درکار نہیں ہے اور نہ ہی کوئی فلسفی بننے کی ضرورت ہے بلکہ امتحان پاس کرنے کا نسخہ کیمیاء بڑا سادہ ہے یعنی “انگریزی” ۔ انگریزوں کی زبان پر گرفت اور ساتھ میں بس اتنا لازمی ہو کہ گریجویشن کی تعلیم تک فرسٹ ڈویژن سے امتحانات پاس کر رکھے ہوں تو کامیابی آپ کا انتظار کر رہی ہے۔

اس نسخہ کیمیاء کے اجزائے ترکیبی میں جہاں انگریزی زبان پر مہارت درکار ہے وہیں پر “رٹا” لگانے کا فن بھی سیکھنا ہوتا ہے یعنی جو یاد کر لیا، بس کر لیا اور اگر زیادہ فکر انگیزی کرنے کی کوشش کی اور بہت زیادہ سوچنا سمجھنا چاہا تو پھر رٹا ٹوٹ جانے کا اندیشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

ملکی سیاست اور حالات حاضرہ پر اسٹیبلشمنٹ کا بیان کردہ نقطء نظر سے واقفیت، کمرشل و کاروباری نقطء نظر کے تحت رائے عامہ تشکیل دینے والے انگریزی اخبار کے کالم بھی دوا کا حصہ ہیں یہ کر لیا تو گویا انٹرویو تک پہنچنے میں مزید آسانی پیدا ہوجائے گی۔

اس تیاری میں مروجہ تعلیمی نوٹس، اخبارات، رسائل، سی ایس ایس اساتذہ بھی خوب معاونت کرتے ہیں۔

اگر انٹرویو تک پہنچ جاتے ہیں تو اب انگریزی زبان سے شناسائی اور لب و لہجہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اور یہ پاکستان کی اعلیٰ ترین نوکری بنیادی طور پر مجموعہ ہی آپ کو دیسی انگریز بنانے کا ہے۔ جتنے اچھے دیسی انگریز بن جائیں گے گویا اۡقا اور غلام کے فرق کو بھی سمجھتے چلے جائیں گے۔

آپ کی شخصیت، کردار، اچھائی، برائی، نظر، نظریہ سب کُچھ انگریزی زبان شناسی سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ منزل مقصود، بابو بننا، بابو ہونا، کئی نسلوں سے چلتی غربت کے خاتمہ کا آزمودہ نسخہ، یہ راستہ مشکل ضرور ہے پر ناممکن نہیں۔

اس راستہ سے برسوں پرانی خواہشوں کی تکمیل، آنے والی نسل کی بہترین پرورش، بیوروکریٹ بن جانے کے بعد سب کچھ پورا ہوجاتا ہے۔ رہنے کو نوکر چاکر پر مبنی عالی شان سرکاری گھر، گاڑی بمعہ ڈرائیور جس پر سبز نمبر پلیٹ کا لشکارا جو بگڑی باتیں بھی بنا دیتا ہے۔

بیوروکریٹ کہنے کو تو سرکاری ملازم ہے مگر اس کے بغیر خود سرکار بھی نہیں چل سکتی، سرکار انہیں نہیں چلاتی بلکہ یہ سرکار کو چلاتے ہیں یعنی ملک کے اصل حکمران تو یہ ہیں جن کے پوشیدہ فائدے عوامی نظروں سے اُوجھل ہوتے ہیں۔

بیرون ملک کے دورے، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ معائدات، اپنی تنخواہ سے کئی گُنا مہنگے سکولوں میں اپنے بچوں کی تعلیم، پھر ان بچوں کے بیرون ممالک جامعات میں داخلے، تنخواہ تو معمولی ہوتی ہے لیکن طرز زندگی شاہانہ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوتا ہے اس کا “گُر” سینئر بیوروکریٹس کی کمپنیوں سے مل جاتا ہے یا پھر کسی کے ماتحت کام کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے۔

چند مہینوں پہلے کی بات ہے کہ بلوچستان کا سیکرٹری خزانہ کس طرح دولت میں کھیلتا ہوا پکڑا گیا، چالیس ارب روپے کی کرپشن کی اور پھر نیب نے پلی بارگین کے ذریعے صرف دو ارب روپے میں جان بخشی کرانے کی مہلت بھی دے ڈالی۔ یہ بھی تو بیوروکریٹ تھا لیکن بدقسمت بیوروکریٹ دولت کی ہوس میں کچھ زیادہ آگے چلا گیا اور ماہرین بیوروکریٹ کی معاونت نہ ہونے پر پکڑا گیا۔

بات کہیں اور نکل گیا میں یہ تو بتانا بھول ہی گیا کہ بازار میں بیٹھے اشاعتی ادارے بھی تھوڑی بہت مدد کر دیں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے نقطء نظر سے مزین کتابیں سستی قیمت پر خرید سکتے ہیں گویا سی ایس ایس کے امتحان کی تیاری سے پاس کرنے تک کے مراحل میں آپ کو ہر قسم کا تعاون ملے گا کیونکہ اب تو یہ باقاعدہ کاروبار بھی بن چکا ہے۔

تعلیمی مواد سے لے کر دیسی انگریز بننے کے لیے عادات و اطوار، کیسے کھائیں کیسے بیٹھیں، کیسے چلنا ہے کیسا پہناوا ہو چنانچہ ان امور کا کلی و جزوی مطالعہ کرنے کے لیے نامور کتابیں بھی مارکیٹ سے دستیاب ہوجاتی ہیں۔

اگر کتابوں تک رسائی نہیں مل رہی تو پھر بڑے بڑے شہروں میں سی ایس ایس اکیڈمیوں کا رُخ کر لینا گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔

اب تو ماشاء اللہ سے ان اکیڈمیوں کا کاروبار خوب چمک رہا ہے اور یہ مارکیٹنگ سٹرٹیجی کے تحت باقاعدہ تشہیری مہم چلاتی ہیں اور اخبارات میں جہاں آپ کو تعلیمی مواد مل جاتا ہے وہیں پر ان کے اشتہارات بھی دیکھ سکتے ہیں۔

سی ایس ایس شرطیہ پاس کرانے والی اکیڈمی، انگریزی پڑھانے والے ماہر اُستادوں کی خدمات گویا سب کُچھ مل جائے گا۔ مجھے تو کبھی کبھار یوں لگتا ہے جیسے بیوروکریٹ تیاری کی ابتدائی فیکڑیاں ہی یہی ہیں جہاں سے ایک ہی ساخت کے مستقبل کے سرکاری داماد تیار ہورہے ہیں۔

لیکن اس صورتحال میں دیہاتی محنت کش طالبعلم کو مسئلہ درپیش رہتا ہے کہ انگریزی کلچر کو نقل کیسے کرے؟ اور پھر کس حد تک؟ اس گتھی کو بھی اکیڈمیاں سلجھا دیتی ہیں۔

یہ جفاکشی عارضی ہوتی ہے، ایک بار بیوروکریٹ بن گئے، سول سروس اکیڈمی سے دو سال کی ٹریننگ مکمل کر لی تو گویا اب یہی پاکستان آپ کے لیے جنت ہے، یہاں کی گرمی، یہاں کی لوڈ شیڈنگ، یہاں کی غربت، یہاں کی بدامنی، یہاں کی مہنگی تعلیم، یہاں کی مہنگی صحت سب کُچھ عوام کے لیے ہے۔

آپ کے لیے تو ایئر کنڈیشنڈ لگے دفاتر، ایئر کنڈیشنز والی گاڑیاں، نوکر چاکر والے گھر، اگر نوکری مکمل ہوگئی تو بھی ٹینشن مت لیں ریٹائرمنٹ تک پلاٹ، ملٹی نیشنل کمپنیوں میں ملازمتیں جن کے لیے دوران سروس آپ نے کام کیا حتیٰ کہ ریٹائرمنٹ کی زندگی بھی آسائشات سے بھری ملے گی۔ ایسے تو نہیں کہتے نا کہ سرکاری داماد زندہ باد، سی ایس ایس پائندہ باد اور پاکستان؟؟؟


imran naseem.

عمران چغتائی ٹی وی چینل سے وابستہ ہیں وہ کرنٹ آفیئرز کے سینئر پروڈیوسر ہیں اُنہوں نے ڈپلومیسی اینڈ سٹرٹیجک سٹڈیز میں ایم اے کر رکھا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *