دوسالہ ڈگری کا متبادل ایسوسی ایٹ ڈگری ہے:چیئرمین ایچ ای سی

  • March 18, 2017 10:50 pm PST
taleemizavia single page

لاہور

ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چئیرمیں ڈاکٹر مختار احمد نے کہا ہے کہ دو سالہ بی اے اور ایم اے کی ڈگری ختم کرنے کا فیصلہ 2015ء میں کیا گیا تھا تاہم اس تجویز پر کام بارہ سال پہلے شروع کر دیا گیا تھا۔

ایچ ای سی لاہور کے ریجنل دفتر میں ڈاکٹر مختار احمد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ 2014ء میں کمیشن کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس نے دو سالہ ڈگری پروگرام کو ختم کرنے کے لیے سفارشات مرتب کرنا تھیں اس کمیٹی میں چاروں صوبوں کے نمائندوں کو شامل کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر مختار احمد نے پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ 2015ء میں پہلی بار تمام سرکاری جامعات کو خط لکھا گیا تھا جس میں نہ صرف اس فیصلے سے متعلق آگاہ کیا گیا تھا بلکہ انتباہ بھی کیا تھا کہ وہ انتظامات مکمل کریں۔

اُنہوں نے کہا کہ 2018ء کے بعد پرائیویٹ بی اے اور 2020ء کے پرائیویٹ ایم اے کا امتحان دینے کی آپشن ہی ختم کر دی جائے گی اور صرف چار سالہ بی ایس آنرز ڈگری کا مکمل نفاذ ہوجائے گا۔ صحافی کے سوال کے جواب میں ڈاکٹر مختار احمد نے کہا کہ چار سالہ پروگرام میں اگر کوئی طالبعلم دو سال بعد ہی تعلیم چھوڑنا چاہتا ہے تو اُسے ایسوسی ایٹ ڈگری دی جائے گی تاہم اگر وہ اس کے بعد دوبارہ تعلیم شروع کرنا چاہے تو اُس کی بھی قانونی طور پر اجازت ہوگی۔

لازمی پڑھیں؛ پاکستان سے دو سالہ بی اے اور دو سالہ ایم اے ڈگریاں ختم

ڈاکٹر مختار احمد نے اس پریس کانفرنس میں بتایا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ایچ ای سی نے صوبوں سے مشاورت کیے بغیر اس فیصلے کو صادر کر دیا ہے، اُنہوں نے بتایا کہ صوبوں کو پہلے سے ہی اس فیصلے سے متعلق آگاہی تھی۔

اُنہوں نے انتہائی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دُںیا بھر میں اس طرح کا پرائیویٹ امتحان نہیں ہوتا جس طرح کا پاکستان میں گریجویشن اور ماسٹرز کی سطح پر لیا جاتا ہے، پاکستان کو اب اعلیٰ تعلیم سے متعلق مزید اس طرح سے آگے نہیں چلایا جاسکتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت سرکاری یونیورسٹیز کے ساتھ 3 ہزار 720 کالجوں کا الحاق ہے جہاں یہ دو سالہ ڈگری پروگرام کرایا جارہا ہے اور یونیورسٹیوں نے ان پروگرامز کو اپنی آمدن کا ذریعہ بنا رکھا ہے جس کی بناء پر مخالفت کی جارہی ہے۔

ڈاکٹر مختار احمد کہتے ہیں کہ ایچ ای سی پورے ملک میں ایک ہی طرح کا تعلیمی نظام نافذ کر رہی ہے اب 16 سالہ تعلیم بی ایس آنرز اور 18 سالہ تعلیم ایم ایس یا ایم فل کی بنیاد پر متعارف ہوگی گویا پاکستان کو عالمی معیارات کے مطابق اپنے ہائر ایجوکیشن سسٹم کو لاگو کرنا ہوگا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں ہزاروں ایسے طلباء موجود ہیں جن کے پاس چار چار ایم اے کی ڈگریاں تو ہیں لیکن اُن کے پاس سکلز نہیں ہے کیونکہ جن مضامین میں وہ ڈگریاں رکھتے ہیں اُس کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ نہیں ہے۔

اس معاملے پر اُن کا کہنا تھا کہ کراچی، پشاور اور لاہور میں ابتدائی طور پر ایسے طلباء کے لیے شارٹ کورسز متعارف کرائے جارہے ہیں جہاں اُنہیں سکلز بیسڈ ایجوکیشن دی جائے گی تاکہ اُنہیں ملازمتوں کے حصول میں دُشواری نہ ہو۔

یونیورسٹیز میں لیکچرر اور اسسٹنٹ پروفیسر کی کوالیفیکشن کے سوال پر ڈاکٹر مختار احمد نے بتایا کہ 2015ء میں جامعات کو ڈیڈ لائن دی تھی کہ وہ اسسٹنٹ پروفیسر کیلئے پی ایچ ڈی اور لیکچرر کیلئے ایم فل کی شرائط لاگو کریں تاہم اب ایچ ای سی نے آخری وارننگ جاری کر دی ہے۔ نئی بھرتیاں نئی پالیسی کے مطابق ہوں گی۔

اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سرکاری ونجی جامعات میں اساتذہ کی تعداد 41 ہزار ہے جن میں سے صرف 12 ہزار پی ایچ ڈی ہیں، پاکستان میں اس وقت 30 ہزار پی ایچ ڈی کا شارٹ فال ہے جسے پورا کرنا اشد ضروری ہے۔ ڈاکٹر مختار احمد نے بتایا کہ ملک میں 26 ہزار سکالرز ایم فل میں زیر تعلیم ہیں جو مستقبل میں یہ گیپ کم کرنے میں معاون ثابت ہوں گے۔


  1. اب تک دو سالہ ایم اے اور بی اس کے پروگرام کامیابی سے چلتے رہے ہیں اور ہر میدان میں اس نے قابلِ فخر افراد ملک کو دئیے ہیں۔ 4سالہ بی ایس / ایم ایس پروگرام تو اس وقت تک جامعات میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ ویسے بھی ملک میں اکثریت غریب اور متوسط طبقے کی ہے، اور اس کے لئے آٹھ سمسٹر کے اخراجات برداشت کرنا ممکن نہیں۔ دوسری طرف سمسٹر سسٹم نے طالبعلم کو استاد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، جہاں قابلیت کی بجائے چاپلوسی، رشوت اور بے ایمانی ہی کام آتی ہے۔ اساتذہ کی اخلاقی تربیت اور اِن مفاسد کا راستہ روکنے کے لئے ایچ ای سی کے پاس اب تک کوئی انتظام نہیں۔ تیسر طرف اعلیٰ تعلیم سے تحقیق کے خاتمے کے راستے ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ اور جو تحقیق اس وقت ہو رہی ہے وہ بھی ایچ ای سی کے چیرمیں صاحب کے علم میں ہے کہ ڈگریاں ریوڑیوں کی ظرح بانٹی جا رہی ہیں۔ ایک طرف چیرمین صاحب کہتے ہیں کہ پرائیویٹ تعلیم کو ختم کیا جا رہا ہے کہ اس کا معیار ٹھیک نہیں او ر وہاں تدریس نہیں ہوتی، جبکہ دوسری طرف نجی تعلیمی ادارے کھمبیوں کی طرح اگا دئیے گئے ہیں اور وہاں تو سرے سے تعلیم نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں، الا ما شاءاللہ،، لیکن ڈگریاں لاکھوں لیکر تقسیم کی جا رہی ہیں۔ایک طرف جامعات کے دو سالہ اور پرائیویٹ پر یہ اعتراض ہے کہ وہ پیسے کمانے کا ذریعہ ہیں جامعات میں۔ جبکہ نجی تعلیمی کالجز اور جامعات ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں برائے فروخت ہیں اور کمانے کا کاروبار عروج پر ہے۔ اور اب تک ان اداروں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی کہ وہ اشرافیہ کے پروردہ لوگوں کے ہیں۔ جو تعلیم جدید ایسٹ انڈیا کمپنی، یعنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے نمائندہ، ورلڈ بنک کے احکامات اور ہدایات و پالیسی کے مطابق دی جارہی ہو، اس سے سکالرز پیدا ہونا تو ممکن نہیں، تاہم ان سے نرے ذہنی غلام ابن غلام ہی پیدا ہو رہے ہیں۔اور امریکی ایوانِ نمائیندگان کے ایک نمائیندے نے بالکل درست بیان پارلیمنٹ میں دیا تھا کہ “ہم نے پاکستان کے تعلیمی نظام کا بندوبست کر لیا ہے، اب و ہاں سے کوئی ڈاکٹر ق
    دیر پیدا نہیں ہوگا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *