ایپل ٹیکنالوجی کے بانی اسٹیو جابس کی کہانی

  • April 7, 2018 12:05 pm PST
taleemizavia single page

فاروق احمد انصاری

ضروری نہیں کہ آپ ایپل پروڈکٹس استعمال کرتے ہوں یا آپ کی جیب میں آئی فون ہو لیکن یہ بات یقینی ہے کہ آپ نےاسٹیو جابس کا نام ضرور سن رکھا ہوگا۔ اسٹیو جابس امریکی بزنس مین، موجد اور ایپل کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ انہیں اپنی کمپنی سے نکالا گیااور پھر دوبارہ سربراہ بنایا گیا اوراس کے بعد اسٹیو جابس نے کمپنی کو دنیا کی امیر ترین کمپنی بنا دیا ۔

ان کے ایجاد کردہ میوزک پلیئر یا آئی پوڈ کی نوجوان نسل دیوانی بن گئی اور جابس نے اربوں ڈالر کمائے۔ اسٹیو جابس جب بھی کوئی نئی پروڈکٹ کی رُو نمائی کرنے جارہے ہوتے تو چاہتے تھے کہ وہ ٹائم میگزین کے سرِ ورق کی زینت بنے یا سی این این پر اُس کی اسٹوری چلے۔

ایپل نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کی رپورٹ جاری کردی، جس کے مطابق کمپنی نے مجموعی طور پر88 ارب 30 کروڑ امریکی ڈالر کمائے۔اگرچہ کمپنی کی کمائی میں 13 فیصد اضافہ دیکھا گیا، تاہم یہ کمائی ان اندازوں سے کم نکلی، جس کے امریکی کاروباری اداروں نے اندازے لگائے تھے۔

رپورٹ کے مطابق جنوری 2018 تک دنیا بھر میں ایپل کی ہر طرح کی ایکٹو ڈیوائسز کی تعداد ایک ارب 30 کروڑ تک پہنچ گئی۔جو کمپنی کے لیے ایک نیا سنگ میل ہے۔

یکم فروری کو جاری کی گئی رپورٹ میں ایپل نے بتایا کہ پہلی سہ ماہی میں کمپنی کے شیئر کی کمائی میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔جب کہ کمپنی نے اپنے منافع سے اپنے سرمایہ کاروں کو بھی 14 ارب ڈالر سے زائد کی خطیر رقم واپس بھی کی۔

سٹیو جابس نے 1972ء میں ریڈ کالج میں داخلہ لیا وہاں کیلی گرافی اور ایڈیٹنگ کی کلاسز لینا شروع کیں۔ وہ ایک لااُبالی، بے حد شرارتی اور ہٹ دھرم لڑکا تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے قانون شکنی کا ارتکاب کیا جس پر اسے کالج سے نکال دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں؛ نکولا ٹیسلا جس نے بیسویں صدی ایجاد کی

یہاں سے اسٹیو جابس کی زندگی تعلیم سے بزنس کی جانب رُخ کرلیتی ہے۔ بزنس جو سراسر پریکٹس کا نام ہے، اسٹیو دو وجہ سے اس کام کے یے فطرتاً بہت سازگار تھے ایک، انہوں نے اپنے والد کو دیکھا کہ وہ ایک تکمیل پسند آدمی ہے۔

جس کام کا آغاز کرتے ہیں اسے نہایت عمدگی سے جاری رکھتے ہوئے تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے والد سے یہ چیز سیکھی اور اپنی رگ و پئے میں بسالی۔ دوسرے، اسٹیو کی طبیعت ہٹ دھرم تھی، جس کا ذرا مثبت رخ یہ تھا کہ ’’اسٹیو‘‘ سوچ و فکر کے بعد ایک رائے کو اختیار کرتے اور اس پر مضبوطی سے جم جاتے۔ یوں وہ ان دو صفات کے ساتھ تجارت کے میدان میں اتر ے۔

ریڈ کالج میں آڈیٹنگ کی کلاسیں لیتے ہوئے ان کی دوستی اپنے ہم نام ’’اسٹیو واز نیک‘‘ سے ہو گئی اور انہوں نے مل کر کام کرنے اور کوئی نئی ایجاد بنا نے کا فیصلہ کیا۔

ان تھک کوشش کے بعد دی ایپل ون کمپیوٹر تیار کیا، یہاں سے اسٹیو جابس کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ یہ نکتہ ان کی کامیابیوں کے لیے بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا اور اس کے بعد کامرانیوں کی موسلا دھار بارش ان کا مقدربنتی چلی گئی ۔

اُنیس سو چوراسی میں اسٹیو جابس مین ہٹن آئے تھے تاکہ ٹائم میگزین کے ایڈیٹرز کے ساتھ لنچ کرکے ایپل کے نئے میکنٹوش کمپیوٹر کا تعارف کرو اسکیں۔

وہ اُس وقت بھی تُند مزاج تھےاور ٹائم کے ایک نامہ نگار کے ساتھ اُن کارویہ جارحانہ تھا کہ اُس نے اُسے ایک ایسی اسٹوری سے زک پہنچائی تھی جس میں بہت انکشافات تھے۔ جب اسٹیوکو کوئی نئی چیز متعارف کرانی ہوتی تھی، جیسا کہ اگلا کمپیوٹر یا پکسار مووی، اُن کی مسکراہٹ بتا دیتی تھی کہ یہ ان کے اب تک کے کئے جانے والے کام میں سے بہترین کام ہے۔

لازمی پڑھیں؛ بل گیٹس کی دوبارہ طالبعلم بننے کی خواہش؟

جب اُن کو ایپل میں بحال کردیا گیا تو ان کی تصویر ٹائم میگزین پر شائع ہوئی۔ جب وہ بارہ سال کے تھے تو ایک فریکئونسی کاؤنٹر بنانا چاہتے تھے اور اُنہوں نے نے فون بک میں بل ہیولٹ کے بانی کو دیکھ کر اُس کو فون کیا تاکہ پرزے حاصل کرسکے ۔بعد میں اسٹیو جابس نے ایک ایسی کمپنی کی تخلیق جو جدید تخلیقی صلاحیتوں سے اتنی مالا مال تھی کہ ہیولیٹ پیکارڈ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

گہری شخصیت کے حامل ایک تخلیقی انٹرپرینیور اسٹیو جابس کی اتار چڑھائو سے بھر پور زندگی کے باوجود اپنےکمالِ فن کے جذبہ اور جارحانہ طرز نے چھ صنعتوں میں انقلاب برپا کردیا: پرسنل کمپیوٹر، موویز، موسیقی، فون، ٹیبلٹ کمپیوٹنگ اور ڈیجیٹل پبلشنگ۔۔ آپ اس میں ساتویں صنعت، ریٹیل اسٹورز کی شامل کرسکتے ہیں، جس میں جابس اگرچہ انقلابی تبدیلی نہیں لائے لیکن انہوں نے اُس کے بارے میں سوچا ضرورتھا۔

اس کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے ڈیجیٹل مواد کے لئےویب سائٹس کے برخلاف ایپس کی بنیاد پر نئ منڈی کی راہیں کھولیں۔ اس راستے پر اُنہوں نے نہ صرف مصنوعات کو تبدیل کیا بلکہ، اپنی دوسری کوشش میں ایک ایسی دیرپا کمپنی بنائی، جس پر ان کی شخصیت کی گہری چھاپ تھی، اور جس میں ایسے ڈیزائنرز اور بہادر انجینیئرز بھرے پڑے تھے جو اُس کے وژن کو لے کر آگے بڑھ سکتے تھے۔

اگست 2011 میں وہ اس ادارے کے سی ای او کے عہدے سے ہٹ گئے ، جو انہوں نے اپنے والدین کے گیراج سے شروع کیا تھا اوراب دنیا کا سب سے اہم ادارہ بن چکا تھا۔

ایک ایسے وقت میں جب ریاست ہائے متحدہ امریکہ ایسے راستے تلاش کررہا ہے تاکہ اپنی ایجادات کا پلڑا بھاری رکھ سکے اور جب دنیا بھر کے معاشرے یہ تگ و دو کر رہے ہیں کہ ڈیجیٹل عہد کی اختراعی اقتصادیات بنا سکیں، جابس کی شخصیت اختراع، تخیل، اور دیرپا ایجاد کیلئے مشعل راہ ہے ۔

وہ جانتےتھے کہ اکیسویں صدی میں اسی کی اہمیت ہوگی جو تخلیق کو ٹیکنالوجی سے جوڑے گا ، اسی لیےانہوںنے ایک ایسی کمپنی بنائی جہاں تخیلات کی راہوں کو بہترین انجینیئرنگ کے ساتھ ملایا گیا۔ وہ اور اُس کے ایپل کے ساتھی مختلف انداز میں سوچنے کے قابل ہوسکے: اُنہوں نے نہ صرف فوکس گروپ کے سہارے انتہائی جدید مصنوعات بنائیں، بلکہ ایسے نئے آلات اور سہولیات ایجاد کیں جو کہ صارف اُس وقت تک جانتا ہی نہیں تھا کہ اُسے اُس کی ضرورت ہے۔

وہ کوئی مثالی انسان نہیں تھے، کہ اُن کی پیروی کی جائے۔ غصے سے بھرپور وہ اپنے اطراف موجود لوگوں کو غصہ دلاسکتے تھے، مایوسی کی طرف دھکیل سکتے تھے۔ لیکن اُن کی شخصیت، جذبہ، اور مصنوعات ان سب کا آپس میں ربط تھا، بالکل اُسی طرح جیسے ایپل کا ہارڈویئر اور سافٹ ویئر ایک مربوط نظام کا حصہ لگتا ہے۔

ان کی کہانی نصیحت آموز ہونے کے ساتھ ساتھ سبق آموز بھی ہے جو ایجادات، کردار، قیادت، اقدار کے اسباق کے ساتھ ہے اور رہتی دنیا تک باقی رہے گی۔


  1. I blog quite often and I truly thank you for your information.
    This article has really peaked my interest.
    I’m going to book mark your website and keep checking for new details about once per week.
    I opted in for your Feed as well.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *