سنیما ہال ناپید، پھر بھی سعودی فلمی صنعت فروغ پا رہی ہے

  • September 24, 2017 11:09 am PST
taleemizavia single page

رپورٹ: وائس آف امریکہ

روایتی شہنشاہیت والا یہ معاشرہ تفریح کا متلاشی ہے۔ مقامی فلم ساز سعوی فنون لطیفہ کی نئی جہتیں تلاش کررہے ہیں، جہاں فلم دکھانے کے لیے انٹرنیٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے اور جذبات کے اظہار کے نئے طریقے وضع ہو رہے ہیں۔ حیران کُن طور پر، اس کام میں، اعلیٰ شاہی خاندان بھی دلچسپی دکھا رہا ہے

سعودی عرب، جہاں فلم تھیٹر تک موجود نہیں، ابھرتے ہوئے فلم سازوں کا جوش و خروش قابلِ دید ہے؛ جب کہ روپ دھارنے کی منتظر بیشمار کہانیاں موجود ہیں اور تفریح کے مواقع کی تڑپ رکھنے والے نوجوان بے چینی سے فلم بینی کے منتظر ہیں۔

ایسے میں، اس بات کے خوش آئند اشارے مل رہے ہیں کہ مقامی فلمی صنعت نے کچھ کر دکھانے کی ٹھان لی ہے۔

بثینہ کاظم نے دبئی میں خودمختار پلیٹ فارم ‘سنیما عقیل’ کی بنیاد ڈالی ہے۔ حال ہی میں، نئی جہت کی سعودی فلموں کی جانب توجہ دلاتے ہوئے، اُنھوں نے بتایا کہ ”مستقبل میں، سعودی عرب خلیج کی فلم سازی میں سرکردہ کردار ادا کرے گا”۔

کاظم نے گذشتہ ماہ دبئی میں تین سعودی فلموں کی نمائش کا بندوبست کیا، جہاں بڑی تعداد میں فلم بین شریک ہوئے، جن میں سے ایک فلم کا نام ‘وسطی’ تھا، جس عربی لفظ کا مطلب ‘اعتدال’ ہے۔

اس فلم میں 1990ء کے وسط کی دہائی کے ایک حقیقت پر مبنی واقعے کی عکس بندی کی گئی ہے، جب چند قدامت پسند لوگ سعودی عرب میں جاری ایک تقریب کے دوران اسٹیج پر دھاوا بول دیتے ہیں اور تقریب بند کردی جاتی ہے۔ اس کے بعد، کئی برس تک سعودی عرب میں تھیٹر ٹھپ ہو جاتا ہے۔

گذشتہ برس، لوس انجلیس میں علی کلثمی کی ایک فلم کی نمائش ہوئی، جسے جون میں ایک رات کے لیے ریاض کی الیمامہ یونیورسٹی میں دکھایا گیا۔ یہ وہی تھیٹر تھا جہاں دو عشرے قبل، پیش کیے جانے والے ایک ڈرامے کی تقریب روک دی گئی تھی۔

کلثمی ‘سی 3 فلمز’ اور ‘تلفاز 11’ کے بانی اور سعدی عرب کے معروف فلم ساز خیال کیے جاتے ہیں۔ تلفاز 11 یوٹیوب کا ایک معروف چینل ہے، جس کا سنہ 2011 میں افتتاح ہوا، جسے اب تک ایک ارب سے زائد لوگ دیکھ چکے ہیں۔

اُن کی فلم ‘وسطی’ گذشتہ سال فلمائی جانے والی متعدد فلموں میں سے ایک ہے، جس کے لیے شاہ عبد العزیز عالمی ثقافتی مرکز نے فنڈ فراہم کیے، جس کا نام سعودی عرب کے تیل پیدا کرنے والے سرکاری ادارے ‘آرامکو’ اور شہنشاہیت کے بانی کے نام پر رکھا گیا ہے۔

کلثمی نے بتایا کہ پہلی بار اُنھوں نے کسی ریاستی ادارے سے مالی اعانت حاصل کی۔

بقول اُن کے، ”میرے خیال میں، چونکہ ہم نے آن لائن نوعیت کی تاریخ رقم کی ہے، اس لے، اُنھوں نے ہم پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ ہم سعودی عرب میں قابل تعریف کہانیاں، لوگوں کو متوجہ کرنے والی کہانیاں پیش کر سکتے ہیں”۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *